Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ جو ایمان لائے (ایمان والے)
اِذَا
: جب
قُمْتُمْ
: تم اٹھو
اِلَى الصَّلٰوةِ
: نماز کے لیے
فَاغْسِلُوْا
: تو دھو لو
وُجُوْهَكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيَكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِلَى
: تک
الْمَرَافِقِ
: کہنیاں
وَامْسَحُوْا
: اور مسح کرو
بِرُءُوْسِكُمْ
: اپنے سروں کا
وَاَرْجُلَكُمْ
: اور اپنے پاؤں
اِلَى
: تک
الْكَعْبَيْنِ
: ٹخنوں
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
جُنُبًا
: ناپاک
فَاطَّهَّرُوْا
: تو خوب پاک ہوجاؤ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر (میں)
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ
: اور
جَآءَ
: آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
مِّنَ الْغَآئِطِ
: بیت الخلا سے
اَوْ لٰمَسْتُمُ
: یا تم ملو (صحبت کی)
النِّسَآءَ
: عورتوں سے
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر نہ پاؤ
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرلو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: تو مسح کرو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
مِّنْهُ
: اس سے
مَا يُرِيْدُ
: نہیں چاہتا
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَجْعَلَ
: کہ کرے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْ
: کوئی
حَرَجٍ
: تنگی
وَّلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّرِيْدُ
: چاہتا ہے
لِيُطَهِّرَكُمْ
: کہ تمہیں پاک کرے
وَلِيُتِمَّ
: اور یہ کہ پوری کرے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
نماز کے لئے طہارت کا بیان قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم، اے ایمان لانے والو ! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے چہرے دھو لو) تا اخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت نماز کے لئے اٹھنے کے بعد وجوب طہارت کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لئے اٹھنے کو طہارت کے عمل کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ نحوی لحاظ سے جزا کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ شرط سے متاخر ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ” اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق “ تو اس صورت میں گھر کے اندر داخل وہنے کے بعد اس پر طلاق واقع ہوگی۔ جب کسی سے یہ کہا جائے کہ ” جب زید سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کا اکرام کرو “۔ تو اس صورت میں قائل کا یہ قول ملاقات کے بعد اکرام کا موجب ہے۔ اس بارے میں اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہی مفہوم لفظ کا مقتضی اور اس کی حقیقت ہے۔ سلف سے لے کر خلف تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز کے لئے اٹھنا طہارت کے ایجاب کا سبب نہیں ہے بلکہ طہارت کا وجوب اس کے سوا کسی اور سبب کے ساتھ متعلق ہے۔ اس لئے نماز کی خاطر اٹھنے کے بعد ایجاب طہارت کے لئے اس لفظ میں عموم نہیں ہے کیونکہ حکم عا تعلق قیام الی الصلوۃ کے ساتھ نہیں بلکہ ایک ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہے جو یہاں مذکور نہیں ہے۔ لفظ کے اندر بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نماز کے لئے اٹھنے کے بعد طہارت کے وجوب کی تکرار کی موجب بن سکے۔ اس کے دو وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو وہ ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ حکم کا تعلق ایک پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہے جو عبارت میں مذکور نہیں ہے بلکہ اس پر کسی اور لفظ کے ذریعے دلالت حاصل کرنے یک ضرورت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں حرف اذا تکرار کو واجب نہیں کرتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ایک شخص کسی دوسرے سے یہ کہتا ہے۔ جب زید گھر میں داخل ہو تو اسے ایک درہم دے دینا “ تو گھر میں ایک دفعہ داخل ہونے پر زید ایک درہم کا مستحق ہوجاتا ہے لیکن دوسری مرتبہ داخل ہونے پر وہ کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے ” جب تو گھر میں داخل ہوگی تو تجھ پر طلاق “ تو گھر میں ایک دفعہ داخل ہونے پر اسے طلاق ہوجائے گی اور اگر وہ دوسری دفعہ داخل ہوگی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نماز کے لئے قیام کی تکرار کی وجہ سے طہارت کے وجوب کی تکرار پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی توجیہ کی بناء پر یہ ضروری قرار پایا کہ ایک شخص آیت کے حکم کے تحت صرف ایک ہی دفعہ ضو و کرے اس کے جواب میں ہا جائے گا کہ ہم نے یہ وضاح کردیا ہے کہ آیت اس وقت تک طہارت کے ایجاب کے سلسلے میں خود مکتفی نہیں ہوسکتی جب تک اس کی عبارت میں پوشیدہ لفظ کی مراد کو بیان نہ کردیا جائے۔ اس لئے معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آیت سے تو صرف ایک ہی مرتبہ وضو کرنا لازم ہوتا ہے کیونکہ آیت معنی کے لحاظ سے مجمل ہے اسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے پس جس وقت بیان وارد ہوجائے گا ایجاب طہارت کے سلسلے میں اسے ہی مراد قرار دیا جائے گا۔ اور اسی کے ساتھ ایک دفعہ یا تکرار کی صورت میں بیان مراد کے منشا اور تقاضے کے مطابق حکم کا تعلق ہوگا۔ اگر آیت کا لفظ ایسا عموم ہوتا جو اس امر میں حکم کا مقتضی قرار پاتا جس کے بارے میں اس کا درود ہوا ہے اور اسے بیان کی ضرورت نہ ہوتی تو اس صورت میں بھی آیت لفظی جہت سے قیام الی لصلوۃ کے وقت طہارت کی تکرار کی موجب نہ ہوتی۔ بلکہ صرف معنی کی جہت سے جس کے ساتھ وجوب طہارت کو متعلق کیا گیا ہے، یہ تکرار کی موجب ہوتی اور وہ معنی ہے حدث نہ کیا کہ الی الصلوۃ۔ ہمیں اس شخص نے روایت بیان کی ہے جس پر روایت کے سلسلے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں ابو مسلم کرخی نے، انہیں ابو عاصم نے سفیان سے، انہوں نے علقمہ بن مرشد سے، انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے پانچ نمازیں ادا کیں اور موزوں پر مسح کیا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! آپ نے آج ایک ایسا کام کیا جو اس سے پہلے نہیں کرتے تھے “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : ” میں نے عمداً ایسا کیا ہے۔ “ ہمیں ایک ایسے شخص نے روایت بیان کی جس کی روایت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں محمد بن یحییٰ الذہلی نے، انہیں احمد بن خالد الوہبی نے، انہیں محمد بن اسحاق نے محمد بن یحییٰ حبان سے، انہوں نے عبداللہ بن عبداللہ عمر ؓ سے یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ سے پوچھا کہ آیا آپ کے خیال میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہر نماز کے لئے وضو کرتے خواہ با وضو ہوتے یا نہ ہوتے۔ وہ کہنے لگے مجھے اسماء بنت زید بن الخطاب نے بیان کیا کہ انہیں عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر الغسیل نے بتایا کہ حضور ﷺ کو ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا خواہ آپ باوضو ہوتے یا نہ ہوتے لیکن یہ حکم جب آپ کے لئے مشقت کا سبب بن گیا تو آپ کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم ملا اور وضو کرنے کی اپنے اندر طاقت محسوس کرتے تھے اس لئے موت تک وہ اس پر عمل پیرا رہے۔ پہلی روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ قیام الی الصلوۃ طہارت کی موجب نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ نے ہر نماز کے لئے وضو کی تجدید نہیں یک تھی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت کی عبارت میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس کے ساتھ ایجاب طہارت کا حکم متعلق ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں بہ بیان ہوا کہ وہ پوشیدہ لفظ حدث ہے کیونکہ راوی کے الفظا ہیں : ” ووضع عنہ الوضوء الا من حدث “ (وضو کرنے کا حکم ختم کردیا گیا الا یہ کہ حدث لاحق ہوچکا ہو) ۔ آیت کی عبارت میں پوشیدہ لفظ حدث ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے سفیان نے جابر سے اور انہوں نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے نقل کی ہے، انوہں نے عبداللہ بن علقمہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ جب پانی بہاتے یعنی پیشاب کرتے تو ہماری گفتگو کے جواب میں گفتگو نہ کرتے، ہم آپ کو سلام کہتے آپ پھر بھی کلام نہ فرماتے حتیٰ کہ گھر میں داخل ہوجاتے اور پھر نماز کے وضو کی طرح وضو فرماتے۔ جب رخصت کی آیت (یا ایھالذین امنو اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم تا اخر آیت نازل ہوئی تو ہم نے اس کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’ دیہ آیت حدث کی صورت میں نماز کے لئے اٹھنے پر وضو کے ایجاب کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے “۔ ہمیں اس شخص نے روایت بیان کی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، انہیں محمد بن علی بن زید نے بتایا کہ سعید بن منصور نے انہیں روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے، انہیں ایوب نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ بیت الخلاء سے باہر آئے۔ آپ کے سامنے کھانا رکھا گیا اور ایک نے عرض کیا کہ وضو کا پانی نہ لا دوں۔ اس پر آپ نے فرمایا (انما امرت بالوضوء اذا قمت الی الصلوۃ مجھے اس وقت وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب میں نماز کے لئے اٹھوں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ لوگوں نے آپ سے حدث لاحق ہونے کی صورت میں کھانے کے وقت وضو کرنے کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ نے انہیں بتایا کہ حدث کی صورت میں نماز کے لئے اٹھنے کے وقت وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابومعشر المدنی نے سعید بن ابی سعید المقبری سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لولا ان اشق علی امتی لامرت لکل صلوۃ بوضوء و مع کل وضوء بسواک۔ اگر یہ بات نہ ہوتی میرے اس حکم سے امت مشقت میں پڑجاتی تو میں ہر نماز کے لئے وضو کا اور ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت ہر نماز کے لئے وضو کے ایجاب کی مقتضی نہیں۔ اس دلالت کے دو وجوہ ہیں اول یہ کہ اگر آیت اس بات کی موجب ہوتی تو آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ (لامرت فی کل صلوۃ بوضوء) دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے بتادیا کہ اگر آپ وضو کا حکم دے دیتے تو آپ کے حکم سے نہ کہ آیت کی رو سے ہر نماز کے لئے وضو واجب ہوجاتا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ آیت میں ہر نماز کے لئے وضو کے وجوب کا پہلو موجود نہیں تھا۔ امام مالک بن انس نے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ ” جب تم بستر سے اٹھو یعنی نیند سے بیدار ہو “ طہارت کے بغیر سلام کا جواب دینا بھی ممنوع تھا۔ قتادہ نے حسن سے، انہوں نے ابو ساسان حضین سے اور انہوں نے حضرت مہاجرین امیہ ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں آیا آپ اس وقت وضو کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا، جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا (ما منعنی ان ارد علیک السلام الا انی کنت علی غیر وضوء میں نے تمہارے سلام کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ میں باوضو نہیں تھا) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن شاذان نے، انہیں معلی بن منصور نے، انہیں محمد بن ثابت العیدری نے، انہیں نفع نے کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ کسی ضرورت کے سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا۔ جب آپ حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ کام ختم کرچکے تو بعد میں اس دن جو گفتگو ہوئی اس میں درج ذیل بات بھی شامل تھی۔ ایک دن حضور ﷺ مدینے کی ایک گلی سے گزر رہے تھے آپ ابھی قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تھے۔ ایک شخص نے آپ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک دیوار پر اپنی ہتھیلیاں مار کر چہرے کا مسح کیا پھر دوسری دفعہ دیوار پر ہتھیلیاں مار کر دونوں بازوئوں کو کہنیوں سمیت مسح کیا۔ پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ میں نے صرف اس لئے جواب نہیں دیا کہ میں باوضو نہیں تھا۔ “ یا یہ فرمایا : ” میں طہارت پر نہیں تھا۔ “ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ سلام کا جواب دینے میں بھی طہارت شرط تھی۔ تاہم اس میں یہ گنجائش ہے کہ شاید یہ حضور ﷺ کی خصوصیت ہو اس لئے کہ آپ سے کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ نے طہارت کے بغیر سلام کا جواب دینے سے منع فرمایا ہو۔ اس معاملے میں حضور ﷺ کی خصوصیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں سلام کا جواب نہ رہ جائے تو آپ نے تیمم کر کے سلام کا جواب دے دیا اس لئے کہ سلام کے جواب میں تاخیر جواب نہ دینے کے مترادف ہے، جواب وہی ہوتا ہے جو فوری طور پر دیا جائے۔ جس طرح ایک شخص کو اگر یہ اندیشہ ہو کہ وضو میں مصروف ہوجانے کی صورت میں اس سے عید یا جنازے کی نماز رہ جائے گی تو اس کے لئے وضو کی بجائے تیمم کرلینا جائز ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی گنجائش ہے کہ حضور ﷺ سے یہ حکم منسوخ ہوچکا ہو اور یہ بھی گنجائش ہے کہ وفات تک آپ پر یہ حکم لازم رہا ہو۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے متعلق روایت ہے کہ یہ تمام حضرات ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے۔ یہ روایت اس پر محمول ہے کہ ان حضرات کا وضو استحباب کے طور پر ہوتا تھا۔ حضرت سعد سے ان کا یہ قول مروی ہے ” جب تم وضو کرلو تو جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے نماز پڑھتے رہو “۔ ابن ابی ذویب نے حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام شعبہ سے روایت کی ہے کہ عید بن عمیر ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ) کا یہی مفہو لیتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ کو جب اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے اسے ناپسند کیا۔ ہر نماز کے لئے حدوث کے بغیر وضو کے ایجاب کی نفی کی تائید میں حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابوموسیٰ ؓ حضرت جابر بن عبداللہ، عبیدہ السلمانی، ابو العالیہ، سعید بن المسیب، ابراہیم نخفی اور حسن بصری سے روایتیں منقول ہیں۔ فقاء کے مابین اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے تجدید وضو یعنی تازہ وضو کرنے کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔ ایک روات وہ ہے جو ہمیں ایک ثقہ شخص نے سنائی ہے۔ انہیں محمد بن زید نے۔ انہیں سعید نے، انہیں سلام الطویل نے زید العتمی سے، انہوں نے معاویہ بن قبرہ سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ وضو کے لئے پانی منگوایا، اور ایک ایک مرتبہ وضو کے تمام اعضاء دھوئے اور پھر فرمایا (ھذا وظیفۃ الوضوء، وضوء من لا یقبل اللہ لہ صلوۃ الا بہ۔ یہ وظیفہ، وضو ہے، یعنی وضو کا معین عمل، یہ اس شخص کا وضو ہے جس کی کوئی نماز اس کے بغیر اللہ قبول نہیں کرتا) پھر آپ ایک گھڑی باتیں کرتے رہے اور اس کے بعد پانی منگوا کر وضو کیا، اس دفعہ آپ نے ہر عضو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا (نذا وضو، من توضابہ ضاعف اللہ لہ الاجر مرتین۔ یہ وضو ایسا ہے کہ اس کے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دو مرتبہ اجر عطا کرے گا) پھر کچھ دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور اس کے بعد پانی منگوا کر وضو کیا۔ اس مرتبہ ہر عضو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا (نذا وضو فی ودضوء النبیین من قبلی یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے) آپ سے یہ قول بھی مروی ہے (الوضوء علی الوضوء نور علی نور، وضو رہت ہوئے وضو کرنا نور علی نور ہے) آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (لولا ان اشق علی امتی لامرتھم بالوضوء عند کل صلوۃ اگر یہ بات میری امت کو مشقت میں مبتلا کرنے کی باعث ہوتی تو میں انہیں ہر نماز کے لئے وضو کرنے کا حکم دیتا) یہ تمام روایات ہر نماز کے لئے وضو کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں خواہ پہلے سے ایک شخص کا وضو باقی کیوں نہ ہو۔ سلف سے ہر نماز کے لئے تجدید وضو کی جو روایات منقول ہیں انہیں بھی اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کرنے کے بعد فرمایا : ’ دیہ اس شخص کا وضو ہے جسے حدث لاحق نہ ہوا ہو۔ “ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ سے اس بات کی روایت کی۔ درج بالا وضاحتوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ) ہر نماز کے لئے وضو کا موجب نہیں ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آیت اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل نہیں بلکہ اس کی عبارت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی ہے جس کے ساتھ ایجاب طہارت کا حکم متعلق ہے اور یہ آیت ایک مجمل فقرے کی مانند ہے جسے بیان اور تفصیل کی رورت ہے نیز اس کے عموم سے صرف ان ہی صورتوں می استدلال درست ہوسکتا ہے جن کے لئے اس کی مراد کی تانید میں دلیل موجود ہے۔ نوم یعنی نیند کی وجہ سے وضو کے ایجاب پر حضور ﷺ سے تواتر کی حد تک روایات منقول ہیں۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کے لئے قیام وضو کا موجب نہیں ہے، اس لئے کہ جب نیند کی وجہ سے وضو واجب ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد قیام الی الصلوۃ وضو کا موجب نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب نیند کی وجہ سے وضو واجب ہوجائے تو اس کے بعد اگر اس نے وضو نہ کیا ہو تو کسی اور حدث کی وجہ سے اس پر دوسرا وضو واجب نہیں ہوگا۔ اگر قیام الی الصلوۃ وضو کا موجب وہتا تو نماز کے ارادیسے اٹھنے پر نیند کے سبب وضو واجب نہ ہوتا۔ جس طرح کسی دو اسباب میں سے ہر سبب اگر موجب وضو ہو اور ایک شخص پہلے سبب کی بناء پر وضو کرلے تو دوسرے سبب کی بنا پر اس پر وضو واجب نہیں ہوگا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ” من النوم “ وہ لفظ ہے جو آیت میں پوشیدہ ہے اس لئے اس کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” جب تم نیند سے اٹھ کر نماز کے لئے چلو “ جیسا کہ زید بن اسلم سے یہ قول منقول ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وضو واجب کردینے والی نیند سے مراد وہ معتاد نیند ہے جس سے بیدار ہونے پر یہ کہنا درست وہ سکتا ہو کہ ” فلاں شخص نیند سے اٹھا ہے “۔ اس لئے جو شخص بیٹھے بیٹھے یا رکوع اور سجدے کی حالت میں سو گیا ہو اس کے متعلق یہ کہنا درست ہیں ہوتا کہ یہ نیند سے اٹھا ہے۔ وضو کی موجب اس نیند کا اطلاق لیٹ کر سوجانے والے پر ہوتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ نیند دث نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے طہارت صرف اس لئے واجب ہوتی ہے کہ اس حالت میں حدث لاحق ہونے کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس تاویل کی صورت میں آیت ہوا خارج ہونے کی وجہ سے طہارت کے وجوب پر دلالت کرے گی۔ اگر بات ہمارے بیان کے مطابق درست ہے تو پھر آیت کے ضمن میں نیند اور ریح خارج ہونے کی بناء پر ایجاب وضو پر دلالت موجود ہے۔ اس سے پیشاب پاخانے یک وجہ سے وضو کا ایجاب بھی مراد لیا گیا ہے۔ جو آیت میں ایک پوشیدہ لفظ کی بنا پر ہے اس لئے کہ ایجاب وضو کا حکم اس قول باری میں مذکور ہے۔ (اوجاء احدکم من الغائط، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو) غائط پست زمین کو کہتے ہیں۔ لوگ جو ائج ضروریہ سے فراغت کے لئے اس کا رخ کرتے تھے۔ یہ بات پیشاب، پاخانہ، سلسل البول، مذی، دم اسحاضہ اور ان تمام امور کی وجہ سے ایجاب وضو پر مشتمل ہے جن سے فراغت کے لئے ایک انسان دوسرے انسان کی نگاہوں سے اوٹ میں چلا جاتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجانے اور قضائے حاجت کو ان سے چھپانے کے لئے پست مقام پر چلے جاتے تھے۔ جسم سے خارج ہونے والی ان اشیاء کے اختلاف کی وجہ سے جنہیں عادۃً لوگوں کی نظروں س ے پوشیدہ رکھا جاتا ہے، اس طریق کار میں کوئی فرق نہیں پڑتا، ان اشیاء میں سلسل البول، مذی اور استحاضے کا خون وغیرہ سب شامل ہیں۔ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تمام اشیاء حدی کے اندر داخل ہیں اور آیت میں پوشیدہ لفظ ان سب پر مشتمل ہے۔ سلف اور فقاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص ٹیک لگائے بغیر بیٹھے بیٹھے سو جائے۔ اس پر وضو واجب نہیں ہوتا۔ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک رات عشاء کی نماز میں تاخیر کردی حتیٰ کہ لوگوں کو نیند آ گئی۔ جب لوگ بیدار ہوئے تو حضرت عمر ؓ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے نماز کے لئے کہا۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی، اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ لوگوں نے دوبارہ وضو کیا تھا۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ہم مسجد نبوی میں آ کر جماعت کا انتظار کرتے رہتے کچھ لوگوں کو تو اونگھ آ جاتی اور کچھ لوگ سو جاتے لیکن ہم وضو کا اعادہ نہ کرتے۔ ” نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص پر سونے کی وجہ سے اس وقت تک وضو واجب نہیں ہوتا جب تک وہ پہلو کے بل زمین پر لیٹ نہ جائے اس بارے میں فقاء کے اختلاف کا ہم نے دوسری جگہ ذکر کردیا ہے۔ امام ابو یوسف نے محمد بن عبداللہ سے روایت کی ہے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ صبح کی نماز ادا کرتے اور وضو نہ کرتے، آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا (ان لست کا حدکم انہ تنام علینای ولا ینام قلبی لواحدثت لعلمتہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میری آنکھوں کو نیند آ جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔ اگر مجھے حدث لاحق ہوت تو مجھے اس کا پتہ چل جاتا) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نیند فی نفسہ حدث نہیں ہے، اس کی وجہ سے ایجاب وضو اس بنا پر ہوتا ہے کہ اس حالت میں یہ عین ممکن ہے کہ سونے والے کو کوئی حدث لاحق ہوگیا ہو اور اسے اس کا احساس نہ ہوسکا ہو کیونکہ لوگوں کی عام الت اسی طرح کی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ سے یہ قول مروی ہے کہ (العین دکاء السہ فاذا نامت العین استطلق لو کاء آنکھ سرین کا بندھن ہے۔ جب آنکھ لگ جائے تو بندھن کھل جاتا ہے) چونکہ نیند کے اندر جسم بوجھل ہونے کی وجہ سے اکثر حدث لاحق ہوجاتا ہے اس لئے نیند کو حدث کا حکم لگا دیا گیا لیکن یہ بات صرف نوم معتاد کے اندر ہوتی ہے جس میں سونے والا اپنا پہلو زمین سے لگا دیتا ہے اور لیٹ جانے کے بعد اسے اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی کہ جس سے کیا چیز خارج ہوئی اور اسے کون سا حدث لاحق ہوا۔ لیکن اگر وہ بیٹھا ہوا ہو یا بلا ضرور تنماز کی کسی حالت مثلاً قیام، رجوع یا سجدہ کے اندر ہو تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ ان احوال کے اندر انسان کو کچھ نہ کچھ شعور اور احساس رہتا ہے اگر اس حالت میں کوئی حدث لاحق ہوجائے تو اسے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ یزید بن عبدالرحمن نے قتادہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے ابوالعالیہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رح) سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (لیس علی من نام ساجد وضوء حتی یضطجع فاذا اضطجع استرخت م فاصلہ جو شخص سجدے کی حالت میں سو جائے اس پر وضو لازم نہیں ہوتا جب تک لیٹ نہ جائے جب لیٹ جائے گا تو اس کے مفاصل یعنی جوڑ ڈھیلے پڑجائیں گے۔ فصل طہارت کے مزید مسائل ارشاد باری تعالیٰ ہے (اذا قمتم الی الصلوۃ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گزشتہ سطور میں ہمارے بیان کے مطابق آیت کے اندر پوشیدہ لفظ موجود ہے یعنی ” القیام من النوم “ یا ” ارادۃ القیام “ (نیند سے قیام، یا قیام کا ارادہ) یعنی نماز کے ارادے سے حدث کی حالت میں قیام وغیرہ۔ اس سے یہ بات واجب ہوتی ہے کہ حدث کی تمام صورتوں سے پاک ہونا نماز پر مقدم ہے۔ صلوۃ کا لفظ اسم جنس ہے اور یہ نماز کی تمام صورتوں کو شامل ہے خواہ وہ فرض نمازیں ہوں یا نوافل، اس لئے یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ طہارت نماز یک صحت کی ایک شرط قرار دی جائے خواہ وہ جس قسم کی بھی۔ کیونکہ آیت نے نماز کی کسی صورت میں بھی کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد سے اس کی تاکید بھی کی ہے چناچہ آپ نے فرمایا لا یقبل اللہ صلوۃ بیر طھور اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) قول باری (فاغسلوا وجوھکم اپنے چہرے دھو لو) غسل یعنی دھونے کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ غسل کسی جگہ سے پانی گزارنے کا نام ہے بشرطیکہ وہاں نجاست نہ لگی ہو۔ اگر نجاست لگی ہو تو اس کا غسل پانی یا اس جیسی کوئی اور چیز گزار کر اسے دور کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ قول باری (فاغسلوا وجوھکمض کا مقصد کسی جگہ سے پانی گزارنا ہے کیونکہ اس جگہ پر ایسی نجاست نہیں لگی ہوتی جسے ور کرنا ضروری ہو۔ اس لئے دھونے والے پر اس جگہ کو ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ اس پر یہ ضروری ہے کہ پانی اس طرح ڈالا جائے کہ اس کا گزر اس جگہ سے ہوجائے۔ اس مسئلے میں اختلاف یک تین صورتیں ہیں۔ امام مالک کا قول ہے کہ وضو کرنے والے پر اس جگہ سے پانی گزارنا اسے اپنے ہاتھ سے ملنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ غسل نہیں کہلائے گا۔ ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقاء کا یہ قول ہے کہ بس پانی بہا دیا جائے، ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقاء کا یہ قول ہے کہ بس پانی بہا دیا جائے، ہاتھ سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر وضو کی جگہ پر پانی اس طرح لگالے جیسے تیل لگایا جاتا ہے تو بھی کافی ہوگا۔ جو لوگ وضو کی جگہ پر پانی بہانے کے ساتھ اسے ہاتھ سے ملنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ان کے قول کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ غسل کسی جگہ سے اسے ملے بغیر پانی گزارنے کا نام ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اگر جسم پر نجاست لگی ہو اور اس پر مسلسل پانی بہا کر اسے دور کردیا جائے تو یہ غسل کہلائے گا خواہ ہاتھ سے اسے ملا نہ بھی گیا ہو۔ جب ملے بغیر پانی گزارنے کی وجہ سے اس پر غسل کا اطلاق ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (فاغسلوا) کے ذریعے غسل کا حکم دیا ہے تو وضو کرنے والا جب اس پر پانی بہا دے گا۔ آیت کے مقتضی اور اس کے موجب پر اس کا عمل ہوجائے گا اس لئے کہ جو شخص اس جگہ کو ہاتھ سے ملنے کی شرط لگائے گا وہ غسل یعنی دھونے کے مفہوم میں ایسی چیز کے اضافے کا سبب بنے گا جو اس کا جزو نہیں ہے جبکہ نص میں اضافہ جائز نہیں ہوتا الا یہ کہ اس جیسا کوئی نص موود ہو جس کے ذریعے اس نص کے نسخ کا جواز پیدا ہوسکتا ہو۔ نیز جب اس جگہ پر کوئی ایسی چیز نہ لگی ہو جسے دلک یعنی ملنے کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہو تو اس صورت میں اس جگہ کو ملنے اور اس پر ہاتھ پھیرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس عمل کی کوئی حیثیت ہے۔ اس صورت میں اگر اس جگہ پر صرف پانی بہا دے یا اس پر ہاتھ پھیر کر اسے ملے تو اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمام اصول کے اندر طہارت کے لئے ایک جگہ کو ہاتھ سے ملنے کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے اس اختلافی مسئلے میں بھی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی کہے کہ جب غسل یعنی دھونے کا حکم اس مقصد کے لئے نہیں ہے کہ وضو کی جگہ میں لگی ہوئی کوئی چیز دور کردی جائے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل ایک امر تعبدی ہے اس لئے غسل میں جب پانی گزارنا شرط ہے تو اس جگہ کو اپنے ہاتھ سے ملا بھی شرط ہونا چاہیے ورنہ پانی گزارنے کے عمل کی حیثیت ثابت ہوچکی ہے لیکن اس مقام کو دلک کرنے یعنی ہاتھ سے ملنے کے عمل کی کوئی حیثیت ثابت نہیں ہوئی بلکہ نجاست کے ازالے کے سلسلے میں دلک یعنی ہاتھ سے ملنے کا حکم ساقط الاعتبار ہے۔ اس لئے کہ اگر اس کا کوئی حکم ہوتا تو نجاست کے ازالے میں اس کا اعتبار اولیٰ ہوتا۔ اس لئے حدث کی طہارت کے اندر بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ جو لوگ ان اعضاء کے مسح کے جواز کے قائل ہیں جنہیں وضو کے اندر دھونے کا حکم دیا گیا ہے ان کا یہ قول ظاہر آیت کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں بعض اعضاء کے دھونے اور بعض کے مسح کی شرط عائد کی ہے۔ اس لئے جن اعضاء کے دھونے کا حکم ہے ان کا مسح کافی نہیں ہوگا کیونکہ غسل اس امر کا مقتضی ہے کہ اس جگہ پر پانی گزارا اور بہایا جائے۔ اگر یہ عمل نہیں وہ گا تو وہ شخص غاسل یعنی دھونے والا نہیں کہلائے گا۔ دوسری طرف مسح اس عمل کا مقتضی نہیں ہے وہ تو صرف پانی کے لگ جانے کے مفہوم کا مقتضی ہے پانی کا گزارنا اس کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔ اس لئے غسل کو ترک کر کے مسح کا قائل ہوجانا درست نہیں ہے۔ اگر غسل سے مراد مسح ہی ہوتا تو آیت میں ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کا فائدہ باطل ہوجاتا۔ اگر ان دونوں کے درمیان فرق کرنا واجب ہے تو پھر یہ بھی واجب ہوگا کہ مسح غسل کے علاوہ کوئی اور چیز تسلیم کی جائے۔ اس لئے جب کوئی شخص وضو کرنے کے لئے جسم سے پانی لگا دے گا اور اسے دھوئے گا نہیں تو اس کا یہ عمل کافی نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے وہ کام سرانجام ہ ی نہیں دیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وضو کے اندر سر کے مسح میں وضو کرنے والے کے لئے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بالوں کی ظاہری سطح کا مسح کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ غسل جنابت میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر غسل اور مسح دونوں کا مفہوم امیک ہوجائے تو غسل جنابت میں بالوں کا مسح ہی کافی ہوجائے۔ جس طرح وضو میں یہ کافی ہوتا ہے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ غسل میں جس چیز کی شرط ہے مسح اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اعضائے وضو میں کوئی ایسی نجاست نہ لگی ہو جو دھونے کے ساتھ زائل ہوسکتی ہو تو اس صورت مقصود پانی لگانا ہوتا ہے اس لئے ان اعضاء کو دھونے اور انہیں پانی لگانے یعنی مسح کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ چیز تو ہمارے قول یک صحت پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ جب ایسی کوئی نجاست موجود نہ ہو جس کی وجہ سے غسل یعنی دھونا واجب ہوتا ہے تو اس صورت میں غسل کا وجوب ایک تعبدی امر ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر غسل اور مسح میں فرق کردیا ہے۔ اس لئے ہم پر اس امر کی پیروی اس کے مقتضی اور موجب کے مطابق لازم ہوگی اس لئے غسل کے عمل کو چھوڑ کر کوئی اور عمل اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ وضو کے اندر جن اعضا کو دھونے کا حکم ہے ان میں دھونے کے عمل کا ہمارے لئے امر تعبدی ہونا ایسا ہے جیسا اس عضو کے مسح کا جس کے متعلق مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے لفظ کے حکم کو ترک کر کے کسی اور حکم کو اختیار کرنے کے سلسلے میں نظر اور قیاس سے کام لینا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وضو کرنے والے کے بازو کا کوئی حصہ خشک رہ جائے اور اس نے اس کا مسح کرلیا اور اس پر ہاتھ پھیرلیا تو وضو جائز ہوجاتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ پورے عضو کا مسح اس طرح جائز ہے جس طرح اس کے ایک حصے کا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ خشک حصہ اگر یکجا ہو تو وہ مغسول یعنی دھوئے ہوئے حصے کے حکم میں ہوتا ہے لیکن اگر متصل اور یک جا نہ ہو تو اس کا مسح بالاجماع جائز نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ دلالت موجود ہے کہ مسح غسل یعنی دھونے کے قائم مقام نہیں ہوتا، نیز معترض سے یہ کہا جائے گا کہ اگر وضو کے سلسلے میں ہم پر یہ چیز لازم آئے گی تو غسل جنابت کے سلسلے میں اس جیسی بات تم پر بھی لازم آ جائے گی۔ واللہ اعلم۔ نیت کے بغیر وضو قول باری (فاغسلوا وجوھکم) غسل یعنی دھونے کے عمل کے وجود کے ساتھ نماز کے جواز کا مقتضی سے خواہ اس کیس اتھ نیت ہو یا نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ غسل ایک اسم شرعی ہے جس کے معنی لغت کے لحاظ سے قابل فہم ہیں یعنی وضو کے اعضاء سے پانی گزارنا۔ یہ بات نیت سے عبادت نہیں ہے اس لئے جس نے اس میں نیت یک شرط عائد کردی اس نے گویا نص میں اضافہ کردیا ہے اور یہ بات دو وجوہ سے فاسد ہے۔ اول یہ کہ یہ آیت کے نسخ کی موجب ہے اس لئے کہ آیت نے تو طہارت کے لئے دھونے کے عمل کے وجود پر نماز کی ادائیگی مباح کردی ہے اور اس میں نیت کی کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔ اس لئے جو شخص وضو کی نیت کے بغیر نماز کی ممانعت کرے گا وہ آیت کو منسوخ کرنے کا موجب ہوگا اور یہ بات اسی صورت میں درست ہوسکتی ہے جب اس جیسا کوئی اور نص موجود ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نص کا اپنا حکم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا حکم ملحق کرنا جائز نہیں جس کا اس کے ساتھ تعلق نہ ہو جس طرح اس کے کسی جز کا ساقط کردینا جاء نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نماز کی صحت میں نیت شرط ہے لیکن الفاظ میں اس کا ذکر ضروری نہیں ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہب ات دو وجوہ کی بناء پر جائز ہے اول یہ کہ صلوۃ کا لفظ ایک مجمل اسم ہے جسے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے۔ یہ خود کسی حکم کا موجب نہیں بن سکتا جب تک اس کا بیان وارد نہ ہوجائے۔ چونکہ ایجاب نیت کے ساتھ بیان وارد ہوگیا اس لئے ہم نے نیت کو واجب قرار دیا لیکن وضو میں یہ بات نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایک شرعی اسم ہے جس کے معنی ظاہر اور جس کی مراد واضح ہے اس لئے ہم جب بھی اس کے ساتھ ایسا مفہوم ملحق کردیں گے جو اس کے مدلول کا جز نہ ہوگا اس سے نص میں اضافہ لازم آئے گا اور نص میں اضافہ صرف اس جیسے نص کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز میں نیت کے ایجاب پر سب کا اتفاق ہے۔ اگر صلوۃ کا اسم عموم ہوتا اور مجمل نہ ہوتا تو اس اتفاق کی بنا پر اس کے ساتھ نیت کا الحاق جائز ہوتا۔ اس لئے یہ ایسا مجمل ہے جس میں اجماع کی جہت سے نیت کا اثبات ایک نہایت ہی مناسب بات ہے۔ نیت کی فرضیت کے متعلق فقا کے اختلاف کا ذکر امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر ایسی طہارت جو پانی کے ذریعے حاصل کی جائے وہ نیت کے بغیر درست ہوجاتی ہے، لیکن تیمم نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ نیت کے بغیر وضو درست ہوجاتا ہے تیمم کی نیت کے متعلق اوزاعی سے روایت محفوظ نہیں ہے۔ امام مالک، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ وضو اور غسل نیت کے بغیر دسرت نہیں ہوتے۔ اسی طرح تیمم کا بھی حکم ہے حسن بن صالح کا قول ہے کہ وضو اور تیمم دڈونوں نیت کے بغیر درست ہوجاتے ہیں۔ ابو جعفر طحاوی کا کہنا ہے حسن بن صالح کے علاوہ کسی اور سے نیت کے بغیر تیمم درست ہوجانے کا قول منقول نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سابقہ سطور میں نیت کے بغیر وضو کے جواز پر آیت کی دلالت کا ذکر کردیا ہے اور قول باری (ولا جنبا لا عابری سبیل حتیٰ تغتسلوا اور نہ جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) نیت کے بغیر غسل جنابت کے جواز پر دلالتکر رہا ہے۔ اسی طرح قول باری (ازا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) بھی نیت کے بغیر وضو کے جواز پر دلال ہے کہ ہم سابق میں بیان کر آئے ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (وانزلنا من السماء ماء طھورا اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا) طہور کے معنی یعنی پاک کرنے والے کے ہیں اس لئے جب جگہ بھی پانی کا وجود ہوجائے اس میں پاک کرنے کی صفت کا پایا جانا ضروری ہے اگر ہم اس میں نیت یک شرط بھی عائد کردیں تو اس صورت میں ہم پانی سے اس کی اس صفت کو سلب کرلیں گے جس کے ساتھ اللہ نے اسے موصوف کیا ہے یعنی پاک کرنے کی صفت۔ اس لئے نیت کے ساتھ مشروط ہونے کی صورت میں پانی بذاتہ مطہر تو نہیں رہے گا البتہ کسی اور چیز کی شرکت سے اس میں تطہیر کی یہ صفت پیدا ہوگی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی اور چیز کی شرکت کے بغیر اسے تطہیر کی صفت عطا کی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نیت کی شرط کا ایجاب اسے مطہر ہونے کی اس صفت سے خارج نہیں کرتا جس کے ساتھ اللہ نے اسے موصوف کیا ہے۔ مثلاً حضور ﷺ کا ارشاد ہے (جعلت فی الارض مسجدا و طہورا۔ میرے لئے ساری روئے زمین مسجد بنادی گئی ہے اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دی گئی ہے) اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے (التراب طہور المسلم مالم یجد الماء۔ مسلمان کو جب تک پانی نہ ملے اس وقت تک مٹی اس کے لئے مطہر ہوتی ہے) مٹی کا مطہر ہونا تیمم میں نیت کو شرط قرار دینے سے مانع نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مٹی کو طہور (پاک کرنے والا) بطور مجاز کہا گیا ہے اسے نماز کی اباحت کے سلسلے میں دراصل پانی کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نئی نہ تو حدث کا ازالہ کرتی ہے اور نہ ہی نجاست کو دور کرتی ہے جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اسے بطور مجاز اور استعارہ طہور کہا گیا ہے۔ ایک اور جہت سے غور کریں۔ حضور ﷺ کے ارشاد (التراب طہور المسلم) کے باوجود تیمم کے اندر نیت کے اثبات کو شرط قرار دینا درست ہے لیکن وضو میں ایسا کرنا درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری (فتیمموا) نیت کی ایجاب کا مقتضی ہے اس لئے کہ لغت میں تیمم کے معنی قصد کے ہیں جبکہ حضور ﷺ کا درج بالا ارشاد بطریق آحاد وارد ہوا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خبر کو آیت پر مرتب قرار دیا جائے یعنی آیت کو مقدم اور روایت کو موخر رکھا جائے اس لئے کہ خبر واحد کی بنا پر آیت کے حکم کو ترک کرنا کسی حالت میں بھی درست نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ آیت کی بنا پر خبر کے حکم میں اضافہ درست ہوتا ہے۔ قول باری (و انزلنا من السماء ماء طھورا) کی حیثیت اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ نص قرآنی میں اضافہ صرف اسی وقت درست ہوتا ہے جب کوئی اس جیسا نص موجود ہو جس کے ذریعے اس نص کا فسخ جائز ہوسکتا ہو۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (و ینزل علیکم من السماء ماء لیطہر کم بہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کر دیض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح دی کہ نیت ک بغیر تطہیر کا عمل وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ (فاغسلوا وجوھکم) تا آخر آیت طہارت کی فرضیت کا مقتضی ہے اس لئے جس صورت میں بھی فرضیت کا وجود ہوگا اس کی صحت کے لئے نیت کی شرط لازم ہوگی اس لئے کہ کسی فعل کا فرض کی صورت میں ادا ہونا صرف نیت کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ فرض کی ادائیگی کی صحت کے لئے دو نیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو عبادت اور تقرب الٰہی کینیت اور دوسری فرض کی نیت۔ اسی لئے جب کوئی شخص نیت نہیں کرے گا تو فرضیت کی صحت نہیں پائی جائے گی اور اس صورت میں اس کا کیا ہوا فعل اس پر عائد شدہ فرض کے لئے کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو بات معترض نے بیان کی ہے اس کا وجوب ان فرائض میں ہوتا ہے جو مقصود بالذات ہوتے ہیں اور کسی اور فرض کی ادائیگی کیلئے سبب نہیں وتے لیکن جو فرائض ایسے ہوں جنہیں کسی اور فرض کی صحت کے لئے شرط قرار دیا گیا ہو ان میں درود امر کی بنا پر معترض کی کہی ہوئی بات کا وجوب نہیں ہوتا۔ وجوب اس وقت ہوتا ہے جب کوئی دلالت موجود ہو جو نیت کو اس فعل کے ساتھ مقرون کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب طہارت کو نماز کی صحت کے لئے شرط قرار دیا اور طہارت فی نفسہ فرض نہیں ہے اس لئے کہ جس انسان پر نماز کی فرضیت نہیں اس پر طہارت کی فرضیت بھی نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ مریض جس پر کئی دنوں تک بےہوشی کا دورہ پڑا رہے یا جس طرح حیض اور نفاس والی عورتیں ہوتی ہیں۔ دوسری طرف قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) ہے۔ نیز یہ ارشاد بھی (ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغسلوا) ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے طہارت کو ایک اور فرض کی ادائیگ کے لئے شرط کی حیثیت دے دی لیکن خود طہارت کو فی نفسہ مامور یعنی مفروض قرار نہیں دیا۔ اس لئے جو شخص طہارت کی صحت کے لئے نیت کے وجوب کا قائل ہے اسے اس کے سوا کوئی اور دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو فرائض کے اندر شرطوں کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن خود فرائض کے ضمن میں نہیں آتیں۔ بلکہ ان میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ کسی اور ذات کے فعل کی نتائج ہوں۔ مثلاً وقت کو لے لیجئے۔ نماز کی ادائیگی کی صحت کے لئے نماز کے وقت کا ہونا شرط ہے لیکن وقت کے معاملے نمازی کا کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح عقل و بلوع کا معاملہ ہے۔ یہ دونوں باتیں ایکشخص کے مکلف وہنے کی صحت کے لئے شرطیں ہیں۔ لیکن ان دونوں باتوں میں خود مکلف کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایسی چیز کے متعلق امر کا درود جسے کسی اور فعل کی صحت کے لئے شرط کی حیثیت دی گئی ہو، طاعت کے طور پر اس کے وقوع کا مقتضی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں نیت کی ایجاب کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (وثبابک فطھر اور اپنے کپڑے پاک رکھیں) میں اگرچہ نجاست سے کپڑوں کو صاف رکھنے کا حکم ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تطہیر کے لئے نیت کی شرط کو واجب قرار نہیں دیا کیونکہ نجاست دور کرنا فی نفسہ مفروض نہیں ہے بلکہ یہ کسی اور فرض کی ادائیگی کے لئے شرط ہے۔ گویا آیت کے مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ صرف پاک کپڑوں میں اور ستر عورت کے ساتھ نماز ادا کرو “۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ امام شافعی ہمارے ساتھ اس مسئلے میں متفق ہیں کہ اگر ایک شخص طہارت کی نیت کے ساتھ بارش میں بیٹھ جائے اور پانی اس کے تمام اعضاء تک پہنچ جائے تو یہ اس کے غسل کے لئے کافی ہوگا جبکہ اس غسل میں اپنا کوئی فعل شامل نہیں ہوگا۔ اگر یہ فی نفسہ مفروض ہوتا تو اس کا یہ غسل اس وقت تک درست نہ ہوتا جب وہ خود اس میں کردار ادا نہ کرتا یا کسی اور کو اس کا حکم دیتا اس لئے کہ فرض عمل کا یہی حکم ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیمم فی نفسہ فرض شدہ یعنی مفروض عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نیت کے بغیر یہ درست نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی ک نیت کا ایجاب صرف ان فرائض تک محدود نہیں جو بالذات ہوں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی کیونکہ اس بات ک ہم نے حکم کے لئے علت کی حیثیت نہیں دی کہ معترض تیمم کی مثال دے کر ہم پر اس کا مناقضہ ثابت کر دے گا۔ ہم نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس چیز کے بارے میں جس کی خصوصیت ہم نے درج بالا سطور میں بیان کی ہے، امر کا درود وہ جائے تو نیت کے ایجاب کو اس میں شرط قرار دینے کا مقتضی نہیں ہوتا، البتہ اس امر ک سوا کوئی اور دلالت موجود ہو جچو نیت کو شرط قرار دینے کی مقتضی ہو تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس وضاتح سے ہم نے صرف ان لوگوں کو استدلال ساقط کردیا ہے جچو نیت کے ایجاب کے سلسلے میں امر کے ورود کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔ تیمم کے لفظ کے ضمن میں نیت کے ایجاب کی بات موجود ہے کیونکہ لغت میں تیمم قصد کے معنوں کے لئے اسم ہے۔ قول باری ہے (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون اور تم خبیث یعنی بری چیز کا قصد نہ کرو کہ اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے لگو) یہاں (لا تیمموا) کے معنی لا تقصدوا، (قصد نہ کرو) کے ہیں۔ شاعر کا شعر ہے : ولن یلبث العصران یوم ولیلۃ اذا طلباء ان یدر کا ما تیمما دن اور رات کے دو زمانے ہیں کہ جب کسی چیز کی طلب میں ہوں تو انہیں فوراً اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی ہوجاتی ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے : فان تک خیلی قد اصیب صمیمھا فعمد علی عین تیممت مالکا اگر میرے خالص اور اصل سوار میدان جنگ میں کھیت رہے تو مجھے اس کا کوئی غم نہیں کیونکہ میں نے قبیلہ ماک کے لوگوں کو ایک چشمے پر جان بوجھ کر گھیرے میں لینے کا قصد کیا تھا۔ اعشی کا شعر ہے : تیممت قیسا و کم دونہ من الارض من مھنہ ذی شزن میں نے قیس تک پہنچنے کا قصد کیا لیکن درمیان میں کس قدر جنگل بیابان اور سخت زمین واقع ہے۔ شاعر نے تیممت کہہ کر قصد کے معنی لئے ہیں جبکہ آیت کے لفظ سے قصد کا ایجاب ثابت ہوتا ہے اور قصد اس نیت کو کہتے ہیں جو امر شدہ کام کو سرانجام دینے کے لئے کی جاتی ہے اس لئے ہم نے تیمم کی صحت کے لئے نیت کو شرط قرار دیا۔ تیمم میں نیت واجب کر کے آیت میں ایسے اضافے کو شامل کردیا جو اس میں موجود تو ہے لیکن مذکور نہیں ہے۔ جہاں تک غسل کا تعلق ہے اس کے اندر نیت کے معنی ادا کرنے والا کوئی مفہوم موجود نہیں ہے۔ اگر غسل میں نیت کو شرط قرار دے دیا جائے تو اس سے آیت کے مفہوم میں ایسا اضافہ لازم آتا ہے جو اس مفہوم میں شامل نہیں ہے اور یہ چیز درست نہیں ہوتی۔ وضو اور تیمم میں نیت کے لحاظ سے فرق کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ تیمم کبھی وضو کی جگہ کیا جاتا ہے اور کبھی غسل کی جگہ۔ دونوں حالتوں میں اس کی کیفیت یکساں ہوتی ہے۔ اس بنا پر نیت کی ضرورت پیش آئی تاکہ ان دونوں کے حکموں کے مابین خط امتیاز کھینچ دیا جائے اس لئے کہ نیت کی شرط ہوتی اس لئے ہے کہ افعال کے احکام کے مابین تمیز کیا جاسکے۔ جب تیمم کا حکم مختلف ہوتا ہے یعنی کبھی یہ وضو کی جگہ آتا ہے اور کبھی غسل کی جگہ تو اس میں نیت کی ضرورت پڑگئی تاکہ غسل کی جگہ آنے والے تیمم اور وضو کی جگہ آنے والے تیمم میں فرق کیا جاسکے۔ رہ گیا غسل تو اس کا حکم نہ تو اپنی ذات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے سبب کے لحاظ سے اس لئے اس میں نیت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی غسل کی مختلف صورتوں کے درمیان امتیاز کرنے کی حاجت پیش آئی کیونکہ غسل کے حکم میں مقصود غسل کے عمل کو واقع کرنا ہوتا ہے۔ جس طرح کوئی یہ حکم دے کہ اپنے بدن یا کپڑوں سے نجاست دور کئے بغیر نماز نہ پڑھو “ یا ” ستر عورت کے بغیر نماز ادا نہ کرو “۔ ان فقروں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نیت کے ایجاب کی مقتضی ہو۔ گزشتہ سطور میں نیت کے سلسلے میں ہم نے جو گفتگو کی ہے اس پر سنت کی جہت سے وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حضرت رفاعہ بن رافع اور حضرت ابوہریرہ نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق آپ نے ایک بدو کو نماز پڑھنا سکھایا تھا۔ نیز آپ نے فرمایا تھا (لاتتم صلوۃ امری حتی یضع الطور مواضعہ فیغسل وجھہ و یدیہ و یمسح براسہ و بغل رجلیہ۔ کسی شخص کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ طہارت کو اس کے مقامات پر نہ رکھ دے۔ یعنی اپنا چہرہ اور دونوں بازو دھونے، سر کا مسح کرے اور دونوں پیر دھوئے) آپ کے ارشاد کے الفاظ (حتی یضع الطھور مواضعہ) اس پر دلالت کرتے ہیں کہ نیت کے بغیر وضو جائز ہے۔ اس لئے کہ مقامات طہور یعنی اعضائے وضو معلوم ہیں اور قرآن میں ان کا ذکر آچکا ہے گویا آپ نے یوں فرمایا : ” کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ ان اعضاء کو دھو نہ لے “۔ اسی طرح آپ کا یہ ارشاد (فیغسل یدیہ و رجلیہ) بھی نیت کے بغیر وضو کے جواز کو واجب کرتا ہے اس لئے آپ نے اس میں نیت کی شرط نہیں لگائی۔ ظاہر الفاظ اس بات کا مقتضی ہے کہ جس طریقے سے بھی وہ ان اعضاء کو دھوئے گا اس کا وضو ہوجائے گا۔ ایک اور جہت سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے وہ یہ کہ اعرابی کا نماز اور طہارت کے احکام سے ناواقف ہونا بالکل واضح ہے۔ اگر طہارت میں نیت شرط ہوتی تو حضور ﷺ اسے اس کی اطلاع دیئے بغیر جانے نہ دیتے۔ یہ بات اس کی واضح ترین دلیل ہے کہ نیت طہارت کی شرائط اور اس کے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا وہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کو غسل جنابت کے سلسلے میں فرمایا تھا (انما یکفیک ان تحثی علی راسک ثلاث حثیات و علی سائر جسدک فاذا انت قد طھرت، تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر اور پورے جسم پر تین دفعہ پانی ڈالو، اس کے بعد تم پاک ہو جائو گی) اس ارشاد میں آپ نے نیت کی شرط نہیں لگائی۔ حضرت ابن عمر ؓ حضور ﷺ کے وضو کے بارے میں بیان کیا ہے کہ آپ نے وضو کیا اور اعضائے وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور پھر فرمایا (ہذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الابہ یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتا) آپ نے اس فعل کی طرف اشار کیا جس کا مشاہدہ ہوا تھا نیت کی طرف اشارہ نہیں کیا جو پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی طرف اشارہ کرنا درست بھی نہیں ہوتا۔ آپ نے اس وضو کے ساتھ نماز قبول ہونے کی خبر بھی دے دی اور فرمایا (ازواجدت الماء فامسسہ جلدک جب تمہیں انی ملے تو اسے اپنی جلد کے ساتھ لگائو) نیز فرمایا (ان تحت کل شعرۃ جنابہ نبلوا الشعر وانقوا البشرۃ، ہر بال کے نیچے ناپاکی ہوتی ہے اس لئے بالوں کو تر کرو اور چہرے کو صاف کرو) عقلی طور پر بھی غسل جنابت کی طرح وضو طہارت سے جو پانی کے ذریعے حاصل ہے۔ نیز یہ ایسا ذریعہ ہے جس سے ادائے صلوٰۃ کی صحت تک رسائی ہوتی ہے لیکن کسی اور چیز کا بدل نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ غسل جنابت، ستر عورت اور پا جگہ پر نماز کے لئے کھڑے ہونے کے مشابہ ہوگیا۔ اس پر تیمم لازم نہیں ہوتا کیونکہ یہ کسی اور چیز کا بدل ہوتا ہے۔ اگر نیت کی شرط کے قائلین قول باری (وما امرو الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ انہیں صرف یہ حک مدیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے فرمانبرداری کو خالص کر کے اس کی عبادت کریں) سے استدلال کریں جو ایجاب نیت کا مقتضی ہے کیونکہ ایجاب نیت اخلاص کا کم سے کم درجہ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پہلے یہ ثابت کیا جانا چاہیے کہ آیا وضو عبادت ہے یا اس کا تعلق دین سے ہے۔ کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ عبادات وہ امور ہیں جو تعبد ک اندر مقصود بالذات ہوتے ہیں لیکن ایسے امور جو مقصود بالذات نہیں ہوتے بلکہ کسی اور فرض ک یخاطر ان کا حکم دیا جاتا ہے، یا یہ شرط یا ذریعے کے طور پر سرانجامپاتے ہیں ان کو عبادت کا اسم شامل نہیں ہوتا۔ اگر طہارت کے اندر نیت کا تارک اللہ کعے لئے اخلاص کا اظہار کرنے والا نہ ہوتا تو نجاست کو دھونے اور ستر عورت کرنے ک اندر نیت کے تارک پر یہی حکم لگانا واجب ہوتا۔ جب یہ بات درست نہیں کہ ان کاموں کے اندرنیت کے تارک کو غیرمخلص قرار دیا جئاے کیونکہ اسے نماز کی خاطر ان کاموں کا حکم ملتا ہے تو پھر طہارت کے اندر نیت کے تارک کا غیرمخلص ہونا بھی درست نہیں ہونا چاہیے۔ نیز جو شخص اسلام کا عقیدہ اختیار کرلیتا ہے وہ عبادات بجا لانے میں اللہ کے لئے مخلص ہوتا ہے کیونکہ وہ نیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اخلاص کی ضد اشراک ہے۔ اس لئے جب وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرتا تو وہ نفس عقیدہ ایمان کی بناء پر اپنی تمام عبادات میں اس قوت تک مخلص ہوتا ہے جب تک وہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک اور شامل نہیں کرتا۔ ان حضرات نے حور ﷺ کے اس ارشاد (افما الاعمال بالنیات، تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے) سے بھی استدلال کیا ہے لیکن اختلافی نکتہ پر اس حدیث سے استدلال درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ علم نیت پر موقوف ہوتا ہے جبکہ نیت نہ ہونے کے باوجود عمل کا وجود ہوجاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور ﷺ نے اس کے حقیقی معنوں کا ارادہ نہیں کیا بلکہ آپ نے اس سے پوشیدہ معنی مراد لئے ہیں جو الفاظ میں مذکور نہیں ہے۔ اس لئے اس حدیث کے عموم سے استدلال کرنے والے غفلت اور کوتاہی فہم کے شکار ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد میں عمل کا حکم مراد ہے یعنی عمل کے حکم کا دارومدار نیت پر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث میں حکم کا لفظ موجود نہیں ہے اس لئے اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ اگر ظاہر لفظ سے استدلال ترک کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کے کلام کا کسی فائدے سے خالی وہنا جائز نہیں ہوتا او ہمیں یہ معلوم ہے ک آپ نے اس سے نفس عمل مراد نہیں لیا ہے تو پھر یہ واجب ہے کہ اس سے عمل کا حکم مراد لیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ نے عمل کی فضیلت مراد لی ہو، عمل کا حکم مراد نہ لیا ہوو۔ جب دونوں باتوں کا احتمال پیدا ہوگیا تو اس صورت میں اس کے معنی مراد کے اثبات کے لئے کسی دوسرے ذریعے سے دلالت کی ضرورت ہوگی اور اس سے استدلال ساقط ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں دونوں معنی مراد ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ ان دونوں معنوں کا متحمل پوشیدہ لفظ حدیث کے الفاظ میں مذکور نہیں ہے جس یک بناء پر یہ کہا جاسکے کہ ان میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔ یہ بات تو صرف اس صورت میں کہی جاتی ہے جب الفاظ میں اس کا ذکر ہو اور اس میں کئی معانی کا احتمال ہو۔ اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ کا عموم ان تمام معانی کو شامل ہے۔ لیکن جس چیز کا الفاظ میں ذکر نہ ہو بلکہ وہ پوشیدہ ہو اور الفاظ سے اس کی تعبیر نہ کی گئی ہو اس صورت میں کسی کے لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ میں اسے عموم پر محمول کرتا ہوں۔ اس لئے دونوں معنوں کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر فضیلت سے مراد لی جائے تو حدیث کا مفہوم یہ ہوگا۔ ” عمل کی فضیلت کا دارومدار نیت پر ہے “۔ یہ بات عمل کے حکم کے اثبات کی مقتضی ہوگی تاکہ نیت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے فضیلت کی نفی کرنا درست ہوجائے۔ اگر اس سے عمل کا حکم مراد یا جائے گا تو پھر عمل کی فضیلت مراد لینا جائز نہیں ہوگا جبکہ اصل ہی منتفی ہو۔ اس لئے ایک ہی لفظ سے یہ دونوں معنی مراد لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک ہی لفظ اصل کی نفی اور کمال کی نفی دونوں کے معنی ادا کرے۔ نیز یہ بھی درست نہیں ہے کہ خبر احاد کے ذریے قرآن کے حکم میں اضافہ کردیا جائے جیسا کہ ہم اس کے پہلے وضاحت کر آئے ہیں یاد رہے کہ زیربحث حدیث خبر واحد ہے۔ فصل وضو میں چہرے کی حد بندی قول باری ہے (وجوھکم) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ چہرے کی حد کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک۔ ابوالحسن کرخی نے ابوسعید البروعی سے اس قول کی حکایت کی ہے۔ اس مفہوم کے متعلق ہمیں فقہاء کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ ظاہر اسم بھی اسی مفہوم کا مقتضی ہے۔ کیونکہ چہرے کو وجہ کا اس لئے نام دیا گیا ہے کہ یہ کھلا ہوتا اور ایک چیز کے سامنے آتا اور اس کے بالمقابل ہوتا ہے۔ ہم نے چہرے کی جس حد بندی کا ذکر ہے اسی کے مطابق ایک انسان کا چہرہ دوسرے انسان کے سامنے آتا اور اس کے بالمقابل ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حد بندی کی بنا پر دونوں کان بھی چہرے کا حصہ ہونا چاہئیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے اس لئے کہ دونوں کان پگڑی اور ٹوپی وغیرہ کی جہ سے چھپ جاتے ہیں جس طرح انسان کا سینہ چھپا رہتا ہے حالانکہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو اپنے بالمقابل چیز یا انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم نے چہرے کے جس مفہوم کا ذکر کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب نہیں ہے کیونکہ منہ اور ناک کا اندرونی حصہ چہرے کا جز نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس شخص کے سامنے نہیں ہوتے جو ان کے بالمقابل ہوتا ہے۔ جب آیت ان دونوں اندرونی حصوں کو دھونا واجب نہیں کرتی اور صرف ہمارے سامنے اور بالمقابل آنے والے حصے کے غسل کو واجب کرتی ہے تو جو لوگکلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے وجوب کے قائل ہیں وہ فرض کے حکم میں ایسی بات کا اضافہ کرتے ہیں جو اس میں سے نہیں ہے۔ ایسا اقدام جائز نہیں ہوتا کیونکہ اس سے اس کے فسخ کا وجوب لازم آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما۔ اگر تم روزے دار نہ ہو تو اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے عمل میں خوب مبالغہ کرو) نیز اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد آپ کا یہ قول (ھذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الا بہ یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ نماز قبول نہیں کرتا صمضمضہ اور استنشاق کی فرضیت کو لازم کردیتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ نے اعضائے وضو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد فرمایا (نذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الا بہ) اس میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ آپ نے کلی کی تھی اور ناک میں پانی ڈالا تھا۔ اس میں تو صرف آپ کے وضو کے عمل کا ذکر ہے اور بس۔ جبکہ وضو ان اعضاء کے دھونے کا نام ہے جو اللہ کی کتاب میں مذکور ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس وضو میں مضمضہ اور استنشاق نہ کیا ہو۔ اس لئے کہ آپ کے ییش نظر یہ بات تھی کہ لوگوں کو فرض وضوء بتلا دیں جس کے سوا کوئی اور وضو کافی نہیں ہوتا۔ اس لئے اس حدیث کے اندر مضمضہ اور استنشاق کے وجوب پر جس کا معترض قائل ہے، کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر آپ ﷺ سے مضمضہ اور استنشاق کا عمل ثابت بھی ہوجاتا تو بھی آیت کے حکم میں اضافہ کرنے کا جواز پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ کے پہلے ارشاد (بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما) کے ذریعے اضافہ کے اثبات کے سلسلے میں آیت کے مفہوم میں دخل اندازی جائز نہیں ہے کیونکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کے حکم میں اضافہ جائز نہیں ہوتا۔ میں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابو میسرہ محمد بن الحسن بن العلاء نے انہیں عبدالاعلیٰ نے، انہیں یحییٰ ان میمون بن عطاء نے، انہیں ابن جریج نے عطاء سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کے وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے جواب دیا : ” حضور ﷺ کے پاس پانی کا برتن لایا گیا۔ آپ ﷺ نے اس سے اپنے ہاتھوں پر ایک مرتبہ پانی انڈیلا، ایک مرتبہ چہرہ مبارک دھویا، ایک مرتبہ دونوں بازو دھوئے، ایک مرتبہ سر کا مسح کیا اور ایک مرتبہ اپنے دونوں بازو دھوئے اور پھر فرمایا (نذا الوضوء الذی افترض اللہ علینا۔ یہ وہ وضو ہے جو اللہ نے ہم پر فرض کردیا ہے) پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا اور فرمایا (من ضاعف ضاعف اللہ لہ جچو شخص دو مرتبہ ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے دوگنا دے گا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری دفعہ یہی عمل لوٹایا اور فرمایا (نذا وضوء نا معشوالا بنیاء فمن زاد فقد اساء، یہ ہم گروہ انبیاء کا وضو ہے، جو شخص اس میں اضافہ کرے گا وہ برا کرے گا) حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ کے وضو کی جو کیفیت بیان کی وہ مضمضہ اور استنشاق کے بغیر تھی، حضور ﷺ نے فرض وضو کے بیان کا ارادہ کیا تھا اگر مضمضہ اور استنشاق بھی فرض ہوتا تو آپ اسے بھی ضرور ادا کرتے۔ داڑھی دھونا اور اس کا خلال کرنا قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ چہرہ انسان کے رو کو کہتے ہیں جو تمہارے سامنے آتا ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ داڑھی بھی انسان کے چہرے کا ایک حصہ ہو۔ اس لئے کہ یہ بھی اس انسان کے سامنے آ جاتی ہے جو تمہارے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے اور اکثر احوال میں ڈھکی ہوئی نہیں ہوتی ہے۔ جس طرح چہرے کا باقی حصہ ڈھکا ہوا نہیں ہوتا بلکہ کھلا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کسی انسان کی داڑھی آ جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ” خرج وجھہ “ (اس کا چہرہ نکل آیا) اس بنا پر اس میں کوئی امتناع نہیں کہ داڑھی کو چہرے کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں درج بالا قول باری وضو میں اسے بھی دھونے کا مقتضی ہوگا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ داڑھی چہرے کا حصہ نہ قرار دیا جائے اور انسان کے بشرے یعنی ادھوڑی کا صرف وہی حصہ چہرہ کہلائے جو تمہارے سامنے کھلا ہو، ڈھکا ہوا نہ ہو۔ اس میں وہ بال داخل نہ ہوں جو داڑھی کی شکل میں انسان کے چہرے پر اگے ہوتے ہیں جنہیں اگر صاف کردیا جائے تو چہرے کا یہ حصہ سامنے آ جائے۔ جو لوگ پہلے قول کے قائل ہیں وہ اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بشرے کے ظہور کے اس پر بالوں کا اگ آنا اس چہرے سے خارج نہیں کرتا۔ جس طرح سر کے بال سر کا حصہ ہوتے ہیں۔ قول باری ہے (وامسحوا برئوسکم اپنے سروں کا مسح کرو) اگر کوئی شخص سر کی چھڑی تک پانی پہنچائے بغیر سر کے بالوں کا مسح کرلے تو اس کا مسح مکمل ہوجائے گا اور سب کے نزدیک… وہ آیت کے مقتضی پر عمل پیرا تسلیم کرلیا جائے گا۔ اسی طرح چہرے پر بالوں کا اگ آنا اس حصے کو چہرے سے خارج نہیں کرتا، لیکن جو لوگ ڈاڑھی کو چہرے کا حصہ تسلیم نہیں کرتے وہ سر کے بال اور ڈاڑھی کے بال میں اس طرح فرق کرتے ہیں کہ سر کے بال بچے کی پیدائش ک وقت سے سر پر اگے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان بالوں کو وہی حیثیت ہوگی جو ابرو کی ہے اور ان میں مشترک بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر ایک اس عضو کا حصہ ہوتا ہے جس پر یہ اگا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس داڑھی کے بال پیدائش کے وقت موجود نہیں ہوتے بلکہ بعد میں اگتے ہیں۔ اس لئے یہ چہرے کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ وضو میں ڈاڑھی دھونے، اس کا مسح کرنے اور اس کے بالوں کا خلال کرنے کے متعلق سلف سے اختلاف رائے منقول ہے۔ اسرائیل نے جابر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم مجاہد، عطاء اور شعبی کو اپنی اپنی داڑھیوں کا مسح کرتے یعنی ان پر پانی لگاتے دیکھا ہے۔ طائوس سے بھی یہی مروی ہے۔ حربز نے زید بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابن ابی لیلیٰ کو وضو کرتے دیکھا ہے یعنی انہیں داڑھی کا خلال کرتے یعنی داڑھی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے نہیں دیکھا۔ اس موقع پر ابن ابی لیلیٰ کہا کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ یونس کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر کو ڈاڑھی کا خلال کرتے نہیں دیکھا۔ ان تمام حضرات کے نزدیک گویا داڑھی دھونا واجب نہیں تھا۔ ابن جریج نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنی داڑھی کے بالوں کو ان کی جڑوں تک تر کرتے تھے اور اپنی انگلیاں بالوں کی جڑوں تک داخل کردیتے یہاں تک کہ داڑھی کے بالوں سے کثرت سے قطرے ٹپکتے رہتے۔ عبید بن عمیر، ابن سیرین، سعید بن جبیر سے بھی اسی قسم کی رویات منقول ہے۔ ان تمام حضرات سے داڑھی دھونے کی بات منقول ہے لیکن ان سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ اسے واجب بھی سمجھتے تھے جس طرح چہرے کا دھونا واجب یعنی ضروری ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ طہارت کے معاملے میں کچھ متشدد واقع ہوئے، وضو اور غسل میں آپ اپنی آنکھوں میں بھی پانی داخل کرتے اور ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، لیکن آپ کا یہ علم استجاب کے طور پر تھا وجوب کے طور پر نہیں تھا۔ فقاء امصار کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ داڑھی کا خلال واجب نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے داڑھی کا خلال کیا تھا۔ حضرت انس ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ داڑھی کا خلال کیا کرتے تھے اور یہ فرماتے کہ مجھے میرے رب نے اس کا حکم دیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت عمار ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے وضو کے اندر داڑھی کا خلال کیا تھا۔ حسن نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ن ے ایک دفعہ، دو دفعہ یا تین دفعہ حضور ﷺ کو وضو نہیں کرایا، یعنی میں نے کئی دفعہ آپ کو وضو کرایا ہے۔ میں نے ہر دفعہ آپ کو اپنی انگلیوں سے داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے۔ آپ انگلیاں یوں جوڑ لیتے جس طرح کنگھی کے دندانے ہوتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے وضو کی کیفیت کے بیان میں بہت سی دوسری روایات بھی منقول ہیں۔ ان میں داڑھی کے بالوں کے خلال کا ذکر نہیں ہے۔ ایک حدیث عبد خیر نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے، اسی طرح عبداللہ بن زید اور ربیع بنت معوذ وغیرہم کی روایتیں ہیں ہر ایک نے یہی ذکر کیا ہے کہ حضور ﷺ کے تین مرتبہ چہرہ مبارک دھویا تھا۔ ان حضرات نے تخلیل لجیہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ آیت کی رو سے تخلیل لحیہ کا ایجاب یا اسے دھونے کو لازم قرار دینا درست نہیں ہے اس لئے کہ آیت نے صرف چہرہ دھونا لازم کیا ہے، اور چہرہ اس حصے کا نام ہے جو تمہارے سامنے ظاہر ہو اس لئے داڑھی کا اندرونی حصہ چہرہ نہیں کہلائے گا مثلاً منہ اور ناک کا اندرونی حصہ چونکہ چہرے میں داخل نہیں سمجھا جاتا اس لئے وضو میں وجوب کے طور پر ان دونوں کی تطہیر نہیں کی جاتی۔ اگر حضور ﷺ سے داڑھی کا خلال یا اسے دھونے کی بات روایتوں سے ثابت ہے تو اسے استجاب پر محمول کیا جائے گا وجوب پر نہیں جس طرح کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا استجاب پر محمول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آیت میں داڑھی دھونے یا اس کا خلال کرنے کے وجوب پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے تو ہمارے لئے خبر واحد کی بنا پر آیت کے معنوں میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ وہ تمام روایتیں اخبار آحاد کی صورت میں منقول ہوئی ہیں جن میں حضور ﷺ کا اپنی داڑھی کو خلال کرنے کا ذکر ہے ان کے ذریعے نص قرآنی میں اضافہ درست نہیں ہے۔ نیز خلال کرنا دھونے کے مترادف نہیں ہے اس لئے آیت کی بنا پر اس کا وجوب ثابت نہیں ہوگا۔ پھر جب حضور ﷺ سے تخلیل لحیہ ثابت ہوگیا تو اس کیس اتھ یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ داڑھی دھونا واجب نہیں ہے اس لئے کہ اگر غسل لحیہ واجب ہوتا تو آپ دھونا چھوڑ کر خلال پر اکتفا نہ کرتے۔ تخلیل لجیہ اور مسح لحیہ کے مسئلے میں ہمارے اصحاب کے درمیان بھی اختلاف رائے ہے۔ المعلی نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ سے وضو میں تخلیل لحیہ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ داڑھی کا خلال نہیں کرے گا۔ اس کے لئے بالوں کی سطح پر اپنا ہاتھ پھیرلینا کافی ہوگا۔ اس لئے کہ وضو کے مقامات صرف وہی ہیں جو ظاہر اور کھلے ہوں اور بالوں کا خلال وضو کے مواضع اور مقامات نہیں ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ کا بھی یہی قول ہے لیکن امام یوسف کہتے ہیں کہ میں تو داڑھی کا خلال کرتا ہوں۔ بشر بن الولید نے امام ابو یوسف سے ان کے نوادر کے ضمن میں یہ روایت کی ہے کہ داڑھی کے ظاہری حصے ا مسح کیا جائے گا۔ خواہ وہ عریض کیوں نہ ہو۔ اگر وضو کرنے والے نے ایسا نہیں کیا اور نماز پڑھ لی تو نماز کا اعادہ کرے گا۔ ابن شجاع نے حسن سے اور انہوں ن زفر سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص وضو میں چہرہ دھونے لگے تو اسے اپنی داڑھی پر سے بھی پانی گزار دینا چاہیے۔ اگر داڑھی کے تہائی یا چوتھائی حصے کو پانی لگ جائے تو کافی ہوجائے گا لیکن اگر اس سے کم مقدار کو پانی لگا ہو تو وضو جائز نہیں ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے اور حسن نے بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ وضو کرنے والا جب اپنا چہرہ دھو لے تو اگر داڑھی کے کسی حصے کو بھی پانی نہ لگائے اس کا وضو مکمل ہوجائے گا۔ ابن شجاع کا کہنا ہے کہ وضو کرنے والے پر جب داڑھی کا دھونا لازم نہیں ہے تو داڑھی اگنے کی ساری جگہ چہرے کا حصہ قرار پائے گی جس طرح سر کی حیثیت ہے کہ اس کا دھونا واجب نہیں ہوتا۔ اس لئے جس طرح سر کا مسح واجب ہے اسی طرح داڑھی کا مسح بھی واجب ہوگا۔ اور سر کے مسح کی طرح چوتھائی داڑھی کا مسح کافی ہوجائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ داڑھی یا تو چہرے کا حصہ ہوگی یا چہرے کا حصہ نہیں ہوگی۔ پہلی صورت میں اسے دھونا بھی اسی طرح واجب ہوگا جس طرح چہرے کی اس چمڑی کا جس پر بال اگے نہیں ہوتے۔ دوسری صورت میں آیت کے رو سے نہ اس کا دھونا ضروری ہوگا اور نہ ہی اس کا مسح لازم ہوگا۔ جب اسے نہ دھونے پر سب کا اتفاق ہوگیا تو یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ داڑھی چہرے کا حصہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر وہ چہرے کا حصہ ہوتی تو اس کا دھونا واجب ہوتا۔ جب اسے دھونے کا حکم ساقط ہوگیا تو اس کے مسح کا ایجاب جائز نہیں ہوگا اس سے آیت میں اضافے کا اثبات لازم آتا ہے۔ جس طرح مضمضہ اور استنشاق کا ایجاب بھی اسی لئے درست نہیں ہے کہ اس سے بھی نص کتاب میں اضافہ لازم آتا ہے۔ اگر اس ا مسح واجب ہوتا تو اس سے ایک ہی عضو یعنی چہرے میں دھونے اور مسح کرنے کے دونوں افعال کا اثبات لازم آتا ہے۔ جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات اصول کے خلاف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض اوقات ایک ہی عضو میں دھونے اور مسح کرنے کے افعال کا اجتماع ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور اس نے ہڈی جوڑنے کی خاطر اس حصے پر پلستر چڑھایا ہوا ہو جسے جبیرہ کہتے ہیں تو اس صورت میں جبیرہ پر مسح فرض ہوگا اور باقی حصے کا دھونا لازم ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ صورت ضرورت اور عذر کی بنا پر واجب ہوتی ہے جبکہ داڑھی کے اگے ہوئے بالوں کے لئے دھونے کا عمل ترک کر کے مسح کرنے کے سلسلے میں کوئی ضرورت یا عذر نہیں ہوتا۔ چہرہ ان تمام اعضاء کی طرح ہے جن کی طہارت اللہ تعالیٰ نے واجب کردی ہے۔ اس لئے اس میں بلاضرورت دھونے اور مسح کرنے کے افعال کا جمع ہوجانا جائز نہیں ہوگا۔ یہ چیز امام ابو یوسف کے اس قول کی مقتضی ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ داڑھی دھونے اور اسی پر مسح کرنے کی فرضیت ساقط ہے البتہ وضو کرتے وقت اس پر پانی گزارنا مستجب ہوگا۔ قول باری ہے (و ایدیکم الی المرافق اور ہاتھوں کو کہنیوں تک) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ید کے اسم کا اطلاق بازو پر کندھے سے ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمار ؓ نے کندھے تک تیمم کیا اور فرمایا کہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ کندھوں تک تیمم کیا تھا۔ اس لئے قول باری (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ اپنے چہروں اور ہاتھوں کا پاک مٹی سے مسح کرو) لغت کی جہت سے کسی نے حضرت عمار ؓ کی اس بات پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ حضرت عمار ؓ خود اہل لغت تھے اور ان کے نزدیک ید کا عضو کندھے تک تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسم ید اس عضو کو کندھے تک شامل ہے۔ جب اسم کے اطلاق کا یہ تقاضا تھا اور دوسری طرف تحدید کا ذکر ہوگیا اور کہنی کو اس کی انتہا قرار دیا گیا تو دو وجوہ کی بنا پر کہنی کا ذکر اس سے ماوراء حصے کی اسقاط پر محمول ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ لفظ کا عموم کہنی کو بھی شامل ہے اس لئے لفظ کو کہنیوں کے لئے استعمال کرنا واجب ہوگا کیونکہ اس کے سقوط کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ غایت بعض دفعہ مغیا میں داخل ہوتی ہے اور بعض دفعہ داخل نہیں ہوتی۔ جن مواقع پر غایت مغیا میں داخل ہے وہ مثلاً یہ ہیں (ولا تقربوھن حتی یطھرن جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جائو) اس میں ہم بستری کی اباحت کے لئے طہر کے وجود کو شرط قرار دیا۔ اس طرح غایت یعنی طہر کا وجود مغیا یعنی مقاربت کی ممانعت میں داخل ہوگیا۔ اسی طرح قول باری ہے۔ (حتیٰ تنکح زوجا غیرہ، جب تک وہ طلاق دینے والے شوہر کے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرے) کسی اور سے نکاح کے وجود کو پہلے شوہر سے نکاح کی اباحت کیلئے شرط قرار دیا گیا۔ حرف حتی اور حرف الی دونوں غایت کا مفہوم ادا کرتے ہیں۔ جن مواقع پر غایت مغیا میں داخل نہیں ہوتی ان میں سے مثلاً ایک یہ ہے (ثم اتموالصیام الی اللیل پھر روزے کو رات تک پورا کرو) ظاہر ہے کہ رات روزے کے اوقات سے خارج ہے۔ آیت زیر بحث میں بھی صورت حال یہی ہے چونکہ اس عضو میں حدث کا ہنا یقینی امر ہے اس لئے اس کا ارتفاع کسی یقینی امر کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے اور وہ یقینی امر دونوں کہنیوں کا دھونا ہے اس لئے کہ کہنیوں کو غایت قرار دیا گیا ہے اور غایت کا معاملہ اسلحاظ سے مشکوک ہے آیا غایت مغیا میں داخل ہے یا نہیں۔ اس لئے حدث کے ارتفاع کو یقینی بنانے کے لئے کہنیوں کو دھونے کے حکم میں داخل قرار دیا جائے گا۔ حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ جب آپ وضو کرتے ہوئے کہنیوں تک پہنچتے تو ان پر پانی پھیرتے۔ ہمارے نزدیک آپ کا یہ عمل وجوب کی بناء پر تھا۔ اس لئے کہ اس عمل کا ورود بیان کے طور پر ہوا ہے۔ کیونکہ قول باری (الی المرافق) میں دونوں احتمالات موجود تھے کہ یہ دھونے کے حکم میں داخل ہیں اور داخل نہیںھی ہیں اس بناء پر یہ مجمل بن گیا تھا اور اسے بیان و تفصیل کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ حضور ﷺ کا یہ فعل جس کے راوی حضرت جابر ؓ ہیں اس مجمل ک بیان کے طور پر وارد ہوا اس لئے اسے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ کہنیاں دھونے کے حکم میں داخل ہیں اس پر ہمارے تمام اصحاب کا اتفاق ہے۔ البتہ زفر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ دھونے کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ٹخنوں کے مسئلے میں بھی ہمارے بقیہ اصحاب سے زفر کا یہی اختلاف ہے۔ قول باری ہے (وامسحوا بروسکم اور اپنے سروں کا مسح کرو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سر کے مسح کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان یہ اختلاف رائے ہے کہ آیا اس کے کتنے حصے کا مسح فرض ہے۔ ہمارے اصحاب سے اس کے متعلق دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت تو چوتھائی سر ہے اور دوسری روایت تین انگلیوں کی مقدار ہے۔ مسح کی ابتدا پیشانی کی طرف سے کی جائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ سر کے پچھلے حصے سے مسح کی ابتدا کی جائے گی۔ اوزاعی اور یعث کا قول ہے کہ سر کے اگلے حصے سے مسح کیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ پورے سر کا مسح فرض ہے لیکن اگر تھوڑا سا حصہ رہ جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے، انہوں نے اس بعض حصے کی تجدید نہیں کی۔ قول باری (وامسحوا برئوسکم) سر کے بعض حصے کے مسح کا مقتضی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ حروف معانی کے افادہ کے لئے موضوع ہوتے ہیں اس لئے جب ہمارے لئے ان حروف کے ضمن میں موجود فوائد کے لئے ان کا استعمال ممکن ہو تو انہیں ان فوائد کے لئے استعمال کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر بعض مواقع میں صلہ کلام کے طور پر ان کا دخول جائز ہوتا ہے اور ان کے اپنے کوئی معانی نہیں ہوتے۔ مثلاً حرف ” من “ کو لے لیجئے۔ اس کے کئی معانی ہیں جن میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ تبعیض کے معنی دیتا ہے۔ بعض دفعہ یہ کلام میں داخل ہوتا ہے لیکن زائد ہوتا ہے یعنی اس کے اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے اور کلام میں اس کا وجود اور عدم برابر ہوتا ہے لیکن جب تک اس کے کسی معنی کا فائدہ حاصل کے طور پر اس کا استعمال ممکن ہو، نیز یہ اپنے معنی موضوع لہ میں استعمال وہ سکے اس وقت تک ہمارے لئے اس کا الغاء یعنی اسے بےمعنی قرار دینا جائز نہیں ہوگا۔ اسی بناء پر ہم یہ کہتے ہیں کہ آیت میں حرف باء تبعیض کے معنی دیتا ہے اگرچہ یہ کہنا بھی درست ہے کہ آیت میں اس کا وجود ملغی یعنی کسی معنی کے بغیر ہے۔ یہ تبعیض کے معنی دیتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب آپ ” مسحت یدی یا لحائط (میں نے ہاتھ سے دیوار کا مسح کیا) کہتے ہیں تو اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دیوار کے بعض حصے کا مسح ہوا ہے ساری دیوار کا نہیں۔ لیکن آپ نے اگر ” مسحت الحائط “ کہا ہوتا تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی کہ پوری دیوار کا مسح کیا گیا ہے۔ صرف بعض حصے کا نہیں۔ ان دونوں مثالوں سے کلام میں حرف باء داخل کرنے اور نہ داخل کرنے کا معنوی فرق واضح ہوگیا۔ عرف اور لغت کے لحاظ سے یہ فرق بالکل واضح ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو ہمارے لئے قول باری (وامسحوا برئوسکم) کو سر کے بعض حصے کے مسح پر محمول کرنا واجب ہوگیا تاکہ ہم اس حرف کو اس سے حاصل ہونے والے معنوی فائدے کا پورا پورا دے سکیں اور اسے زائد یعنی بےفائدہ قرار نہ دیں کہ کلام میں اس کا دخول اور عدم دخول دونوں یکساں قرار پائے۔ حرف باء اگرچہ الصاق کے معنی ادا کرنے کے لئے کلام میں داخل ہوتا ہے مثلاً آپ کہتے ہیں کتبت بالقلم ص میں نے قلم سے لکھا) یا ” مررت بزید “ (میں زید کے پاس سے گزرا) لیکن الصاق کے معنی ادا کرنے کے لئے کلام میں اس کا دخول اس کے ساتھ ساتھ تبعیض کے معنی ادا کرنے کے منافی نہیں ہے۔ ہم دونوں میں اسے استعمال کرسکتے ہیں یعنی زیربحث آٰیت میں یہ حرف سر کے اس بعض حصے کے لئے الصاق کے معنی میں مستعمل ہوگا جس کی طہارت فرض کی گئی ہے۔ تبعیض کے معنی ادا کرنے پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے عمر بن علی بن مقدم نے اسماعیل بن حماد سے نقل کی ہے، انہوں نے اپنے والد حماد سے اور انہوں نے ابراہیم سے کہ قول باری (وامسحوا بروسکم کی رو سے اگر ایک شخص سر کے بعض حصے کا مسح کرلیتا ہے تو یہ اس کے لئے کافی ہوگا۔ ابراہیم نے مزید کہا کہ اگر آیت کے الفاظ وامسحوا رئوسکم ہوتے تو پھر سارے سر کا مسح لازم ہوجاتا۔ ابراہیم نے یہ کہہ کر دراصل یہ بات بتائی ہے کہ حرف باء تبعیض کے معنی ادا کر رہا ہے۔ ابراہیم اہل زبان تھے اس لئے اس بارے میں ان کی رائے قابل قبول ہے۔ آیت زیربحث میں حرف باء تبعیض کے معنی ادا کر رہا ہے اور یہی معنی مراد ہیں اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اگر سر کا کچھ حصہ مسح ہونے سے رہ جائے تو سب کے نزدیک مسح درست وہ جائے گا۔ اس حرف کو تبعیض کے معنوں میں استعمال کرنے کا اس کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں ہے۔ ہمارے مخالف نے سر کے اکثر حصے کے مسح کو واجب قرار دے کر گویا اسے تبعیض کے معنوں میں استعمال کرلیا ہے اور اس سے وہ اپنا پہلو بچا نہیں سکا ہے۔ البتہ اس کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ مسح سے رہ جانے والا حصہ مقدار میں اسی قدر ہونا چاہیے جس کا وہ دعویدار ہے۔ جب سب کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پورے سر کا مسح مراد نہیں ہے بلکہ بعض حصہ مراد ہے تو اب اس مقدار کو ثابت کرنے کے لئے جس کی ہمارے مخالف نے تحدید کی ہے کسی دلالت کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حرف باء اگر تبعیض کے معنی ادا کرتا تو یہ فقرہ درست نہ ہوتا ” مسحت براسی کلہ “ ص میں نے سارے سر کا مسح کیا) جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے ” مسحت ببعض راسی کلہ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں یہ واضح کردیا ہے کہ اس حرف کے حقیقی معنی اور اس کا مقتضی اطلاق کی طورت میں تبعیض کا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے ملغی یعنی بےفائدہ ہونے کا بھی احتمال موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ” مسحت براسی کلہ “ تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس نے حرف باء یعنی ملغی مراد لیا ہے لیکن جب فقرے کی ساخت یہ نہ ہوگی تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ حرف باء یہاں اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے جس طرح حرف من تبعیض کے لئے ہوتا ہے یہی اس کے حقیقی معنی ہیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ کلام میں صلہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس صورت میں ملغی ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (مالکم من الہ غیرہ تمہارے لئے اس کے سوا اور کوئی الہ نہیں) نیز (یغفرلکم من ذنوبکم، تمہارے گناہ معاف کر دے گا) لیکن اس بنا پر یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ہر مقام پر اسے کسی دلالت کے بغیر ملغی قرار دیں۔ سر کے ایک حصے کے مسح کے جواز پر، جیسا کہ ہمارا قول ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے روایت منقول ہے۔ ان میں حضرت ابن عمر ؓ بھی شامل ہیں۔ نافع نے ان سے رویات کی ہے کہ انہوں نے اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا تھا۔ حضرت عائشہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ سر کے جس جانب بھی مسح کرلو کافی ہوجائے گا۔ ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے۔ جو لوگ بعض حصے کے مسح کی فرضیت کے قائل ہیں ان کے قول کی صحت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ابوالحسن عبید اللہ بن الحسین الکرخی نے سنائی ہے، انہیں ابراہیم الحربی نے، انہیں محمد بن الصباح نے، انہیں ہشیم نے، انہیں یونس نے ابن سیرین سے، انہیں عمرو بن وہب نے، ان کا قول ہے کہ میں نے حضرت مقیرہ بن شعبہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ دو باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں نے خود حضور ﷺ کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترے، پھر واپس ہو کر وضو کیا اور اپنی پیشانی اور عمامہ کے دونوں جانب سر کا مسح کیا۔ سلیمان التیمی نے بکر بن عبداللہ المزنی سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت منیرہ کے ایک بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح کیا، اپنی پیشانی کا مسح کیا اور اپنا ہاتھ پگڑی پر رکھا یا یوں کہا کہ پگڑی کا مسح کیا۔ ہمیں عبید اللہ بن الحسین نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن سلیمان الحضرمی نے، انہیں کردوس بن ابی عبداللہ نے، انہیں المعلیٰ بن عبدالرحمن نے، انہیں عبدالحمید بن جعفر نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے وضو فرمایا آپ نے اپنی پیشانی اور سر کے کناروں کے درمیان ایک دفعہ مسح کیا۔ درج بالا سطور میں ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ سر کے بعض حصے کا مسح فرض ہے۔ اگر یہ کا جائے کہ اس بات کا احتمال ہے کہ حضور ﷺ نے ضرورت کے تحت پیشانی کے مسح پر اقتصار کیا ہو یا آپ نے حدث کی بناء پر یہ وضو نہ کیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ضرورت کے تحت ہوتی تو صحابہ کرام اسے ضرور نقل کرتے جس طرح دوسری صورتیں آپ سے منقول ہیں۔ یہ کہنا کہ آپ نے حدث کی بنا پر یہ وضو نہیں کیا تھا ایک ساقط تاویل ہے۔ اس لئے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت میں یہ ذکر موجود ہے کہ آپ نے قضائے حاجت کے بعد وضو کیا تھا جس میں اپنی پیشانی کا مسح کیا تھا۔ اگر پیشانی کے مسح کے متعلق اس تاویل کی گنجائش ہوتی تو موزوں پر مسح کے سلسلے میں بھی اسی تاویل کی گنجائش ہوتی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ضرورت کے تحت موزوں پر مسح کیا تھا یا آپ کا یہ وضو حدث کی بنا پر نہیں تھا۔ (آیت ہذا ۔ آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top