Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لئے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے۔
41۔ 42۔ اس آیت میں اللہ پاک نے ان لوگوں کی جزا کی خبر دی جنہوں نے محض خدا کے واسطے اپنے گھر بار خویش اقارب سب کو چھوڑ اس لئے فرمایا کہ ان ہجرت کرنے والوں کو ہم دنیا ہی میں بہت اچھا بدلہ دیں گے اور بہت ہی اطمینان کی جگہ ان کے رہنے کو عطا کریں گے۔ قتادہ کے موافق یہ آیت ان مہاجروں کی شان میں اتری ہے جو اول اول مکہ سے ہجرت کر کے ملک حبش میں جارہے تھے جن کی تعداد کل مرد و عورت ملا کر اسی کی تھی ان کے حق میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ انہیں اچھی جگہ بسنے کو دیں گے۔ لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مدینہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی ایذا رسانی سے گھبرا کر ابھی تو یہ لوگ حبش کو چلے گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے ہمیشہ کے لئے رہنے کا انتظام اس بستی میں فرما دے گا جس کا نام مدینہ ہے جہاں خوشحالی عزت حکومت سب چیزیں ان کو مل جاویں گے پھر اللہ پاک نے اس دنیا کی جزا کو عقبیٰ کی جزا کے مقابل میں ہیچ ٹھہرا کر فرمایا کہ آخرت میں ان لوگوں کے لئے جو بدلہ جنت میں ہے وہ اس دنیا کی جزا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں نیک بندوں کے لئے جو کچھ سامان کیا گیا ہے وہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ کسی کے دل میں اس کا تصور گزر سکتا ہے 1 ؎۔ یہ حدیث لو کانوا یعلمون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس ثواب آخرت کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا فرمایا ہے اگر ان ہجرت کرنے والوں کو اس کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا تو مخالفوں کی ایذا رسانی پر صبر کرنے کی ان کو زیادہ ہمت ہوجاتی لیکن حکمت الٰہی اسی کی مقتضی ہے کہ جنت کی نعمتیں قیامت کے دن ایک ہی دفعہ نیک بندوں کی نظروں سے گزریں تاکہ امید سے زیادہ نعمتیں پانے سے ان کا دل حد سے زیادہ خوش ہوجاوے ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ بلال، عمار، صہیب، مقداد ؓ غرض اس طرح کے غریب مسلمانوں کو مشرکین مکہ طرح طرح سے ایذا دیتے تھے تاکہ یہ لوگ اسلام سے پھر جاویں لیکن یہ لوگ اسلام پر قائم رہے۔ یہ حدیث الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی راہ میں مخالفوں کی ایذا رسانی اور گھر بار چھوڑنے کی تکلیف پر صبر کیا اور اس صبر کے اجر کا بھروسہ اللہ پر رکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو دین و دنیا کی وہ خوبیاں عنایت فرمائیں جس کا ذکر شروع آیت میں ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 495 باب صفۃ الجنتہ واھلھا۔
Top