Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جنہوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا البتہ ان کو ہم ٹھکانا دیں گے دنیا میں اچھا اور ثواب آخرت کا تو بہت بڑا ہے اگر ان کو معلوم ہونا
خلاصہ تفسیر
اور جن لوگوں نے اللہ کے واسطے اپنا وطن (مکہ) چھوڑ دیا (اور حبشہ چلے گئے) بعد اس کے کہ ان پر (کفار کی طرف سے) ظلم کیا گیا (کیونکہ ایسی مجبوری میں وطن چھوڑنا بڑا شاق گذرتا ہے ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے (یعنی ان کو مدینہ پہنچا کر خوب امن و راحت دیں گے چناچہ بعد چندے مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا اور اس کو وطن اصلی قرار دیا گیا اس لئے اس کو ٹھکانا کہا اور ہر طرح کی وہاں ترقی ہوئی اس لئے حسنہ کہا گیا اور حبشہ کا قیام عارضی تھا اس لئے اس کا ٹھکانا نہیں فرمایا) اور آخرت کا ثواب (اس سے) بدرجہا بڑا ہے (کہ خیر بھی ہے اور ابقیٰ بھی) کاش (اس اجر آخرت کی) ان (بےخبر کافروں) کو (بھی) خبر ہوتی (اور اس کے حاصل کرنے کی رغبت سے مسلمان ہوجاتے) وہ (مہاجرین ان وعدوں کے اس لئے مستحق ہیں کہ وہ) ایسے ہیں جو (ناگوار واقعات پر) صبر کرتے ہیں (چنانچہ وطن کا چھوڑنا گو ان کو ناگوار ہے لیکن بدون اس کے دین پر عمل نہیں کرسکتے تھے دین کے لئے وطن چھوڑا اور صبر کیا) اور (وہ ہر حال میں) اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (وطن چھوڑنے کے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ کھائیں پئیں گے کہاں سے)

معارف و مسائل
تشریح و تفسیر
(آیت) اَلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا ہجرت سے مشتق ہے ہجرت کے لغوی معنی ترک وطن کے ہیں ترک وطن جو اللہ کے لئے کیا جائے وہ اسلام میں بڑی اطاعت و عبادت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا الہجرۃ تھدم ماکان قبلہا یعنی ہجرت ان تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو انسان نے ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔
یہ ہجرت بعض صورتوں میں فرض و واجب اور بعض صورتوں میں مستحب و افضل ہوتی ہے اس کے مفصل احکام تو سورة نساء کی آیت نمبر 97 اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا کے تحت میں بیان ہوچکے ہیں اس جگہ صرف ان وعدوں کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین سے کئے ہیں ،
کیا ہجرت دنیا میں بھی فراخی عیش کا سبب ہوتی ہے ؟:
آیات مذکورہ میں چند شرائط کے ساتھ مہاجرین کے لئے دو عظیم الشان وعدے کئے گئے ہیں اول تو دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دینے کا دوسرے آخرت کے بےحساب ثواب عظیم کا دنیا میں اچھا ٹھکانا ایک نہایت جامع لفظ ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ مہاجر کو سکونت کے لئے مکان اور پڑوسی اچھے ملیں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو رزق اچھا ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہو عام لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف اور بھلائی ہو عزت وشرف ملے جو ان کے خاندان اور اولاد تک چلے (قرطبی)
آیت کا شان نزول اصالۃ وہ پہلی ہجرت ہے جو صحابہ کرام ؓ اجمعین نے حبشہ کی طرف کی اور یہ بھی احتمال ہے کی ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کی ہجرت مدینہ منورہ دونوں اس میں داخل ہوں آیت میں یہاں انہی مہاجرین حبشہ یا مہاجرین مدینہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ وعدہ انہی حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین کے لئے تھا جنہوں نے حبشہ کی طرف یا پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ دنیا میں پورا ہوچکا جس کا سب نے مشاہدہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو ان کا کیسا اچھا ٹھکانا بنادیا ایذاء دینے والے پڑوسیوں کے بجاے غمخوار ہمدرد وجاں نثار پڑوسی ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہوا ہجرت کے تھوڑے ہی عرصہ گذرنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے گئے فقراء و مساکین مال دار ہوگئے دنیا کے ممالک فتح ہوئے ان کے حسن اخلاق حسن عمل کے کارنامے رہتی دنیا تک ہر موافق و مخالف کی زبان پر ہیں ان کو اور ان کی نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت وشرف بخشا یہ تو دنیا میں ہونے والی چیزیں تھیں جو ہو چکیں اور آخرت کا وعدہ پورا ہونا بھی یقینی ہے لیکن تفسیر بحر محیط میں ابو حیان کہتے ہیں۔
والذین ھاجروا عام فی المھاجرین کائنا ماکانوا فیشمل اولہم واخرہم (ص 492 ج 5) الذین ہاجروا کا لفظ تمام مہاجرین عالم کے لئے عام اور شامل ہے کسی بھی خطے اور زمانہ کے مہاجر ہوں اس لئے یہ لفظ مہاجرین اولین کو بھی شامل ہے اور قیامت تک اللہ کے لئے ہر ہجرت کرنے والا اس میں داخل ہے۔
عام تفسیری ضابطہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص واقعہ اور خاص جماعت ہو مگر اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے اس لئے وعدہ میں تمام دنیا کے اور ہر زمانہ کے مہاجرین بھی شامل ہیں اور یہ دونوں وعدے تمام مہاجرین کے لئے پورا ہونا امر یقینی ہے۔
اسی طرح کا ایک وعدہ مہاجرین کے لئے سورة نساء کی اس آیت میں کیا گیا ہے وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً جس میں وسعت مکانی اور فراخی عیش خاص طور سے موعود ہیں مگر قرآن کریم نے ان وعدوں کے ساتھ مہاجرین کے کچھ اوصاف اور ہجرت کی کچھ شرائط بھی بیان فرمائی ہیں اس لئے ان وعدوں کے مستحق وہی مہاجرین ہو سکتے ہیں جو ان اوصاف کے حامل ہوں اور جنہوں نے مطلوبہ شرائط پوری کردی ہوں ،
ان میں سب سے پہلی شرط تو فی اللہ کی ہے یعنی ہجرت کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہو اور میں دنیاوی منافع تجارت، ملازمت وغیرہ اور نفسانی فوائد پیش نظر نہ ہوں دوسری شرط ان مہاجرین کا مظلوم ہونا ہے مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا تیسرا وصف ابتدائی تکالیف و مصائب پر صبر اور ثابت قدم رہنا ہے
Top