Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا ، البتہ ہم ضرور ان کو ٹھکانا دیں گے دنیا میں اچھا ، اور البتہ آخرت کا اجر بہت بڑا ہے اگر یہ لوگ جائیں ۔
(ربط آیات) گذشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس باطل عقیدے کا رد فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے یعنی وہ ہمیں زبردستی شرک سے روک دیتا اور اگر نہیں روکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی پسند کا کام کر رہے ہیں ، پھر اللہ نے ہر امت میں رسول بھیجنے کا ذکر کیا جنہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور طاغوت کی پرستش سے اجتناب کریں ، اس کے بعد اللہ نے نافرمانوں کے انجام کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو لو کہ جھٹلانے والوں کا کتنا عبرتناک انجام ہوا ۔ پھر گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے لیے تسلی کا مضمون بیان فرمایا اور آپ کو خطاب کیا کہ آپ کی شدید خواہش کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ، یہ ضدی لوگ ہیں جو قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ نہ قیامت آئے گی اور نہ مردے دوبارہ زندہ ہوں گے حالانکہ وقوع قیامت اور جزائے عمل برحق ہے ، قیامت والے دن کافر جان لیں گے کہ وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ذکر بھی کیا کہ وہ جب چاہے کسی چیز کو ہوجانے کا حکم دے تو وہ فورا ہوجاتی ہے ۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کا ذکر کرکے ان کے اجر عظیم کی بات کی ہے چناچہ اس سلسلہ میں جن اہل ایمان نے ابتدائی دور میں تکالیف اٹھائی تھیں اور پھر ہجرت کی تھی ، اللہ ان کی تعریف فرمائی ہے ، دنیا میں ان کو اچھا ٹھکانا اور آخرت میں بہتر اجر وثواب عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ (مہاجرین کی حوصلہ افزائی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والذین ھاجروا فی اللہ “ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی خوشنودی کے لیے ہجرت کی ، یعنی انہوں نے اپنا گھر بار اور ہرچیز کسی مالی مفاد یا دیگر مقصد کے حصول کے لیے نہیں بلکہ دین پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے چھوڑی ، اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت کرنا مسلمانوں پر فرض تھا ، اس دور میں مکہ کے اندر اہل ایمان پر مصائب کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ، اپنے دینی شعائر پر کھلے عام عمل درآمد کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، لہذا ان حالات میں ان کا مکہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا ضروری ہوگیا ، چناچہ مکی زندگی میں مسلمانوں نے دو مرتبہ ہجرت کی ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ طیبہ کی طرف ، حبشہ کی طرف یکے بعد دیگرے دو جماعتیں گئیں ، ایک چھوٹی تھی اور ایک بڑی ، پھر جب خود حضور ﷺ مدینہ شریف پہنچ گئے تو حبشہ جانے والے لوگ بھی مدینہ آگئے بعض لوگ کم وبیش چودہ سال تک حبشہ میں مقیم رہے اور جب مدینہ میں مسلمانوں کے پاؤں جم گئے ، بدر ، احدم اور احزاب کے واقعات ہوچکے بلکہ بعض تو خیبر کی لڑائی کے موقع پر حبشہ سے مدینہ طیبہ آئے ۔ (ہجرت کے وسیع معانی) حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ دیکھو ! ظاہری ہجرت تو یہ ہے کہ انسان اپنا وطن ، گھر بار ، کاروبار چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جائے مگر ہجرت کا ایک باطنی پہلو بھی ہے ، فرمایا (1) (بخاری ص 16 ج 1) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمہاجر من ھجر مانھی اللہ عنہ “۔ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے اسی طرح حضور ﷺ نے ایمان کی تعریف بھی فرمائی ، فرمایا ایمان کا ظاہری معنی تو یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، قیامت کے دن اور تقدیر کی تصدیق کرے ، اور حقیقی مومن وہ ہے ” من امن بوائقہ “۔ جارہ جو اپنے پڑوسی کو امن وامان میں رکھتا ہے ۔ اور اسے تکلیف نہیں پہنچاتا ، اسی طرح جہاد کا باطنی معنی یہ بیان کیا (1) (ترمذی ص 252) والمجاھد من جاھد نفسہ “۔ یعنی مجاہد حقیقت میں وہ ہے جس نے اپنے نفس سے جہاد کیا ، وہ اپنے نفس پر اس طرح کنٹرول کرتا ہے کہ اس پر شیطان کے وساوس اثر انداز نہیں ہو سکتے ، بہرحال حضور نے مہاجر کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی کہ جو شخص اللہ کی ممنوعہ چیزوں کے قریب نہیں جاتا ، وہی حقیقی مہاجر ہے ۔ (ہجرت کی اقسام اور مسائل) مفسرین کرام نے ہجرت کی بہت سی اقسام بتائی ہیں ، پہلی قسم اپنے ایمان اور جان ومال کی حفاظت سے متعلق ہے اور اس کی آگے چھ قسمیں ہیں مثلا انسان کسی ایسے دارالکفر میں رہتا ہے ، جہاں دینی فرائض ادا کرنے پر پابندی ہو تو ایسی صورت میں ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے تاکہ وہ دارالاسلام میں پہنچ کر اپنے دینی فرائض کی کما حقہ ادائیگی کرسکے ، امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ دارالبدعت سے ہجرت کرنا بھی ضروری ہے ، اگر کوئی شخص ایسی جگہ مقیم ہے جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہے یا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو سب وشتم کیا جاتا ہے تو ایک سچے مومن کے لیے رہنا درست نہیں بلکہ وہاں سے نکلنا فرض ہوجاتا ہے طلب رزق حلال بھی فرائض میں داخل ہے ، اگر کسی شخص کو کسی مقام پر رزق حلال میسر آنے کی کوئی صورت نہیں تو اس کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جگہ سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلا جائے ، جہاں سے حلال رزق میسر آسکتا ہو۔ بعض اوقات جسمانی اذیت سے بچاؤ کے لیے بھی ہجرت کرنا ضروری ہوجاتا ہے ، اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے کفار ان کے جانی دشمن بن چکے تھے ، لہذا انہیں کہنا پڑا (آیت) ” انی مہاجر الی ربی “۔ (العنکبوت) کہ میں تو اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، اسی طرح جب موسیٰ (علیہ السلام) کو علم ہوا کہ فرعونی انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں (آیت) ” فخرج منھا خائفا یترقب “۔ (القصص) تو آپ وحشت کی حالت میں وہاں سے نکل گئے ۔ بعض اوقات آب وہوا کی ناموافقیت کی وجہ سے امراض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بھی ترک وطن جائز ہوتا ہے جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو بعض لوگوں کو وہاں کی آب وہوا موافق نہ آئی تو وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہونے لگے ، اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو فلاں دیہات میں چلے جانا چاہئے ، جہاں کی آب وہوا ان کے لیے نسبتا بہتر ہے اور وہاں انہیں اونٹوں کا دودھ بھی میسر ہوگا ۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اگر کسی مقام پر چوری ، ڈاکے وغیرہ کا مستقل خطرہ ہو اور حفاظت مال کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو ، تو ایسی جگہ سے دارالامن کی طرف ہجرت کر جانا جائز ہے ۔ یہ تو حفاظتی نقطہ نظر سے ہجرت کی اقسام تھیں ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات طلب اور جستجو کے لیے بھی ہجرت کرنا پڑتی ہے خدا تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ (النحل) زمین میں چل پھر کر آثار قدیمہ کو دیکھو اور غور کرو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ، تو اس حکم کی تعمیل میں عبرت حاصل کرنے کے لیے نکلنا بھی ہجرت ہی کی ایک قسم ہے ، اسی طرح انسان حج اور عمرے کے لیے نکلتا ہے ، یہ فرض اور واجب میں داخل ہے جہاد کے لیے ترک وطن فرض ہے ، بعض اوقات پر واجب ہوتا ہے اور بعض اوقات مستحب ، تبلیغ بھی جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے ، یہ سفر بھی حالات کے مطابق کبھی فرض عین ، کبھی فرض کفایہ کبھی واجب اور کبھی مستحب ہوتا ہے ، اسی طرح تجارت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ہجرت میں داخل ہے ، سورة بقرہ میں (آیت) ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم “۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو ، بعض اوقات حصول علم کے لیے ہجرت کرنا فرض عین ہوتا ہے اور بعض اوقات فرض کفایہ ، علاوہ ازیں متبرک مقامات منجملہ بیت اللہ شریف ، مسجد اقصی ، اور مسجد نبوی کی زیارت کے لیے جانا کہ وہاں پر عبادت کرنے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے ، یہ بھی ہجرت میں داخل ہے پھر سرحدوں کی حفاظت یعنی رباط کے لیے ہجرت کرنا پڑتی ہے ، یہ بھی بعض اوقات فرض عین اور بعض اوقات فرض کفایہ ہوتی ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دوست احباب یا عزیز و اقارب کی ملاقات کے لیے وطن چھوڑ کر جانا بھی ہجرت ہی کی ایک قسم ہے ۔ (مہاجرین کے لیے اجر) فرمایا جنہوں نے اللہ کی خاطر ہجرت کی (آیت) ” من بعد ماظلموا “ بعد اس کے ان پر ظلم کیا گیا ، تو ایسے لوگوں کا صلہ یہ ہوگا (آیت) ” لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ “۔ کہ انہیں ہم دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے ، چناچہ جب مسلمان بیحد تکالیف برداشت کرنے کے بعد مدینہ طیبہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت اچھا ٹھکانا عطا کی اور قلیل عرصہ میں انہیں ہر چیز عطا کردی ، حکومت بھی دی ، مال و دولت سے بھی نوازا ، مکانات اور کاروبار عطا کئے ، عزت بخشی حتی کہ مدینہ منورہ مرکز اسلام بن گیا اور اس طرح مہاجرین کے نقصان اور ان کی جسمانی اور ذہنی تکالیف کا ازالہ ہوگیا۔ فرمایا یہ تو دنیا میں عطا کیا (آیت) ” والاجرالاخرۃ اکبر “۔ اور آخرت کا اجر وثواب تو بہت بڑا ہے جو آگے چل کر حاصل ہوگا اور جس کے مقابلے میں پوری دنیا کا سازوسامان بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، بہرحال فرمایا کہ ہجرت کی تکالیف برداشت کرنے والوں کو اللہ اچھا بدلہ عطا فرمائیگا مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو اس کی تکالیف ومصائب کا ازالہ اس دنیا میں ضرور ہی کردیا جائے ، اس بات میں شک نہیں کہ ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مجموعی حیثیت سے بہت کچھ دیا ، مگر ایسے مسلمان بھی تھے جو ہجرت کے بعد بےسروسامانی کی حالت میں ہی اس دنیا سے جلدی رخصت ہوگئے اور انہوں نے خوشحالی کا دور نہ دیکھا حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ ہجرت کے بعد جو لوگ لمبی مدت تک زندہ رہے انہوں نے بڑے فائدے اٹھائے مگر بعض ایسے بھی تھے جو اسلام کے غلبے کا پورا پھل نہ کھا سکے اور جلدی ہی اللہ کے پیارے ہوگئے بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ جن کا پھل دنیا میں بھی پک چکا تھا اور انہوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ، اسی لیے مہاجرین کے متعلق حضور ﷺ کا حکم تھا کہ جب وہ مکہ مکرمہ آئیں تو وہاں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی موت کا وقت وہیں آجائے اور انکی ہجرت نامکمل رہ جائے ، ایک صحابہ قیام مکہ کے دوران اونٹنی سے گر کر ہلاک ہوگیا ، تو حضور ﷺ نے بڑے افسوس کا اظہار کیا اور دعا کی کہ اے اللہ ! میرے جن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے ہجرت کی ہے ، ان کی ہجرت کو نافذ فرما یعنی ان کی ہجرت باطل نہ ہوجائے ، مکہ کی سرزمین میں فوت ہو کر دفن ہونا اگرچہ نیت کے اعتبار سے نہ بھی ہو ، مگر پھر بھی ان کے اجر وثواب میں کمی کا امکان تو ہے حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے ” ان شان الھجرۃ کبیر “۔ ہجرت کا معاملہ بہت بڑا ہے جس کسی نے جتنی زیادہ تکالیف برداشت کیں ، اس کے لیے اتنا ہی زیادہ وجر وثواب ہے ، آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہہ ہجرت کے بعد کسی مہاجر کی موت مدینہ کی بجائے مکہ میں ہو ، فرمایا آخرت کا اجر تو بہت زیادہ ہے (آیت) ” لوکانوا یعلمون “۔ اگر لوگوں کو اس کا علم ہو ۔ فرمایا یہ اجر مہاجرین کے لیے ہے (آیت) ” الذین صبروا “۔ جنہوں نے صبر کا دامن تھامے رکھا ، ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور زبان پر حرف شکایت نہ لائے حضرت صہیب ؓ ہجرت کرکے مدینہ جانا چاہتے تھے مگر کافر ان کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور انہیں مکہ سے نکلنے نہیں دیتے تھے ، پھر آپ نے کافروں سے سودے بازی کی اور اپنا سارے کا سارا اثاثہ ان کے سپرد کرکے بےسروسامانی کی حالت میں مدینہ منورہ پہنچے حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو فرمایا کہ صہیب ؓ نے سب کچھ لٹا کر بھی بڑا نفع کمایا ہے ، حضرت عمر ؓ اور حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ صہیب ؓ وہ شخص ہے ” لولم یخف اللہ لم یعص “۔ یعنی اگر اسے اللہ کا خوف نہ بھی ہوتا ، تب بھی وہ نافرمانی نہ کرتا “۔ حضرت صہیب ؓ اتنے پاکیزہ دل انسان تھے ، بہرحال مہاجرین نے کفار کے ہاتھوں بڑے دیکھ سہے ، بعض کے بچے رکھ لیے گئے اور بعض کی بیویوں کو روک لیا گیا ، مگر اسلام کے ان شیدائیوں نے ہر قسم کی مالی جسمانی اور ذہنی تکالیف برداشت کیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے ہجرت کی اور پھر ان تکالیف پر صبر کیا فرمایا (آیت) ” وعلی ربھم یتوکلون “۔ انہوں نے بھروسا بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی کیا ، اگر اللہ پر بھروسا نہ ہوتا تو اتنی تکالیف کیسے برداشت کرسکتے ، انہوں نے صبر کیا اور اللہ پر بھروسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی قدر دانی کی اور انعامات سے نوازا ۔ (رسول مرد ہوتے ہیں) گذشتہ رکوع میں گزر چکا ہے (آیت) ” ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا “۔ یعنی ہم نے ہر امت میں ایک رسول مبعوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو ہماری توحید کی دعوت دے اب آج کی اگلی آیت میں رسول کی ایک خاص صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول صرف مرد ہوتے ہیں ، اور اللہ نے کسی عورت کو کبھی رسول بنا کر نہیں بھیجا ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا “۔ ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا مگر مردوں کو یعنی منصب رسالت کے لیے اللہ نے ہمیشہ مردوں ہی کا انتخاب کیا ہے اگرچہ بعض عورتوں کو بھی اللہ نے بڑی فضیلت عطا فرمائی ہے ، اور ان کا ذکر قرآن پاک میں بھی کیا ہے جیسے حضرت مریم (علیہا السلام) اور فرعون کی بیوی ، مگر اللہ نے منصب رسالت ونبوت کسی عورت کو عطا نہیں فرمایا ، تو مردوں کو رسول بنایا اور ساتھ (آیت) ” نوحی الیھم “۔ ان کی طرف وحی بھی کی ، اور وحی کا تذکرہ بھی گذشتہ رکوع میں ہوچکا ہے کہ ہر نبی اور رسول نے اپنی امت کو یہی دعوت دی (آیت) ” ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت “۔ لوگو ! عبادت اللہ کی کرو اور طاغوت سے بچ جاؤ نبی ہمیشہ توحید کی دعوت اور شرک سے منع کرتے رہے ہیں اور اسی بات کا تذکرہ اللہ نے یہاں اجمالا کیا ہے ۔ آیت کے اگلے حصے میں اللہ نے فرمایا کہ بعثت رسل میں اگر تمہیں کچھ شک وتردد ہے یا ان کی تعلیمات کے متعلق تسلی کرنا چاہو ۔ (آیت) ” فاسئلوا اھل الذکر “۔ تو پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے (آیت) ” ان کنتم لا تعلمون “۔ اگر تم خود نہیں جانتے ، مطلب یہ اگر انبیاء کی تاریخ تم نہیں جانتے تو ان صاحب علم لوگوں سے دریافت کرلو جن کو انبیاء کے واقعات یاد ہیں ، اہل کتاب اور بعض دوسرے لوگوں میں بھی بعض اہل علم ہمیشہ رہے ہیں جو اخبار ماضیہ کا علم رکھتے تھے وہ سابقہ امتوں اور ان کے انبیاء کے حالات وواقعات سے واقف ہوتے تھے ، لہذا فرمایا کہ ہماری بات کی تصدیق تم ایسے لوگوں سے کرسکتے ہو ، جو تمہیں بتائیں گے کہ واقعی اللہ نے ہر امت ، گروہ اور قوم میں انبیاء مبعوث فرمائے جنہوں نے اپنی اپنی اقوام کو اللہ کی طرف دعوت دی اور کفر وشرک سے منع کیا ، (تقلید کی ضرورت) اس حصہ آیت سے مفسرین نے یہ بات بھی اخذ کی ہے کہ اس آخری امت میں مسائل دینیہ سے ناواقف لوگوں کو اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ان سے مسئلہ پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے تقلید اسی بات کا نام ہے کہ نہ جاننے والے جاننے والوں سے دریافت کرکے عمل پیرا ہوں ، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ اہل علم پر مکمل اعتماد کرکے ان کی بات کو بلادلیل تسلیم کرلیا جائے ، جو چیزیں قرآن وسنت میں صراحتا مذکور ہیں ان پر تو من وعن عمل کرنا ہی ضروری ہے اور وہاں کسی تقلید کی ضرورت نہیں ہوتی ، البتہ جن مسائل کے متعلق قرآن وحدیث میں صراحت موجود نہ ہو ، ان کو معلوم کرنا ہر آدمی کا کام نہیں بلکہ وہ تو مجتہد حضرات ہی کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے غیر معمولی استعداد اور صلاحیت عطا فرمائی ہے اسی طرح بعض چیزوں میں تعارض پایا جاتا ہے ، اور اس کو دور کرنا بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے بلکہ یہ بھی مجتہد ہی کرسکتا ہے ، غرضیکہ ایسے مسائل میں کسی مجتہد کی طرف رجوع کرنا ہی تقلید کہلاتا ہے ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ عوام کے لیے اس قسم کی تقلید وجوب کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ وہ کود ایسے مسائل کے حل کی استعداد نہیں رکھتے اور بعض اوقات بڑے بڑے صاحب علم لوگ بھی بعض مسائل کے حل کرنے میں عاجز آجاتے ہیں ، وہ کسی تعارض کو دور نہیں کرسکتے یا کسی مسئلے میں استنباط سے عاجز آجاتے ہیں ، مثلا امام رازی (رح) ، امام غزالی (رح) ، امام شاہ ولی اللہ وغیرہم قرآن وسنت کو بخوبی جاننے کے باوجود فروعات میں آئمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی کے مقلد تھے ، کہتے تھے کہ ہم بھی قرآن وسنت کو جانتے ہیں مگر جو کچھ ائمہ سلف جانتے تھے ، ہماری رسائی وہاں تک نہیں ہے ، اور جس طرح وہ اجتہاد کرسکتے تھے ، ہماری وہ طاقت نہیں ، چناچہ یہ بزرگ بھی ائمہ سلف پر اعتماد کرتے تھے ، امام شاہ ولی اللہ (رح) حنفی مسلک رکھتے تھے جب کہ امام رازیرحمۃ اللہ علیہ اور امام غزالی (رح) شافعی تھے اسی طرح امام ابن تیمیہ (رح) حافظ الحدیث ہونے کے باوجود امام احمد کے مقلد تھے غرضیکہ یہ تقلید بری نہیں ہے بلکہ جس اندھی تقلید کی مذمت قرآن میں کی گئی ہے ، وہ مشرکانہ تقلید ہے جو اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے خلاف ہو اور مقلدین محض آباؤ و اجداد کی رسم کے طور پر اسے سینے سے لگائے ہوئے ہوں اور اس کے مقابلے میں صریح حکم بھی ٹھکرا دیں ، ایسی تقلید حرام ہے ۔ (فقہی اختلاف کی حیثیت) اس وقت جو فقہی ، اختلاف حنفی ، مالکی ، شافعی ، ظاہری وغیرہ پائے جاتے ہیں ان کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ فرقہ واریت کی زد میں آتے ہیں یہ تو محض فہم و دلیل کی بات ہوتی ہے جسے مناظر قسم کے لوگ خواہ مخواہ طول دیکر ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں فروعی اختلاف کی مثال حرمت سود کے متعلق دی جاسکتی ہے ظاہر ہے کہ سود کی حرمت ، قرآن پاک سے ثابت ہے مگر حضور ﷺ نے اس ضمن میں صرف چھ چیزوں کا ذکر کیا ہے ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی کوئی چیز سود میں آتی ہے یا نہیں ، پھر آئمہ کرام اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں کہ سود کی حرمت مذکورہ چھ چیزوں کی ذات تک محدود ہے یا یہ حرمت ان میں موجود کسی علت کی وجہ سے پائی جاتی ہے اب اگر وجہ حرمت علت ہے تو اس کی تلاش کی جائیگی ، اب علت کی جستجو میں چاروں آئمہ کا آپس میں اختلاف ہے کیس نے کسی چیز کو علت قرار دیا ہے اور کسی نے کسی چیز کو ، مگر سود کی حرمت کے متعلق سارے متفق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ سود کیوں حرام ہے اور ایسا اختلاف ہرگز معیوب نہیں ، اس معاملہ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج نہیں بونا چاہئے کوئی شخص اپنے مسلک کو بیشک ترجیح دے مگر دوسرے کو غلط نہ کہے اور نہ ہمارے دور کی طرح پہلے مناظرہ بازی اور پھر فتوی بازی کرے ، جب کسی معاملہ میں اجتہاد کیا جائے گا تو وہاں اختلاف کا پیدا ہونا فطری بات ہے تاہم عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک امام کا اتباع کرلیں ، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بیماری کی حالت میں کوئی مریض شہر کے مختلف ڈاکٹروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیتا ہے کہ وہ اس کا بہتر طور پر علاج کرسکتا ہے ، اگرچہ شفا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر اسباب کی دنیا میں طبیب کی طرف رجوع کرنا بھی ضروری ہے ، اب اگر کوئی مریض ایک ڈاکٹر پر قناعت کرنے کی بجائے وقفہ وقفہ سے مختلف ڈاکٹروں سے علاج کرائے گا ، تو اس سے مرض پر منفی اثرات پڑنے کا بھی خطرہ ہوگا ، لہذا مریض کو کسی ایک ڈاکٹر پر ہی اکتفا کرنا بہتر ہوگا ، بالکل یہی حال تقلید کا ہے کہ کسی ایک امام کے انتخاب پر قانع ہوجائے اور پھر فروعات میں اس کے فتوی کے مطابق عمل کرے ۔ فرمایا ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو رسول بنا کر بھیجا (آیت) ” بالبینت “۔ کھلی نشانیوں کے ساتھ یعنی ہم نے ان رسولوں کو احکام اور معجزات عطا فرمائے (آیت) ” والزبر “ اور صحیفے یعنی چھوٹی کتابیں بھی عطا فرمائیں ، صحیفہ چھوٹی کتاب کو کہا جاتا ہے تاہم اللہ نے چار بڑی کتابیں بھی اپنے منتخب رسولوں کو عطا کیں اور پھر سب سے آخر میں (آیت) ” وانزلنا الیک الذکر “۔ اے نبی آخر الزمان ! آپ کی طرف ذکر نازل فرمایا ، ذکر کا معنی نصیحت ہے اور یہ قرآن پاک کا ایک نام بھی ہے ، ظاہر ہے قرآن پاک سے بڑھ کر کون سی نصیحت ہو سکتی ہے ، تو فرمایا ہم نے آپ کی طرف قرآن پاک کو نازل فرمایا (آیت) ” لتبین للناس مانزل الیھم “۔ ؛ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ چیز بیان کردیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ، مطلب یہ کہ نبی کی زبان سے قرآن پاک کی تبیین وتشریح بھی ضروری ہے ۔ (تشریح بذریعہ سنت) اس امت آخر الزمان کے لیے قرآن کریم کو اساسی قانون کی حیثیت حاصل ہے جب کہ سنت اس کی تبیین ہے ، اللہ نے اپنے نبی کی زبان اور اس کے عمل سے جس چیز کو ظاہر کیا ہے ، وہ سنت ہے بعض گمراہ فرقے نبی کو محض ڈاکیے سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے کہ نبی اللہ کا پیغام پہنچا کر پھر لاتعلق ہوجاتا ہے ، نہیں بلکہ قرآن کی تشریح وتبیین بھی نبی کا کام ہے ، چناچہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) لکھتے ہیں ، پس صحیح حدیث شرح ہے قرآن کی ، امام شافعی (رح) اور شاہ ولی اللہ (رح) نے بھی یہی فرمایا ہے کہ صحیح حدیث قرآن کی شرح ہیں ، البتہ غلط اور موضوع احادیث ناقابل عمل ہیں جنہیں محدثین عظام نے چھانٹ کر علیحدہ کردیا ہے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ میرا مسلک یہ ہے کہ قرآن پاک کی تشریح کے لیے میں سب سے پہلے قرآن کو دیکھتا ہوں کیونکہ بعض چیزوں کی تشریح خود قرآن پاک کرتا ہے ، اگر ایک مقام پر کسی بات میں اجمال ہے تو دوسرے مقام پر تفصیل مل جاتی ہے ، اگر کوئی چیز قرآن پاک سے نہ ملے تو پھر میں سنت ثابتہ کی طرف رجوع کرتا ہوں ، وہاں سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے ، اور اگر وہاں بھی کوئی چیز ثابت نہ ہو تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا اتفاق ہو ، تو میں اس کا اختیار کرلیتا ہوں اور اگر ان میں اختلاف ہو تو پھر میں ازخود ترجیح دیتا ہوں اور زیادہ راجح چیز کو اپنا لیتا ہوں ، یہ تین چیزیں مسلم الاصول ہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے بعد ہم کسی کی پروا نہیں کرتے بلکہ خود اجتہاد کرتے ہیں کہ اسی میں خیریت ہے ۔ امام ابن تیمیہ (رح) بھی اپنے فتوی میں لکھتے ہیں ” فالسنۃ تفسر القران وتبینہ “۔ یعنی سنت ہی قرآن کی تفسیر کرتی ہے اور اس کو بیان کرتی ہے جو لوگ سنت کا انکار کرتے ہیں ، وہ قرآن کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟ ان کا انکار سنت محض اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ قرآن پاک کی مانی تفسیر کرسکیں ، چناچہ پرویز کہتا ہے کہ جو نماز ہم ادا کرتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو ، اس کے مطابق جب پرویزیوں کی حکومت قائم ہوگی اور پھر وہ نماز کا طریقہ وضع کریں گے تو اس کے مطابق نماز درست ہوگی ، ہماری موجودہ نماز بیکار محض ہے ، (نعوذ باللہ) حالانکہ تمام سلف صالحین آئمہ کرام ، بزرگان دین ، محدثین ، مفسرین وغیرہم اسی نماز پر اتفاق کرتے اور پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں ، نماز اسلام کے فرائض اربعہ میں سے اہم فرض ہے جس کے ارکان میں کسی کو اختلاف نہیں مگر منکرین سنت کے نزدیک یہ نماز ایک رسم سے زیادہ کچھ نہیں ۔ فرمایا ہم نے آپ کی طرف قرآن پاک نازل فرما کر آپ کو تشریح کا حکم بھی دے دیا ہے ، اب یہ لوگوں کا فرض ہے (آیت) ” ولعلھم یتفکرون “۔ کہ اس کلام الہی میں غوروفکر کریں کہ جن احکام الہی کی اللہ کے نبی نے تفصیل بیان کردی ہے ، اس پر کس طریقے سے عمل کرنا ہے قرآن میں غور وفکر کی دعوت خود قرآن پاک نے متعدد مقامات پر دی ہے ، اب یہ اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں ۔
Top