Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے
والذین ھاجروا فی اللہ من بعد ما ظلموا اور جن لوگوں نے اللہ کے واسطے اپنا وطن چھوڑ دیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا۔ فِی اللہ یعنی اللہ کی راہ میں ‘ اللہ کے معاملہ میں ‘ اللہ (کو ماننے) کی وجہ سے۔ ظُلِمُوْا بعد اس کے کہ ان کو سخت دکھ دئیے گئے اور ایذائیں پہنچائی گئیں۔ عبدالرزاق اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس اور داؤد بن ہند کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت ابو جندل بن سہیل کے متعلق ہوا۔ مشرکوں نے کہ میں آپ کو قید کر رکھا تھا اور دکھ پہنچائے تھے۔ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور عبد بن حمید نے قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول چند صحابہ کے متعلق ہوا جن پر مکہ والوں نے مظالم کئے تھے اور گھروں سے نکال باہر کردیا تھا۔ انہی مظلوموں میں سے ایک گروہ ملک حبش کو چلا گیا تھا۔ پھر اللہ نے ان کو مدینہ میں ٹھکانا دے دیا ‘ مدینہ کو ان کیلئے دارالہجرت بنا دیا اور کچھ مؤمنوں (یعنی مدینہ والوں) کو ان کا مددگار کردیا۔ لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ ولاجر الاخرۃ اکبر ہم ضرور دنیا میں ان کو ٹھکانا دیں گے اچھی طرح اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بڑا ہے۔ اچھے ٹھکانے سے مراد ہے مدینہ۔ بغوی نے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب کسی مہاجر کو کچھ عطا فرماتے تھے تو کہتے تھے : یہ لے لو ‘ اللہ تم کو مبارک کرے۔ یہ چیز تو وہ ہے جس کے دینے کا اللہ نے تم سے دنیا میں وعدہ کیا تھا اور آخرت میں جو تمہارے لئے رکھ چھوڑا ہے ‘ وہ بہت بہتر ہے۔ پھر آپ یہی آیت تلاوت فرماتے تھے۔ بعض علماء کے نزدیک آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی کریں گے۔ بعض نے کہا : دنیا میں بھلائی سے مراد ہے : ایمان کی توفیق اور نیکی کی ہدایت۔ لو کانوا یعلمون اگر (کفار) جانتے ہوتے (کہ اللہ ان مہاجروں کو دونوں جہان کی بھلائی عطا فرمائے گا تو ان پر ظلم نہ کرتے ‘ ان کی تائید کرتے) یا یہ مطلب ہے کہ اگر مہاجروں کو معلوم ہوتا (کہ ہمارے لئے اس دکھ کو پانے کا یہ اجر ہے) تو وہ اور زیادہ کوشش کرتے اور مزید صبر سے کام لیتے۔
Top