Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی بعد اس کے کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے ہم ان کو دنیا میں بھی اچھی طرح متمکن کریں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، کاش وہ جانیں
تفسیر آیت 41 تا 42:۔ وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۭ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۔ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ یتَوَكَّلُوْنَ۔ مہاجرین حبشہ کی تحسین : یہ بات بھی یہاں قیامت کی ضرورت اور اس کے مقاصد کے تحت ہی بیان ہوئی ہے مطلب یہ ہے کہ آخر خدا کے بندے وہ بھی تو ہیں جو آج اس کی راہ میں، اس کے دین کی خاطر، طرح طرح کے مصائب و شداید کا ہدف بنے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر محض اپنے دین کو بچانے کی خاطر، اپنے وطن اور گھر در کو چھوڑ کر ایک غیر ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ کیا اللہ ان لوگوں کو ان کی ان جانبازیوں کا صلہ نہیں دے گا ؟ ضرور دے گا۔ دنیا میں بھی ان کو اچھی طرح متمکن کرے گا اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ چرھ کر ہے۔ " لوکانوا یعلمون۔ یعی جو لوگ اللہ کے اس وعدے کی قدر و قیمت اور اس اجر آخرت کی عظمت سے واقف نہیں ہیں وہ جو چاہیں سمجھیں کاش وہ اس سے واقف ہوتے اگر واقف ہوتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ جن لوگوں کو وہ محروم سمجھ رہے ہیں انہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کی کتنی بڑی بازی جیتی ہے۔ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ یتَوَكَّلُوْنَ۔ یہ انہی مہاجرین کی تعریف ہے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب جھیلے لیکن متزلزل نہیں ہوئے بلکہ اپنے موقف حق پر ڈٹے رہے اور جب گھر چھوڑنے تک نوبت آگئی تو اللہ کے بھروسہ پر دامن جھاڑ کر اٹھ گئے ذرا اس بات کی پروا نہیں کہ کیا کھائیں گے اور کہاں سر چھپائیں گے۔ ہجرت کی حقیقت : ان آیتوں سے ہجرت کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ہر نقل مکان کو ہجرت نہیں کہتے۔ ہجرت یہ ہے کہ آدمی اپنے دین کے معاملے میں ستایا جائے یہاں تک کہ وہ اپنا محبوب وطن اور اپنا عزیز آشیانہ چھوڑ کر وہاں سے نکلتے اور دوسری سرزمین کو اپنی پناہ گاہ بنانے پر مجبور ہوجائے۔ اس راہ میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ اس کے سر پر آرے ہی کیوں نہ چل جائیں لیکن دین حق کی جو نعمت اس کو مل چکی ہے وہ اس سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہو اور توکل کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں لیکن وہ یہ اعتماد رکھے کہ اللہ اس کو تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ اس کی دست گیری فرمائے گا۔ یہی صبر و تکل ہجرت کی راہ میں زاد راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
Top