Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، کاش وہ اسے جانتے۔
مہاجرین کا اجروثواب تشریح : ہجرت کے فضائل یہاں بیان کیے گئے ہیں۔ ہجرت کی تفصیلات سورة نساء کی آیت 97 میں بیان ہوچکی ہیں یہاں تو اللہ کے ان وعدوں کا ذکر ہے جو مہاجرین سے کیے گئے۔ پہلا یہ کہ مہاجرین کو دنیا و آخرت میں بہترین اجر ملے گا۔ جیسا کہ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ سے مسلمان ہر قسم کی فتح و کامرانی اور عزت ووقار سے مالا مال ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ دنیا و آخرت میں بھلائی کا وعدہ تمام مسلمان مہاجرین کے لیے ہے۔ پھر ہجرت کے خالص ہونے کی کچھ شرائط ہیں۔ پہلا : ہجرت کا مقصد خالصتاً اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو۔ دوسرا : مظلوم ہونا۔ تیسرا۔ تکالیف پر صبر کرنا۔ چوتھا اللہ پر مکمل بھروسا ہونا۔ اسی طرح ہجرت کی کچھ قسمیں ہیں : (1) دارالکفر سے دارالسلام کی طرف جانا۔ (2) جسمانی اذیتوں سے بچنے کے لیے ہجرت کرنا۔ (3) آب و ہوا کی خرابی اور امراض سے بچنے کے لیے ہجرت کرنا۔ (4) مال، جان اور عزت کی حفاظت کے لیے ہجرت کرنا۔ آخر میں صبرو استقامت اور توکل علی اللہ کی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں بیشمار جگہ پر آیا ہے کہ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس لیے مصیبت اور پریشانی میں صبر و سکون اور شکر سے کام لینا چاہیے۔ تمام تکلیفوں کا حل اسی میں ہے۔ اور آخرت میں تو صبر کرنے والے بڑا درجہ حاصل کریں گے۔
Top