Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
(169 ۔ 171) ۔ ابو داؤد اور مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے اور ترمذی میں حضرت جابر ؓ سے روایات ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کے لوگ جو شہید ہوئے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے کو یہ درجہ دیا کہ ان کی جانوں کو ایک طرح کے سبز جانوروں کے پوٹوں میں رکھا۔ اور وہ جانور جنت کے میوے کھاتے ہیں اور جنت کی نہروں میں پانی پیتے ہیں اور سونے کی قندیلیں جو عرش معلیٰ کے نیچے لٹکتی ہیں ان میں رہتے ہیں تو ان شہیدوں کی روحوں نے یہ تمنا کی کہ ان کے اس عیش اور راحت کی خبر کسی طرح ان کے ساتھ کے زندہ مسلمانوں کو پہنچ جائے تاکہ وہ زندہ مسلمان بھی شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ نے ان شہیدوں کی روحوں سے فرمایا کہ میں تمہاری خبر تمہارے مسلمان بھائیوں کو پہنچا دیتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاکم نے اس شان نزول کو بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے 1۔ اور مسلم میں یہ روایت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے ہے اس میں اس قدر اور زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان شہدا کی روحوں سے پوچھتا ہے کہ اب تمہیں کیا تمنا باقی ہے وہ روحیں کہتی ہیں کہ ہم نے سب کچھ پایا اگر ہے تو تمنا یہی ہے کہ ایک دفعہ ہم دنیا میں جائیں اور پھر تیرے نام پر شہید ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ نہیں ہوسکتا 2۔ اور مسند امام احمد بن حنبل میں جو صحیح روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوا شہیدوں کے اور مسلمانوں کی روحیں بھی جنت میں جانوروں کے بھیس میں میوے کھاتی ہیں 1۔ فرق اسی قدر ہے کہ شہیدوں کی روحیں قندیلوں میں عرش کے نیچے لٹکتی ہیں اور عام مسلمانوں کی روحیں یوں ہی جنت کے جانوروں کے بھیس میں رہتی ہیں۔ شہیدوں کی زندگی اور رزق کا ذکر آیت کی تفسیر کے طور پر جو ان حدیثوں میں آیا ہے۔ اکثر سلف نے اس کے معنی ظاہری زندگی اور رزق کے لئے ہیں بعض مفسروں نے اگرچہ ان معنی میں کچھ کچھ تاویلیں کی ہیں۔ لیکن آیت اور حدیثوں کے لفظوں سے ان تاویلوں کو کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ ان صحیح حدیثوں سے جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ مرنے کے بعد پھر کسی طرح انسان دنیا میں نہیں آسکتا تو اس سے اہل تناسخ کا یہ مذہب غلط قرار پاتا ہے کہ نیک روح اچھی صورت کے بھیس اور بد روح بری صورت کے بھیس میں ثواب اور عذاب کے طور پر دوبارہ پھر دنیا میں آتی ہے اسی طرح صحیح حدیثوں سے جب کہ یہ معلوم ہوگیا کہ حشر کے دن ہر روح کا تعلق جسم سے ہوجائے گا۔ اور پھر جنت اور دوزخ میں ہمیشہ وہی تعلق رہے گا تو اسے سے فلسفی لوگوں کا یہ مذہب بےاصل ٹھہرتا ہے کہ ” مرنے کے بعد جسم تو ہمیشہ کے لئے خاک ہوجائے گا فقط روح اس طرح باقی رہے گی کہ نیک روح نیکی کی تصور سے خوش اور بدروح بدی کی تصوری سے غمزدہ رہے گی اس کا نام ثواب و عذاب ہے “ احد کے چند شہداء ایسے ہیں جن کا قصہ قابل ذکر ہے ان میں ایک تو سید الشہداء امیر حمزہ ؓ ہیں۔ حضرت امیرحمزہ ؓ نے بدر کی لڑائی میں ایک شخص کافر طعمہ بن عدی کو قتل کر ڈالا تھا۔ اس عداوت سے اس طعمہ کے بھتیجے جبیر بن مطعم نے اپنے غلام وحشی سے یہ کہہ رکھا تھا کہ کسی لڑائی میں موقع پاکر اگر امیر حمزہ ؓ کو شہید کر ڈالے تو میں تجھ کو آزاد کر دوں گا اس وحشی نے جنگ احد میں ایک پتھر کی آڑ میں سے حضرت امیر حمزہ ؓ کے بر چھامار دیا۔ جس سے وہ شہید ہوگئے۔ شہید ہوجانے کے بعد ہندو ابوسفیان کی بی بی یزید کی دادی نے حضرت امیر حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبا ڈالا۔ اور جب اس کو نگل نہ سکی تو تھوک دیا احد کے ستر شہیدوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے امیر حمزہ ؓ کی ستر 70 مرتبہ جنازہ کی نماز پڑھی اور سید الشہداء کا خطاب دیا۔ فتح مکہ کے بعد یہ وحشی مسلمان ہوا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں اسی وحشی نے قتل کیا دوسرے شہید احد کے حنظلہ بن عامر ؓ ہیں جن کو ملائکہ نے غسل دیا ہے۔ تیسرے عبد اللہ بن عمر ؓ و جابر ؓ کے باپ ہیں جن کی لاش پر فرشتوں نے اپنے پروں کا سایہ کیا تھا۔ غازیوں میں حضرت طلحہ ؓ نے ایک ہاتھ سے لڑائی کی اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال لے کر آخر لڑائی تک آنحضرت کی مخالفت کرتے رہے اور بڑی بڑی جرأت کی۔ چناچہ جب احد کی لڑائی کا ذکر آیا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ احد کی ساری لڑائی طلحہ ؓ پر ختم ہے۔ دوسرے نامی غازی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں جن پر آنحضرت نے اس لڑائی میں اپنے ماں باپ کو فدا کیا ہے۔
Top