Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
(شان نزول) 169۔ (آیت)” ولا تحسبن الذین ۔۔۔۔ امواتا “ یہ آیت شہداء بدریین کے بارے میں نازل ہوئی ، جن میں چودہ افراد ان میں آٹھ انصاری صحابی ؓ ۔۔۔۔۔ اور چھ مہاجرین صحابی ؓ تھے ۔۔۔۔ اور بعض نے کہا کہ یہ آیت شہداء احد کے متعلق نازل ہوئی اور وہ ستر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے ۔ (شہید زندہ ہوتا ہے) ان مہاجرین میں سے چار حمزہ بن عبدالمطلب ؓ ، مصعب بن عمیر ؓ ، عثمان بن شماس ؓ ، عبداللہ بن جحش ؓ اور تمام انصار ؓ تھے ، عبداللہ بن مرہ ؓ مسروق ؓ سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس آیت کے متعلق پوچھا (آیت)” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون “۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کی ارواح سبز پرندوں کی شکل میں ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ سبز پرندون کے پوٹوں میں ہے جو عرش کی قندیلوں کے ساتھ معلق ہیں وہاں سے جنت کی سیر کرتے ہیں جہاں چاہتے ہیں پھر واپس عرش کی قندیلوں میں واپس آجاتے ہیں ، اللہ انکو دیکھتا ہے اور فرماتا ہے کیا تم کچھ چاہتے ہو ایسا روزانہ تین مرتبہ ہوتا ہے، دوسری آیت میں آیا ہے کہ اللہ فرمانا ہے مجھ سے مانگو جو کچھ چاہو وہ جواب دیتے ہیں اے رب ! اے رب ! ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں کے اندر دوبارہ لوٹا دیا جائے تاکہ ہم ایک بار اور تیرے راستے میں جہاد کریں پھر جب اللہ رب العزت دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں تو ان کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ارشاد فرمایا س کہ احد کے دن جب تمہارے ساتھی مارے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پوٹوں میں داخل کردیا ، وہ جنت کی نہروں میں اترتے ہیں جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے ہیں اور جنت کے پھلوں سے کھاتے ہیں اور واپس لوٹ کر سونے کی ان قندیلوں میں چلے جاتے ہیں جو عرش کے نیچے آویزاں ہیں ۔ جب انہوں نے اپنی عمدہ خواب گاہ کھانا پینا دیکھا اور اللہ نے ان کے لیے جو عزت فراہم کی ہے تو اس کا معائنہ کیا تو وہ کہتے ہیں کہ کاش ! ہماری اس موجودہ راحت اور حسن سلوک جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کیا اطلاع ہوجاتی تاکہ ان کو بھی جہاد کی ترغیب ہوتی اور وہ جہاد سے روگرداں نہ ہوتے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہاری طرف سے ان کو اطلاع دے دوں گا اور تمہارے بھائیوں کو خبر پہنچا دوں گا ، شہداء یہ سن کر خوش اور ہشاش بشاش ہوجاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)” ولا تحسبن الذین ’“ سے لے کر ” لایضیع اجر المؤمنین “۔ تک۔ طلحہ بن خراش ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے ملے اور ارشاد فرمایا اے جابر کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں ناشکستہ دیکھ رہا ہوں ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے والد شہید ہوگئے اور ان کے بچے رہ گئے اور ان پر قرض بھی ہے ، فرمایا کیا میں تجھے بشارت نہ دوں کہ اللہ تیرے باپ سے کس طرح ملا، میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمائیے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس سے کلام کیا پردہ کی اوٹ سے کیا مگر تمہارے باپ کو زندہ کرکے روپرو کلام کیا اور فرمایا میرے بندے اپنی آرزو مجھ پر بیان کر میں تجھے دوں گا ، تیرے باپ نے کہا میرے رب مجھے پھر زندہ کر دے کہ میں دوبارہ تیرے راستے میں قتل کر دیاجاؤں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فیصلہ ہوچکا کہ مرنے کے بعد پھر وہ نہیں لوٹیں گے ، راوی کا بیان ہے کہ پھر ان شہداء کے بارے میں نازل ہوئی ۔ (آیت)” لا تحسبن الذین قتلوا “۔ بیر معونہ کے شہداء صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا واقعہ) حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ مرتا ہے اور اس کو اللہ کے ہاں اچھا انعام ملے اور وہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹنے کی تمنا کرے مگر صرف شہید جو اتنے انعامات کے ہونے کے باوجود وہ دوبارہ شہادت کی تمنا کرے گا ، بعض حضرات نے کہا کہ ان آیات کا نزول بیئرمعونۃ کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی جس کا سبب وہ ہے جس کو محمد بن اسحاق (رح) ، نے انس بن مالک ؓ اور بعض اہل علم نے بیان کیا کہ ابو براء عامر بن مالک بن جعفر جن کا لقب ملاعب الاسنۃ تھا ، یہ بنو عامر بن صعصہ کا سردار تھا ، یہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو ہدیہ پیش کیا آپ ﷺ نے اس ہدیہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور ارشاد فرمایا کہ میں مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا ، اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارا ہدیہ قبول کرلوں تو مسلمان ہوجاؤ پھر اس پر اسلام کو پیش کیا گیا اور اس کو وہ تمام انعامات بیان کیے جو مؤمنین کو حاصل ہوتے ہیں اور اس کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت کی گئی لیکن پھر بھی وہ اسلام نہیں لایا اور وہ کہنے لگا محمد جس کی تم دعوت دیتے ہو وہ خوبصورت ہے پس اگر تم اپنے ساتھیوں میں سے کچھ لوگوں کو اہل نجد کے لیے بھیج وہ تو مجھے امید ہے کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اہل نجد کی طرف سے اپنے آدمیوں کے متعلق خطرہ ہے ، ابو البراء کہنے لگا میرا ان کے ساتھ تعلق ہے ۔ میں ان کی پناہ کا ذمہ لیتا ہوں ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت منذر بن عمر ساعدی ؓ کو ستر منتخب انصاری صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا سردار بنا کر سب کو بھیج دیا ، ان ستر آدمیوں کو قاری کہا جاتا تھا (یعنی یہ سب قاری اور عالم قرآن تھے) انہیں میں حضرت ابوبکر ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت عامر بن فہیرہ ؓ بھی تھے یہ روانگی ماہ صفر 4 ہجری میں ہوئی ، غرض یہ لوگ چل دیئے اور بئیر معونہ پہنچ کر پڑاؤ کیا ، بیئر معونہ کی زمین بنی عامر کی زمین اور بنی سلیم کے پتھریلے علاقہ کے درمیان واقع تھی یہاں پہنچ کر ان لوگوں نے حضرت حرام ؓ بن ملحان کو رسول اللہ ﷺ کانامہ مبارک دے کر بنی عامر کے کچھ آدمیوں کے ساتھ عامر بن طفیل کے پاس بھیجا ، حضرت حرام ؓ نے پہنچ کر کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں ، تمہارے پاس آیا ہوں ، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول اللہ ﷺ ہیں ، لہذا تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ ، حضرت حرام ؓ کی اس تبلیغ کے بعد ایک شخص نیزہ لے کر گھر کی جھونپڑی سے برآمد ہوا اور آتے ہی حضرت حرام ؓ کے پہلو پر برچھا مارا جو دوسرے پہلو سے نکل گیا ، حضرت حرام ؓ فورا بول اٹھے ، اللہ اکبر ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ، اس کے بعد عامر بن طفیل نے بنی عامر کو ان صحابیوں کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے خلاف چیخ کر آواز دی ، بنی عامر نے اس کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا اور بولے ابو براء ؓ کی ذمہ داری کو نہ توڑو، عامر بن طفیل ، نے بنی سلیم کے قبائل عصبہ ، رعل اور ذکوان کو پکارا انہوں نے آواز پر لبیک کہی اور نکل کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر چھا گئے اور فرودگاہ پر آکر سب کو گھیر لیا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے مقابلہ کیا یہاں تک کہ سب شہید ہوگئے صرف کعب بن زید ؓ بچ گئے اور وہ بھی اس طرح کہ کافر ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے مگر ان میں کچھ سانس باقی تھی اس لیے زندہ رہے اور آخر خندق کی لڑائی میں مارے گئے ۔ عمرو بن امیہ ضمیر اور ایک انصاری جو عمرو بن عوف کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جب ان پر مصیبت پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ لشکر کے اوپر پرندے منڈلا رہے ہیں ، دونوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! یہ کسی واقعہ کی علامت ہے یہ دونوں سامنے آئے تاکہ دیکھ سکیں دیکھا کہ قوم خون میں لت پت ہے اور گھوڑے ان کے سروں پر کھڑے ہیں ، انصاری نے عمرو بن امیہ سے کہا کہ تم کیا دیکھتے ہو اور تمہاری کیا رائے ہے وہ کہنے لگا میں تو کہتا ہوں کہ ہم اس خبر کو آپ ﷺ تک پہنچائیں ، انصاری نے کہا کہ اللہ اکبر میں تو منذر بن عمرو جہاں قتل ہوئے ہیں میں بھی وہاں شہید ہونا چاہتا ہوں ، پھر قوم سے قتال کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے اور عمرو بن امید کو قید کرکے لیے گئے لیکن عمرو نے بتایا کہ میں قبیلہ مضر سے ہوں تو عامر بن طفیل نے ان کو چھوڑ دیا ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اطلاع دی ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ حرکت ابو براء نے کی ہے اس نے یہ حرکت کی جو اس کے لیے خوف کا سبب بنی ، جب یہ خبر براء تک پہنچی تو اس کو یہ بات بہت شاق گزری اور اسی وجہ سے بھی کہ وہ آپ ﷺ کے قرب و جوار میں ہوتا تھا اور ان لوگوں میں سے جن کو مصیبت پہنچی ، ان میں سے عامر بن فہیرہ بھی تھے ۔ عامر بن طفیل کہتا تھا ان میں وہ شخص کون تھا کہ جب وہ مارا گیا تو اس کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھا لیا گیا یہاں تک کہ آسمان مجھے اس سے نیچا نظر آنے لگا لوگوں نے کہا وہ عامر بن فہیرہ ؓ تھے ۔ اس واقعہ کے بعد ابو براء کے بیٹے ربیعہ نے عامر بن طفیل پر حملہ کردیا ، عامر گھوڑے پر سوار تھا ، ربیعہ نے ان کے نیزہ مارا اور قتل کردیا صحین میں بوساطت قتادہ ، حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان کے قبائل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ظاہر کیا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور دشمنوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے (فوجی) مدد مانگی ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ نے ان کے ساتھ ستر انصاری جن کو ہم قاری کہتے تھے بطور مدد کردیئے ، یہ حضرات دن میں لکڑیاں جمع کرتے (اور فروخت کرکے گزارا کرتے) اور رات کو نمازیں پڑھتے تھے ، جب یہ لوگ بیئر معونہ پر پہنچے تو کافروں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور (سب کو) شہید کردیا ، رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ایک ماہ تک صبح کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جس میں کچھ قبائل عرب یعنی رعل ، ذکوان ، عصیہ اور بنی لحیان کے لیے بددعا کی ، امام احمد ، بخاری ، مسلم ، اور بیہقی نے حضرت انس ؓ کی روایت اور بیہقی (رح) نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے اور بخاری نے عروہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، ہمارے ساتھ کچھ لوگوں کو بھیج دیجئے جو ہم کو قرآن اور سنت کی تعلیم دیں ، حضور اقدس ﷺ نے ان کے ساتھ ستر انصاری جن کو قاری کہا جاتا تھا بھیج دیئے ، مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی یہ درخواست کرنے والے ان قاریوں کے درپے ہوگئے اور سب کو شہید کردیا، شہداء نے کہا اے اللہ ! ہمارے نبی کو یہ خبر پہنچا دے ، دوسری روایت میں آیا ہے کہ ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم نے (اے اللہ) تجھے پالیا ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہے ، اللہ نے وحی بھیجی کہ میں شہداء کی طرف سے (اے مسلمانو ! ) تم کو یہ پیام پہنچاتا ہوں کہ اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے راضی ۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا پہلے ہم (قرآن میں) ان شہدا کے بارہ میں پڑھتے تھے ، ” بلغو عنا قومنا انا قد لفینا ربنا فرضی عنا وارھانا “۔ لیکن پھر یہ جملے منسوخ کردیئے گئے (اور قرآن سے خارج کردیئے گئے) اس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک صبح کی نماز میں قبائل رعل ، ذکوان ، عصیہ اور بنی لحیان کے لیے بددعا کی، ان قبائل نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تھی ۔ حضرت انس ؓ کا قول ہے کہ ہم اس کو ایک زمانے تک پڑھتے رہے ہیں پھر اس کو اٹھا لیا گیا اور اللہ نے نازل فرمایا (آیت)” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “۔ بعض نے کہا کہ یہ لفظ شہداء کے اولیاء کا ہے کہ جب ان کو دنیا میں کچھ فراوانی حاصل ہوئی تو وہ ان شہداء پر افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تو نعمت میں ہیں ، ہمارے آباء ہماری اولاد اور ہمارے بھائی قبروں میں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں تاکہ ان شہداء کی حالت ان پر واضح ہوجائے (آیت)” ولا تحسبن “۔ نہ گمان کرو (آیت)” الذین قتلوا فی سبیل اللہ “ ابن عامر نیے ” قتلوا “ تشدید کے ساتھ پڑھا ہے ، دوسرے قراء نے بغیر تشدید کے پڑھا ہے ۔ (آیت)” بل احیاء عند ربھم “۔ ہمارے دین (مذہب) میں زندہ ہیں ، بعض نے کہا لوگوں کی یاد میں زندہ ہیں ، کہ قیامت تک انکا تذکرہ ہوتا رہے گا ، بعض نے کہا کہ ان کو رزق بھی دیا جاتا ہے وہ کھاتے بھی ہیں اور ان چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں زندوں کی طرح ۔ بعض نے کہا کہ زندہ ہیں اس لیے ہر روز کہ انکی ارواح رکوع اور سجدہ کرتی ہیں ، عرش کے نیچے قیامت کے دن تک ، بعض نے کہا کہ شہید قبر میں بوسیدہ نہیں ہوگا اس لیے احیاء کہا اور زمین اس کو نہیں کھائے گی ، عبیدہ بن عمیر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ جب احد کے شہداء کے پاس سے گزر رہے تھے جب مصعب بن عمیر ؓ کے پاس پہنچے تو ان کے لیے دعا فرمائی پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت)” من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ “۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پھر فرمایا میں شہادت دیتا ہوں کہ قیامت کے دن یہ سب اللہ کے نزدیک شہید ہوں گے سنو ان کے پاس آیا کرو ان کی زیارت کیا کرو ، ان کو سلام کہا کرو ، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جو کوئی ان کو سلام کرے گا وہ ضرور اس کے سلام کا جواب دیں گے ، ” یرزقون “ جنت کے پھلوں میں سے ان کو ہدیہ ہیں ۔
Top