Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
نیز جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو۔ وہ تو زندہ ہیں 169 جو اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں
169 روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور انفصال کا نام موت ہے۔ قرآن میں دو بار کی زندگی اور دو بار کی موت کا ذکر آیا ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے (1) موت یعنی انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت جسے عالم ارواح کہتے ہیں۔ (2) زندگی یعنی پیدائش سے موت تک کا وقت (3) موت یعنی موت سے قیامت (حشر) تک کا وقت اور (4) زندگی یعنی حشر سے لے کرتا ابد لامتناہی مدت کے لیے، (جنت میں یا جہنم میں) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ موت کے عرصہ میں بھی کلی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے کچھ نہ کچھ اثرات اس میں موجود ہوتے ہیں جیسے عالم ارواح میں تمام پیدا ہونے والے انسانوں سے الست بربکم کا وعدہ لیا گیا تھا اور جیسے عالم برزخ میں بھی مردہ کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان ادوار کو موت کا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں زندگی کے اثرات خفیف اور موت کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ مگر ترتیب میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مرجائے تو فوراً زندگی کے دور سے عالم برزخ (موت کے دور) میں داخل ہوجاتا ہے یا جیسے شہید مرتے ہی عالم برزخ کو پھلانگ کر فوراً جنت میں (عالم عقبیٰ ) میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تین آیات میں مذکور ہے۔ اور چوتھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں رجعت ناممکن ہے۔ مثلاً کوئی شخص پیدا ہو کر واپس عالم ارواح میں نہیں جاسکتا۔ اسی طرح عالم برزخ میں پہنچ چکا ہے وہ دنیا میں نہیں آسکتا۔ شہید چونکہ فوراً عالم عقبیٰ (جنت میں) پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس کا واپس عالم برزخ یا عالم دنیا میں آنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل دو احادیث سے یہ پورا مضمون واضح ہوجاتا ہے۔ 1۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ ملے اور پوچھا ! کیا بات ہے جابر ؟ میں تمہیں شکستہ خاطر دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے والد (جنگ احد میں) شہید ہوگئے اور قرض اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں یہ بشارت نہ دوں کہ اس کی اللہ سے کیسے ملاقات ہوئی ؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتلائیے آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا، مگر پردے کے پیچھے سے اللہ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا پھر اس سے رو در رو بات کی اور پوچھا : کچھ آرزو کرو جو میں تمہیں عطا کروں۔ تیرے باپ نے کہا : اے میرے پروردگار ! مجھے دوبارہ زندگی دے تاکہ میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہید ہوجاؤں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے کہ لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے راوی کہتا ہے۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) 2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ شھداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی۔ ان کے لیے عرش الٰہی میں کچھ قندیلیں لٹکی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر، ان قندیلیوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ان کے پروردگار نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا : کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہم کس چیز کی خواہش کریں۔ ہم جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پروردگار نے ان سے تین بار یہی سوال کیا : جب انہوں نے دیکھا کہ اب جواب دیئے بغیر چارہ نہیں تو کہا : اے ہمارے پروردگار ! ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں واپس (دنیا میں) لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں پھر جہاد کریں اور پھر شہید ہوں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنہ وانھم احیاء عندربھم یرزقون) سورة بقرہ کی آیت نمبر 154 میں فرمایا گیا کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو۔ قرآن کے شہداء کے متعلق یہ ارشادات محض اعزازی نہیں۔ بلکہ شہداء کی فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ عالم دنیا سے رخصت ہوتے ہی فوراً جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ عالم برزخ یعنی موت والا تیسرا دور ان پر نہیں آتا۔
Top