Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور نہ خیال کریں آپ ان لوگوں کے بارے میں جو مارے گئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مردے ، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے پاس ان کو روزی دی جاتی ہے۔
ربط آیات : گزشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تنبیہ فرمائی کہ وہ منافقوں ، یہود اور نصاری کی مشابہت اختیار نہ کریں۔ جو روش انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر اختیار کی تھی اس سے منع فرمایا۔ نیز منافقین نے شہدائے احد کے متعلق کیا تھا۔ لو کانوا عندنا ما ماتوا وما قتلوا۔ یعنی اگر یہ لوگ جنگ میں شریک ہونے کی بجائے ہمارے ساتھ پڑے رہتے تو نہ مارے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی بھی تردید فرمائی۔ دوسری بات اللہ نے یہ بھی بیان فرمائی کہ جب منافقین سے کہا گیا ۔ تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ آؤ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ یا کم از کم دشمن سے دفاع ہی کرو۔ تو انہوں نے یوں حیلہ سازی کی کہ یہ تو کوئی ڈھب کی لڑائی نہیں ہے جس میں ہم شریک ہوں۔ یہ تو خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی ڈھب سے جنگ کی منصوبہ بندی کی جاتی تو ہم ضرور اس میں شامل ہوتے۔ بلکہ شہدائے احد کے متعلق انہوں نے کہا۔ لو اطاعونا ما قتلوا۔ اگر یہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے اللہ تعالیٰ نے ان تمام باتوں کی تردید فرمائی۔ جہاد فی سبیل اللہ : آج کے درس میں اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے لوگوں کی فضیلت اور ان کا درجہ بیان فرمایا ہے۔ اور ان کو مردہ کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی زندگی جیسی قیمتی متاع کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ انہیں حقیقی زندگی ھاصل ہوجاتی ہے۔ اور وہ بلند مراتب پر فائز ہوجاتے ہیں۔ لہذا فرمایا۔ ولا تحسبن الزین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں مردہ مت گمان کرو۔ اللہ کی راہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ، دین کی اقامت اور اللہ اور اس کے رسول کے مشن کا قیام ہے۔ نیکی کے تمام امور فی سبیل اللہ ہی تصور ہوتے ہیں تاہم ان سب میں جہاد کا مرتبہ بلند ترین ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عام نیکی کا معیار یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں خلوص نیت کے ساتھ ایک پیسہ خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دس گنا اجر عطا فرماتا ہے۔ سورة انعام کے آخری رکوع میں موجود ہے۔ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا۔ جو کوئی ایک نیکی لے کر آیا اس کا بدلہ کم از کم دس گنا ہے۔ اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے۔ کہ جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے کا ثواب کم از کم سات سو گنا ہے۔ اس کے بعد۔ واللہ یضاعف لمن یشاء۔ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا دگنا کرے گا۔ یہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہوگا۔ ایک دوسری صحیح حدیث میں نماز کے متعلق فرمایا کہ یہ۔ عماد الدین۔ یعنی دین کا ستون ہے اور جہاد کے متعلق فرمایا کہ اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ دین ، اہل دین اور ملت کو جہاد کی وجہ سے عزت نصیب ہوتی ہے۔ جہاد کریں گے تو کامیابی ہوگی ، غلبہ حاصل ہوگا۔ اور جہاد ترک کردیں گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ دوسروں کے محکوم ہوجائیں گے۔ مذہب ، ملت اور خود بھی ادبار کا شکار ہوجائیں گے۔ شہدا کی زندگی : اس سے پہلے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات۔ یعنی اللہ کے راستے میں جان دینے والوں کو مردہ مت کہو۔ ان کو تو حقیقی حیات نصیب ہوچکی ہے جو اس دنیا کی زندگی سے لاکھوں کروڑوں درجے اعلی وارفع ہے۔ یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ مت گمان کرو۔ یہ نہ سمجھو کہ وہ بالکل ختم ہوچکے ہیں۔ بل احیاء۔ بلکہ وہ تو زندہ ہیں ان کو ایسی زندگی ملی ہے جو اس زندگی سے بہت فائق ہے اور وہ زندگی ہے کہاں ، فرمایا عند ربھم۔ اپنے پروردگار کے پاس سورة بقرہ میں شہداء کی زندگی کے متعلق فرمایا۔ ولکن لا تشعرون۔ تم کو اس زندگی کا شعور نہیں ہے۔ شہداء جس جہاں اور جس مقام پر موجود ہیں ، وہ چیز تمہاری عقل میں نہیں آسکتی اور نہ ہی تمہاری نگاہ اسے دیکھ سکتی ہے۔ وہ دوسرا جہان ہے۔ جہاں کے احکامات مختلف ہیں۔ تمہیں اس کا شعور حاصل نہیں ہے۔ اس مقام پر فرمایا ، وہ اپنے پروردگار کے ہاں زندہ ہیں۔ اور۔ یرزقون۔ ان کو روزی دی جارہی ہے۔ یہ شہداء کی خصوصیت ہے کہ مرنے کے بعد وہ عالیشان مقام اور نعمتوں میں رہتے ہیں۔ جس قسم کی ان کی خواہش ہوتی ہے اسی قسم کی ان کو روزی دی جاتی ہے۔ گویا شہداء کو فی الوقت باعزت روزی مل رہی ہے۔ شہداء کے مناقب : شہداء کے فضائل کے متعلق حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شہید کا پہلا قطرہ خون زمین پر گرتے ہی اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ البتہ حقوق العباد اور دین (قرض) پھر بھی اس کے ذمہ واجب الادا رہتے ہیں۔ کسی کا حق تلف کیا ہے۔ قرض لے کر واپس نہیں کیا ، تو جب تک صاحب حق معاف نہیں کرے گا۔ اس سے خلاصی نہیں ہوگی۔ موطا امام مالک کی روایت میں آتا ہے کہ شہداء کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جسموں میں سوار ہو کر۔ یسرح فی الجنۃ حیث یشاء۔ جہاں چاہتے ہیں سیر و تفریح کرتے ہیں ، کھاتے پیتے ہیں اور پھر ان قندیلوں کی طرف آجاتے ہیں جو عرش الہی کے ساتھ لٹک رہی ہیں۔ روایات میں آیا ہے۔ کہ جنت لافردوس جنت کا سب سے اعلی درجہ ہے اور عرش الہی اس کے اوپر ہے۔ جس کے ساتھ قندیلیں ہیں جن میں شہداء بسیرا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا اعلی مقام عطا کیا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) اپنے وقت کے فقیہ ، مھدث اور نہایت صالح آدمی تھے۔ ساری عمر علم اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزاری۔ آپ شاہ ولی اللہ کے شاگرد ہیں۔ شاہ عبدالعزیز (رح) نے آپ کے متعلق فرمایا۔ کہ آپ وقت کے بیہقی ہیں۔ امام بیہقی چوتھی صدی میں گزرے ہیں۔ آپ امام شافعی کے مقلد تھے۔ آپ نے حدیث کی بہت کتابیں جمع کی ہیں ، جن میں سنن کبریٰ آپ کی بڑی مشہور کتاب ہے۔ قاضی ثناء اللہ کے پیر مظہر جان جانان تھے جو عالمگیر کے خالہ زاد بھائی تھے۔ شاہ ولی اللہ کے ہمعصر تھے شاہ صاحب نے ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ انہوں نے بھی شاہ صاحب کے متعلق بڑے تعریفی کلمات کہے ہیں۔ آپ بڑے کامل درجے کے مرد مومن تھے۔ آپ رفض کے بڑے خلاف تھے۔ اس لیے رافضیوں نے آپ کو گولی مار کر شہید کردیا تھا۔ اس زمانے میں رافضیوں کا بڑا دور دورا تھا۔ دسویں صدی ہجری کے بعد جب صفویں خاندان ایران میں آیا ، اس وقت سے اس لعنت کو بڑا عروج حاصل ہوا ، اب رفض کے ساتھ ساتھ خارجیت بھی پھیل رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے ہی حالات ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا فتنہ کھڑا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان فتنوں سے محفوظ رکھے۔ اب تو عقیدے کی حفاظت بڑا مشکل کام ہوگیا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ فارسی زبان میں آپ کی کتاب۔ مالابدمنہ۔ درس نظامی میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ فقہ کی مستند کتاب مانی جاتی ہے۔ آپ کی سب سے زیادہ معروف تالیف تفسیر مظہری ہے۔ جو آپ نے اپنے پیرومرشد مرزا مظہر جانجاناں کی طرف منسوب کی۔ قاضی صاحب نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ میرے مرشد نے فرمایا کہ میں کشفی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں کہ شہداء پر اللہ کی ذاتی تجلیات پڑ رہی ہیں۔ انہیں یہ انعام اس لیے حاصل ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی۔ یہ عنایت صرف شہداء تک ہی محدود ہے۔ کیونکہ مقربین فرشتوں پر بھی خداوند تعالیٰ کی ذاتی تجلیات نہیں پڑتیں۔ ان پر صفاتی تجلیات ہی پڑتی ہیں۔ ذاتی تجلیات صرف انسانوں کے لیے خاص ہیں۔ شہیدوں کے بعد صدیقوں کا درجہ ان سے بھی بلند ہے۔ اور پھر انبیاء کا درجہ سب سے اعلی وارفع ہے۔ بہرحال قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ ان کے مرشد نے بیان کیا کہ میں کشفی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں کہ شہداء پر اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات پڑ رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ شہداء کی زندگی عام مومنین کی نسبت بہت اعلی درجے کی زندگی ہے۔ برزخ کی زندگی : جہاں تک برزخی زندگی کا تعلق ہے ، وہاں تو ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں زندہ ہوتا ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) ، صدیقین اور شہداء کا درجہ تو بلند ہے ، عام مومنین کو بھی برزخ میں زندگی حاصل ہوتی ہے ، جس میں انہیں راحت کا احساس بھی ہوتا ہے اسی طرح کافروں اور منافقوں کی ارواح بھی برزخ میں زندہ ہوتی ہیں جبھی تو انہیں عذاب کا احساس ہوتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ انہیں مردہ گمان نہ کرو۔ بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں اور وہاں انہیں روزی دی جاتی ہے۔ صرف معتزلہ فرقہ ایسا ہے جو برز کی زندگی کا قائل نہیں ، ان کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے بعد بس آخرت کی زندگی ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ شہداء کو اس زندگی کے منقطع ہونے کے فوراً بعد برزخ کی زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔ جہاں انہیں روزی ملتی ہے اور دیگر خوشیاں بھی حاصل ہوتی ہیں ، تاہم اہل ایمان کو حقیقی انعامات حشر کے بعد حاصل ہوں گے برزخ میں اس کا کچھ نمونہ حاصل ہوتا ہے۔ وہاں جو کچھ بھی انہیں حاصل ہوتا ہے۔ اس کے متعلق فرمایا۔ فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ۔ اللہ نے جو کچھ انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے۔ اس پر خوش ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات پر وہ خوش ہو رہے ہیں۔ پچھلوں کے متعلق بشارت : آگے اللہ تعالیٰ نے دو بشارتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جو شہداء کو عالم برزخ میں حاصل ہوتی ہیں۔ پہلی بشارت کے متعلق فرمایا۔ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم۔ وہ بشارت حاصل کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے میں جو ان سے نہیں ملے۔ یعنی شہداء کے عزیز و اقارب ، رشتہ دار ، احباب وغیرہ جو ایماندار ہیں اور ابھی تک دنیوی زندگی بسر کر رہے ہیں ، ان کے متعلق انہیں یہ خوشخبری ملتی ہے۔ الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ کہ ان پر بھی خوف نہیں ہوگا اور وہ بھی غمگین نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں خوشخبری دی جاتی ہے کہ تمہارے فلاں فلاں اعزہ و اقارب بھی تمہاری طرح دنیا میں نیکی کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اور اسی صراط مستقیم پر چلتے ہوئے وہ بھی تمہاری طرح راحت کے مقام میں پہنچیں گے۔ چناچہ یہ خوشخبری شہداء کے لیے مزید خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ فرمایا دوسری بشارت یہ ہے۔ یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت اور احسان حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ان کے شامل حال ہے۔ قیامت کے بعد تو سب لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا مگر شہداء کو یہ نعمتیں فی الوقت مل رہی ہیں۔ اور اب انہیں یہ یقین حاصل ہوگیا ہے۔ وان اللہ لایضیع اجر المومنین۔ بیشک اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اہل ایمان اپنے اور اچھے عقیدے کے ساتھ جو نیک عمل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کا ضرور بدلہ دے گا۔ یہ تو عام مومنین کے متعلق ہے مگر شہداء کو تو نہایت اعلی مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی عزیز ترین متاع اللہ کی راہ میں قربان کردی ، اللہ کے دین کے قیام کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی ، لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کو بہترین اجر عطا فرمایا۔۔ شہداء کا غسل اور جنازہ : حدیث شریف میں آتا ہے کہ کافروں کے ہاتھوں شہادت پانے والے شہیدوں کو غسل دینے کا حکم نہیں ہے۔ ان کو اسی طرح خون میں لت پت قبر میں اتار دیا جائے۔ شہدائے احد کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا ان کے ہتھیار زرہ وغیرہ زائد لباس میں آتے ہیں یہ ان کے جسم سے اتار دو اور ان کے اصل لباس کرتہ ، قمیض ، تہبند پاجامہ وغیرہ سمیت دفن کردو۔ فرمایا شہداء کا خون قیامت کے دن دوبارہ تروتازہ ہوجائے گا۔ جس سے کستوری جیسی خوشبو آئے گی اور یہ ایسی حالت میں خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ البتہ فقہائے کرام ، محدثین ، مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ اگر کوئی شخص جنابت کی حالت میں شہید ہوجائے تو اس کے غسل کے مسئلہ میں اختلاف رائے ہے۔ امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں۔ کہ ایسی حالت میں بھی شہید کو غسل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ جنبی شہید کے لیے غسل ضروری ہے۔ دلیل کے طور پر فرماتے ہیں۔ کہ حضرت حنظلہ ؓ جنابت کی حالت میں شہید ہوئے تھے ، انہوں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کی جنگ زوروں پر تھی۔ انہیں غسل کا موقع نہ ملا۔ اسی حالت میں میدانِ جنگ میں کود گئے اور شہید ہوگئے۔ حضور ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا۔ کہ میں نے دیکھا ہے کہ فرشتے بارش کے پاکیزہ پانی سے چاندی کے برتن میں زمین و آسمان کے درمیان حضرت حنظلہ کو غسل دے رہے تھے ، لہذا ثابت ہوا کہ جنبی شہید کا غسل ضروری ہے۔ شہداء کا جنازہ پڑھنے کے متعلق امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ان کا جنازہ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی مغفرت تو ہوچکی ہے۔ تاہم امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام احمد کی رائے ہے کہ جنازہ پڑھا جائے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جنازہ صرف گناہوں کی معافی کے لیے ہی نہیں بلکہ درجات کی بلندی کے لیے بھی پڑھا جاتا ہے۔ شہداء کا جنازہ پڑھنے کا مقصد یہ ہوگا۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ شہداء بیر معونہ : بیر معونہ کے مقام پر ستر صحابہ کرام جو قراء ، فضلا اور منتخب بزرگوار تھے ، شہید کردیے گئے۔ یہ کفار کی سازش تھی۔ ابربراء عامر نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہ ملک نجد میں تعلیم اسلام کے لیے مبلغین کی ضرورت ہے۔ چناچہ آپ نے ستر صحابہ کرام ان کے ساتھ بھیج دیے۔ جب یہ قافلہ بیر معونہ کے مقام پر پہنچا ، تو انہیں دھوکے سے شہید کردیا گیا۔ ان شہداء اور شہدائے احد کے متعلق بخاری شریف میں روایت ہے کہ انہوں نے عالم برزخ میں اپنی اچھی حالت اور اللہ کی طرف سے انعام و اکرام کے متعلق تمنا کی تھی کہ ان کی اس حالت کا علم دنیا میں رہنے والے ان کے بھائیوں کو ہوجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میں تمہاری حالت کو تمہارے بھائیوں تک پہنچاتا ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان سے وحی نازل فرمائی۔ بلغوا عنا قومنا انا لقینا ربنا فرضی عنا ورضینا عنہ۔ ہماری قوم تک یہ بات پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے ملے ہیں۔ وہ ہم سے راضی ہوگیا اور ہم اس سے راضی ہوگئے ہیں یہ قرآن پاک کی آیت تھی جو کافی عرصہ پڑھی جاتی رہی ، بعد میں منسوخ ہوگئی۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر شہداء کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور خوشخبری سنائی ہے کہ وہ مومنوں کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ان کا بہتر اجر عطا کرتا ہے۔
Top