Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں
[وَلاَ تَحْسَبَنَّ : اور تو ہرگز گمان مت کر ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو ] [قُتِلُوْا : قتل کیے گئے ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [اَمْوَاتًا : مردہ ] [بَلْ : بلکہ ] [اَحْیَــآئٌ : (وہ) زندہ ہیں ] [عِنْدَ رَبِّہِمْ : اپنے رب کے پاس یُرْزَقُوْنَ : ان لوگوں کو رزق دیا جاتا ہے ] نوٹ : آیت 169 میں شہداء کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ جبکہ بظاہر ان کا مرنا اور قبر میں دفن ہونا مشاہد اور محسوس ہے۔ پھر قرآن مجید میں ان کو مردہ نہ کہنے اور نہ سمجھنے کی جو ہدایات آئی ہیں ان کا کیا مطلب ہے۔ اگر کہا جائے کہ حیات برزخی مراد ہے ‘ تو وہ ہر مومن و کافر کو حاصل ہے۔ پھر شہداء کی کیا خصوصیت ہوئی ؟ اس آیت میں اس کا یہ جواب دیا گیا کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے اور رزق زندہ آدمی کو ملا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے منتقل ہوتے ہی شہداء کے لیے جنت کا رزق جاری ہوجاتا ہے اور ایک خاص قسم کی زندگی ان کو مل جاتی ہے جو عام مردوں ُ سے ممتاز حیثیت کی ہے۔ وہ زندگی کیسی ہے ؟ اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی جاننے کی ضرورت ہے۔ (معارف القرآن)
Top