Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور ہرگز گمان نہ کرو ان لوگوں کے بارے میں جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے کہ وہ مردہ ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔
(1) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت حضرت حمزہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی (آیت یہ ہے) ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون “۔ (2) سعید بن منصور وعبد بن حمید ابن ابی حاتم نے ابو الضحی (رح) سے اس آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “ کے بارے میں سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت احد کے مقتولین کے بارے میں نازل ہوئی ان میں سے ستر آدمی شہید ہوئے چار مہاجرین میں حمزہ بن عبد المطلب ؓ بنو ہاشم میں سے مصعب بن عمیر ؓ بنو عبد الدار میں سے عثمان بن شماس بنو مخزوم میں سے اور عبد اللہ بن حبش بنو اسد میں سے اور باقی سارے انصار میں سے تھے۔ شہداء کی روحیں (3) احمد وھنا وعبد بن حمید ابو ادؤد وابن جریر وابن المنذر اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے بھائیوں کو احد میں شہادت پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں کردیا جو جنت کی نہروں پر آتی ہیں اور اس کے پھلوں میں سے کھاتی ہیں اور سونے کے قندیلوں میں آرام کرتی ہیں جو عرش کے سایہ میں لٹکے ہوئے ہیں جب انہوں نے اپنے عمدہ کھانے پینے کو اور اپنے رہنے کی عمدہ جگہوں کو پایا تو کہنے لگے کاش ہمارے بھائی بھی جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا ہے اور دوسرے الفاظ میں یوں کہتے ہیں ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہم کو رزق دیا جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جہاد سے گریز کریں اور لڑائی سے پیچھے ہٹ جائیں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا۔۔ “ اور اس کے بعد تک۔ (4) ترمذی نے اس کو حسن کہا وابن ماجہ وابن ابی عاصم نے السنہ میں وابن خزیمہ والطبرانی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ ملے اور فرمایا اے جابر ! کیا بات ہے میں تجھ کو رنجیدہ دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے والد شہید ہوگئے اور عیال اور قرضہ چھوڑ گئے آپ نے فرمایا کیا میں تجھ کو خوشخبری نہ دوں اس بات کی کہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو عطا فرمایا میں نے عرض کیا ضرور بتائیے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی سے کلام نہیں فرمایا مگر پردے کے پیچھے سے اور تیرے والد کو زندہ فرما کر اس سے بالمشافہ بات کی کوئی پردہ حائل نہیں رہا) اور فرمایا اے میرے بندے تو مجھ پر اپنی خواہش پیش کر میں تجھ کو عطا کروں گا تو انہوں نے عرض کیا اے میرے رب مجھ کو زندہ فرما دیجئے میں تیرے راستے میں دوبارہ قتل کیا جاؤں رب تعالیٰ نے فرمایا پہلے ہی سے یہ بات طے ہوچکی ہے کہ میں ان کو واپس (دنیا میں) نہیں لوٹاؤں گا پھر انہوں نے عرض کیا اے میرے رب ! میری یہ بات میرے پیچھے بھائیوں تک پہنچا دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “ کو نازل فرمایا۔ (5) الحاکم نے حضرت عائش ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے فرمایا کیا تو جانتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو زندہ فرما کر اس کو اپنے سامنے بٹھا دیا اور فرمایا تمنا کر مجھ سے جو تو چاہے میں تجھ کو وہ عطا کروں گا انہوں نے عرض کیا اے میرے رب میں تیری عبادت کا حق ادا نہیں کرسکا میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ آپ مجھے دنیا کی طرف لوٹا دیجئے اور میں تیرے لیے نبی ﷺ کے ساتھ دوسری مرتبہ شہید ہوجاؤں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے کہ بلاشبہ تو دنیا کی طرف نہیں لوٹے گا۔ (6) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے کہا کاش کہ ہم جان لیتے کہ ہمارے بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا جو احد کے دن شہید کر دئیے گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا “۔۔ نازل فرمائی۔ (7) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان کے بعض علماء کی طرف سے ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا “ بدر اور احد کے مقتولین کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے گمان کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کی روحوں کو قبض فرمایا تو ان کو جنت میں داخل فرمایا اور ان کی روحوں کو سبز پرندوں پر رکھ دیا جو جنت میں چلتی پھرتی ہیں اور سونے کی قندیلوں میں آرام کرتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہے ہیں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انعام واکرام کو دیکھا تو کہنے لگے کاش ہمارے وہ بھائی جو ہمارے بعد آئیں گے لڑائی میں جو جلدی کریں گے ان نعمتوں کی طرف جن میں ہم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک میں حکم نازل کرنے والا ہوں تمہارے نبی پر اور خبر دینے والا ہوں تمہارے بھائیوں کو اور تمہارے نبی کو ان نعمتوں کی جن میں تم اب رہ رہے ہو پس تم خوش ہوجاؤ اور خوشخبری سن لو اور انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی ہے تمہارے بھائیوں کو اور تمہارے نبی کو ان نعمتون کی جن میں تم ہو جب وہ کسی جنگ میں حاضر ہوں گے تو تمہارے پاس چلے جائیں گے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ” فرحین “ کا یہی مطلب ہے۔ (8) ابن جریر وابن المنذر نے محمد بن قیس مخرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ شہداء نے کہا اے ہمارے رب ! کیا ہمارا قاصد نہیں جو نبی ﷺ کو اس بات کی خبر دے دے جو آپ نے ہم کو عطا فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہارا قاصد ہوں اور جبرئیل علیہ والسلام کو حکم فرمایا کہ یہ آیت کو لے جاؤ لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “ (الآیہ) ۔ (9) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگ احد کے دن شہید ہوئے تو انہوں نے اپنے رب سے ملاقات کی تو رب تعالیٰ نے ان کا اکرام فرمایا اور ان کو زندگی ملی اور شہادت (کا رتبہ) ملا اور پاکیزہ رزق ملا تو انہوں نے کہا کاش ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان کوئی پیغام پہنچانے والا ہوتا کہ ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی اور وہ ہم سے راضی ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہارا پیغمبر ہوں تمہارے نبی کی طرف اور تمہارے بھائیوں کی طرف تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا “ سے لے کر ” ولا یحزنون “۔ اصحاب بیر معونہ کا واقعہ (10) ابن جریر وابن المنذر نے اسحاق بن ابی طلحہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے نبی ﷺ کے اصحاب کی موجودگی میں بیان فرمایا جن کو نبی ﷺ نے بیر معونہ کی طرف بھیجا تھا انہوں نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ چالیس تھے یا ستر تھے اس چشمہ پر رہنے والوں کا سردار عامر بن طفیل تھا یہ لوگ نکلے یہاں تک کہ پانی کے اوپر ایک غار پر آئے اور اس میں بیٹھ گئے پھر ان میں سے بعض لوگوں نے بعض سے کہا تم میں سے کون یہاں رہنے والوں کو رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچائے گا ابو ملحان انصاری نے کہا میں پہنچاؤں گا وہ نکلے اور ان کے گرے ہوئے گھر تک پہنچے اور اپنے آپ کو گھروں کے درمیان چھپالیا پھر (ان سے) فرمایا اے بیئر معونہ والو ! میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں تمہاری طرف میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تم بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ ایک آدمی گھر کی جانب سے نیزہ لے کر نکلا اور اس کے پہلو میں مار دیا یہاں تک کہ وہ نیزہ دوسری جانب نکل گیا اس صحابی نے کہا اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا یہ لوگ بیئر معونہ والے اس کے قدموں کے نشان پر چلے یہاں تک کہ غار میں اس کے ساتھیوں کے پاس آگئے اور ان سب کو عامر بن طفیل نے قتل کردیا اپنے ساتھیوں کی مدد سے انس ؓ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قرآن اتارا کہ وہ ہماری طرف سے اپنی قوم کو پہنچا دیں کہ تحقیق ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہوئے پھر یہ آیت منسوخ کردی گئی اور اس کو اٹھا لیا گیا بعد اس کے ہم اسے کافی عرصہ تک پڑھتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء “۔ (11) ابن المنذر نے طلحہ بن نافع کے طریق سے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت حمزہ اور آپ کے صحابہ ؓ احد کے دن شہید کر دئیے گئے تو انہوں نے کہا کاش کہ ہمارے لیے کوئی خبر دینے والا ہوتا جو ہمارے بھائیوں کو خبر دیتا اس عزت اور اکرام کی جو ہم کو ملا تو ان کی طرف ان کے رب نے وحی بھیجی میں تمہارا قاصد ہوں تمہارے بھائیوں کی طرف اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتار دیں لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا “ سے لے کر ” وان اللہ لا یضیع اجر المؤمنین “ تک۔ (12) ابن ابی شیبہ و طبرانی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت حمزہ اور آپ کے صحابہ احد کے دن شہید کر دئیے گئے تو انہوں نے کہا کاش ! جو لوگ ہمارے پیچھے ہیں وہ اس بات کو جان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو ثواب عطا فرمایا ہے تاکہ وہ اس کے لیے تیار ہوجائیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ان کو بتادیتا ہوں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” ولا تحسبن الذین قتلوا “۔ (13) عبد الرزاق نے مصنف میں وفریابی و سعید بن منصور وھنا دو عبد بن حمید ومسلم و ترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و طبرانی و بیہقی نے دلائل میں مسروق (رح) سے بیان کیا کہ ہم نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تھا (پھر فرمایا) ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں اور عبد الرزاق کے الفاظ یہ ہیں شہدا کی روحیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سبز پرندوں کی طرح ہوتی ہیں ان کے لیے قندیلیں ہیں عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر وہ ان قندیلوں کی طرف ٹھکانہ پکڑتے ہیں پھر ان کا رب ان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم کوئی اور چیز چاہتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا ہم کونسی چیز چاہیں اور ہم جنت میں سے ہر چیز کھاتے پھرتے ہیں تو اس طرح ان سے تین مرتبہ سوال کیا گیا جب انہوں نے دیکھا کہ وہ سوال کرنے سے نہیں چھٹیں گے تو انہوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم یہ چاہتے کہ آپ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستے میں پھر قتل کر دئیے جائیں ایک اور مرتبہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ان کو کوئی چیز ضرورت نہیں تو ان کو چھوڑ دیا ( یعنی سوال) نہیں کیا۔ (14) عبد الرزاق نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیسری مرتبہ جب ان سے فرمایا یعنی شہداء سے کیا تم کوئی چیز چاہتے ہو تو انہوں نے کہا ہمارے نبی ﷺ کو سلام پہنچا دیجئے اور ان کو یہ بات بھی پہنچا دیجئے کہ بیشک ہم راضی ہوگئے اللہ سے اور وہ راضی ہوگئے ہم سے۔ (15) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” بل احیاء عند ربہم یرزقون “ سے مراد ہے کہ ان کو رزق دیا جاتا ہے جنت کے پھلوں میں سے اور وہ پاتے ہیں اس میں کوئی خوشبو کو اگرچہ وہ جنت میں نہیں ہوتے۔ (16) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ہم آپس میں یہ گفتگو کرتے تھے کہ شہداء کی روحیں ایک دوسرے کو پہنچانتی ہیں کہ سفید پرندوں کی صورت میں اور وہ کھاتے ہیں جنت کے پھلوں میں سے اور ان کا ٹھکانہ سدرۃ المنتہیٰ ہے اور مجاہد اللہ کے راستے میں تین طرح کے ہیں جو شخص اللہ کے راستے میں قتل کیا گیا ان میں سے وہ زندہ ہوگا اور رزق دیا جائے گا اور جس نے غلبہ پایا یعنی دشمنوں پر اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا اور وہ شخص جو مرگیا اللہ اس کو بہترین رزق عطا فرمائیں گے۔ (17) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” بل احیاء “ سے مراد ہے سبز پرندے کی صورت میں وہ اڑتے پھرتے ہیں جنت میں جہاں وہ چاہتے ہیں اور وہ اس میں سے کھاتے ہیں جہاں سے وہ چاہتے ہیں۔ (18) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ شہدا کی روحیں سفید پرندے کی صورت میں ہوتی ہیں جنت میں۔ (19) ابن جریر نے افریقی کے طریق سے ابن بشار اسلمی یا ابو بشار اسلمی (رح) سے روایت کیا ہے کہ شہداء کی روحیں سفید قبہ میں ہیں جنت کے قبوں میں سے ہر قبہ میں دو بیویاں ہوں گی ان کا رزق ہر دن ایک بیل اور ایک مچھلی ہوگی لیکن بیل ایسا ہوگا کہ اس میں جنت کے ہر پھل کا ذائقہ ہوگا اور مچھلی اس میں جنت کی ہر پینے والی چیز کا ذائقہ ہوگا۔ روحیں سبز پرندوں کے پیوٹوں میں (20) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوں گی جو سونے کے ایسے قندیلوں میں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ جنت سے کھاتے پھرتے رہیں گے صبح کو اور شام کو اور قندیلوں میں رات گذاریں گے۔ (21) عبد الرزاق و سعید بن منصور ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ شہدا کی روحیں گشت کرتی ہیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں جو جنت کے پھلوں میں پھرتے رہتے ہیں۔ (22) ھناد بن السری نے کتاب الزھد میں اور ابن ابی حاتم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بلا شبہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہوتی ہیں جو جنت کے باغوں میں چرتی پھرتی ہیں پھر ان کا ٹھکانہ ہوتا ہے قندیلوں کی طرف جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوتی ہیں رب تعالیٰ فرماتے ہیں کیا تم ایسا شرف جانتے ہو جو اس شرف سے بڑھ کر ہو جو میں نے تم کو عطا کیا تو وہ کہیں گے نہیں یعنی ہم نے نہیں جانا مگر ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ آپ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم قتال کریں یعنی دشمنوں سے لڑیں اور ہم ایک مرتبہ پھر تیرے راستہ میں قتل کر دئیے جائیں۔ (23) ھناد نے الزھد میں اور ابن ابی شیبہ نے المصنف میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ شہدا قبوں میں ہوں گے جو جنت کے باغوں میں سے کھلے میدان میں ہوں گے ان کی طرف بھیجئے جائیں گے بیل اور مچھلی وہ دونوں چرتے ہیں اور جنتی ان سے کھیلتے رہتے ہیں جب وہ کسی چیز کی طرف محتاج ہوں گے یعنی وہ کسی چیز کی ضرورت محسوس کریں گے ان میں سے ایک دوسرے کو ذبح کر دے گا وہ اس میں سے کھائیں گے اور اس میں جنت کی ہر چیز کا ذائقہ پائیں گے۔ (24) احمد وابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر ابن ابی حاتم وابن المنذر و طبرانی وابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے البعث میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شہداء جنت کے دروازے پر چمکنے والی نہر پر ہوں گے سبز قبہ میں نکلے گا ان کی طرف ان کا رزق جنت میں سے صبح کو اور شام کو۔ (25) ھناد نے الزھد میں ابن اسحاق کے طریق سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابو فروہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو بعض اہل علم نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے شہداء تین قسم پر ہیں ادنیٰ شہداء اللہ کے نزدیک مرتبے کے لحاظ سے وہ آدمی ہے جسے اپنی جان اور اپنے مال سے محبت ہے کہ وہ قتل کرنے اور نہ ہی قتل ہوجانے کا ارادہ کرتا ہے آتا ہے اس کے پاس ایک اجنبی تیر جو اسے لگ جاتا ہے (اور وہ شہید ہوجاتا ہے تو) پہلا قطرہ جو گرتا ہے اس کے خون میں سے تو اس کے ساتھ اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں پھر نیچے اتارتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک جسم کو آسمان سے جس میں اس کے روح کو رکھ دیا جاتا ہے پھر اس کو اٹھالیا جاتا ہے اللہ کی طرف جب وہ گزرتا ہے آسمان کے پاس سے آسمانوں میں سے اس کو فرشتے الوداع کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ کی طرف پہنچ جاتا ہے جب وہ پہنچ جاتا ہے تو سجدہ میں گرپڑتا ہے پھر حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو ستر جوڑے ریشم میں سے پہنا دئیے جاتے ہیں پھر اس سے کہا جاتا ہے چلے جاؤ تم اپنے شہید بھائیوں کی طرف پھر اس کو ان کے ساتھ کردیا جاتا ہے وہ ان کی طرف لایا جاتا ہے وہ سبز قبہ میں ہوتے ہیں جنت کے دروازے کے پاس لایا جاتا ہے ان پر ان کا کھانا جنت میں سے۔ (26) ابن جریر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کا بیٹا برابر حمد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ زندہ ہوجاتا ہے مرتا نہیں پھر یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” بل احیاء عند ربہم یرزقون “۔ (27) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فرحین بما اتہم اللہ من فضلہ “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ جو ان کو خیر و کرامت اور رزق عطا فرماتا ہے اپنے فضل سے وہ اس سے خوش ہیں۔ (28) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم “ جب لوگ داخل ہوئے جنت میں اور انہوں نے اس میں شہداء کے لیے عزت اور اکرام کو دیکھا تو وہ کہنے لگے کاش کہ ہمارے بھائی جو دنیا میں ہیں وہ جانتے کہ ہم جنت میں کس شرف اور فضیلت میں ہیں جب وہ کسی جنگ میں شریک ہوں تو خود حصہ لیں یہاں تک کہ وہ شہید ہوجائیں اور وہ پالیں جو ہم نے پایا چیز میں سے یعنی جنت کے انعامات میں سے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ اور شرف کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دے دی ان کو اس بات کی خوشخبری دے دی گئی اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ویستبشترون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم “ یعنی ان کے بھائیوں میں اہل دنیا میں سے بیشک وہ عنقریب حرص کریں گے جہاد پر اور ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ (29) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم “ سے مراد ہے شہید کے پاس ایک کتاب لائی جاتی ہے جس میں اس کے بھائیوں میں سے اور اس کے اہل و عیال میں کون ہے جب وہ اس کے پاس آتے ہیں جیسا کہ دنیا میں غائب ہونے والا آئے تو خوش ہوتے ہیں۔
Top