Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
آیت نمبر 169۔ 170 اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) جب اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ جو کچھ احد کے دن ہوا وہ امتحان تھا جو منافقین کو صادق (سچ بولنے والے) سے ممتاز اور الگ کرتا ہے تو پھر اس نے یہ بیان فرمایا کہ جو شکست خوردہ نہیں ہوئے اور شہید کردیئے گئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ معزز اور زندہ ہیں، اور یہ آیت شہداء احد کے بارے میں ہے اور یہ قول بھی ہے کہ یہ بئر معونہ کے شہداء کے بارے نازل ہوئی ہے (1) (زاد المسیر، جلد 1۔ 2 صفحہ 399، ایضا صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث نمبر 3781، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ یہ تمام شہداء کے بارے میں عام ہے، اور مصنف ابی داؤد میں اسناد صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب میدان احد میں تمہارے بھائی شہید کئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں رکھ دیا جو جنت کی نہروں پر آتے ہیں ان کے پھلوں میں سے کھاتے ہیں اور سونے کی ان قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے سائے میں معلق ہیں پس جب انہوں نے اپناکھانا، پینا اور آرام کی جگہ کو اچھا پایا تو انہوں نے کہا کون ہماری جانب سے ہمارے بھائیوں کو یہ پیغام پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہم رزق دیئے جارہے ہیں تاکہ وہ جہاد سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اور نہ وہ جنگ کے وقت بزدل بنیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری جانب سے انہیں یہ پیغام پہنچادوں گا۔ “ آپ نے فرمایا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 341، ایضا ابی داؤد، حدیث نمبر 2158، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الی اخر الآیات۔ اور بقی بن مخلد نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ مجھے ملے اور فرمایا : ” اے جابر ! کیا ہے مجھے کہ میں تجھے ٹیڑھا ہونے والا اور مغموم دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میرے والد محترم شہید کردیئے گئے اور انہوں نے پیچھے اہل و عیال بھی چھوڑے اور ان پر قرض بھی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا میں تجھے اس (حالت) کے بارے بشارت نہ دوں جس میں اللہ عزوجل نے تیرے باپ سے ملاقات کی ہے ؟ “ میں نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ﷺ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان اللہ احیا اباک وکلمہ کفاھا وما کلم احد قط الامن وراء حجاب فقال لہ یاعبدی تمن اعطک قال یا رب فردنی الی الدنیا فاقتل فیک ثانیۃ فقال الرب تبارک وتعالیٰ انہ قد سبق منی انھم (الیھا) لا یرجعون قال یا رب فابلغ من ورائی (اللہ تعالیٰ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اسے بلاحجاب شرف کلام عطا فرمایا اور کسی نے بھی کبھی بلاحجاب کلام نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا اے میرے بندے ! تو اپنی آرزو اور تمنا پیش کر میں تجھے وہ عطا کروں گا تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار ! تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا یہ تو پہلے ہوچکا ہے۔ بلاشبہ وہ اس کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار ! تو ان تک یہ خبر پہنچا دے جو میرے پیچھے ہیں) چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ “۔ الآیہ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 206، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 185، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اور ترمذی نے جامع میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور وکیع نے سالم بن افطس سے اور انہوں نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے : (آیت) ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا، بل احیآء “۔ فرمایا : جب حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اور حضرت مصعب بن عمیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شہید ہوئے اور انہوں نے وہ دیکھا جو خیر میں سے انہوں عطا کیا گیا تو انہوں نے کہا : کاش ہمارے بھائی اس خیر (اور انعام) کو جانتے جو ہمیں پہنچا ہے تاکہ جہاد میں ان کی رغبت (اور شوق) بڑھ جاتا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تمہاری طرف سے ان تک اسے پہنچا دوں گا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا، بل احیآء عند ربھم یرزقون، فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون، یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل وان اللہ لا یضیع اجر المؤمنین “۔ اور ابو الضحی نے کہا ہے : یہ آیت خاص (2) (زاد المسیر جلد 1۔ 2، صفحہ 399، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اہل احد کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پہلی حدیث اس قول کے صحیح ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : یہ شہداء بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ چودہ افراد تھے آٹھ انصار میں سے تھے اور چھ مہاجرین میں سے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بئر معونہ کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی ہے (3) (زاد المسیر جلد 1۔ 2، صفحہ 399، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اور انکا قصہ مشہور ہے اسے محمد بن اسحاق وغیرہ نے ذکر کیا ہے اور دوسروں نے کہا ہے : بیشک شہداء کے اولیاء (ورثائ) کو جب خیروبرکت اور فرحت و سرور حاصل ہوتا تو وہ افسوس کرتے اور کہتے : ہم تو نعمتوں اور خوشیوں میں ہیں اور ہمارے باپ، ہمارے بیٹے اور ہمارے بھائی قبروں میں ہیں۔ (4) (زاد المسیر جلد 1۔ 2، صفحہ 399، دارالکتب العلمیۃ بیروت) تو اللہ تعالیٰ نے ان سے غم اور کرب کو دور کرنے کے لئے اور انہیں اپنے شہداء کے حال کی خبر دینے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : المختصر اگرچہ یہ احتمال ہے کہ نزول مجموعی سبب کے ساتھ ہو اللہ تعالیٰ نے اس میں شہداء کے بارے خبر دی ہے کہ وہ زندہ ہیں جنت میں رزق دیئے جاتے ہیں اور لامحالہ وہ مر چکے ہیں اور ان کے اجسام مٹی میں ہیں اور ان کی ارواح زندہ ہیں جیسا کہ تمام مومنین کی ارواح اور انہیں قتل کے وقت سے جنت میں رزق دیئے جانے کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے یہاں تک کہ گویا ان کے لئے دنیوی حیات دائمی ہوگی۔ تحقیق علماء نے اس معنی میں اختلاف کیا ہے اور وہ معنی جس پر عظیم علماء ہیں وہ وہی ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے اور وہ یہ کہ شہداء کی حیات محقق اور ثابت شدہ ہے پھر ان میں سے کچھ کہتے ہیں : ارواح ان کی طرف ان کی قبروں میں لوٹائی جاتی ہیں اور وہ نعمتوں سے شاد کام ہوتے ہیں، جیسا کہ کفار کو ان کی قبروں میں زندہ کیا جاتا ہے اور انہوں عذاب دیا جاتا ہے اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : انہیں جنت کے پھلوں سے رزق دیا جاتا ہے، یعنی وہ اس کی ہوا پاتے ہیں حلان کہ وہ اس میں نہیں ہوتے۔ (1) (زاد المسیر جلد 1۔ 2، صفحہ 400، دارالکتب العلمیۃ بیروت) اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ یہ مجاز ہے اور معنی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جنت میں راحت و سکون اور نعمتوں کے مستحق ہیں، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے : مامات فلان (فلاں نہیں مرا) یعنی زندہ اسے یاد کرتا رہا۔ جیسا کہ کہا جاتا : موت التقی حیاۃ لافناء لھا قدمات قوم وھم فی الناس احیاء : متقی کی موت ایسی حیات ہے جس کے لئے فنا نہیں تحقیق قوم مر چکی ہے حالانکہ وہ لوگوں میں زندہ ہیں۔ پس معنی یہ ہے کہ انہیں اچھی تعریف کے ساتھ نوازا جاتا ہے اور دوسروں نے کہا ہے : ان کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں اور وہ جنت میں رزق دیئے جاتے ہیں اور وہ کھاتے ہیں اور انتہائی آسودہ اور عمدہ حالت میں رہتے ہیں، اقوال میں سے یہی صحیح ہے۔ کیونکہ دلیل نقلی کے مطابق جو صحیح ہے وہی واقعی ہونے والا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث اختلاف کو اٹھا رہی ہے اور اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث ہے اسے مسلم نے بیان کیا ہے اور ہم نے اس بارے میں واضح اور تفصیلی ذکر کتاب التذکرۃ باحوال الموت و امور الاخرۃ میں کیا ہے۔ والحمد للہ۔ تحقیق ہم نے وہاں ذکر کیا ہے کہ شہداء کتنے ہیں اور یہ کہ ان کا حال مختلف ہے اور رہے وہ جنہوں نے شہداء کے بارے میں یہ تاویل کی ہے کہ وہ زندہ ہیں اس معنی میں کہ وہ عنقریب زندہ کئے جائیں گے تو یہ انتہائی بعید از حقیقت ہے اور قرآن وسنت اس کا رد کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” بل احیآء “ ان کی حیات پر دلیل ہے اور یہ کہ وہ رزق دیئے جاتے ہیں اور رزق نہیں دیا جاتا مگر زندہ کو، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے لئے ہر سال میں عزوہ کا ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ ہر جہاد کے ثواب میں شریک ہوں گے جو بھی ان کے بعد یوم قیامت تک ہوگا کیونکہ وہ حکم جہاد پر عمل پیرا ہوئے (اور یہ سنت قائم کی) اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرآء یل انہ من قتل نفسا “۔ (المائدہ : 32) ترجمہ : اسی وجہ سے (حکم) لکھ دیا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جس نے قتل کیا کسی انسان کو) اس کا بیان وہاں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کیونکہ ان کی ارواح یوم قیامت تک عرش کے نیچے ارواح یوم قیامت تک عرش کے نیچے رکوع و سجود کرتی رہیں گی اور ان زندہ مومنین کی ارواح کی طرح جو وضو کی حالت پر رات گزارتے ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کیونکہ شہید قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے زمین کھا سکتی ہے، اور ہم نے اس کا ذکر بھی التذکرہ میں کیا ہے اور یہ کہ زمین انبیاء علیہم السلام، شہداء علماء نیکو کار اور مخلص موذن اور حفاظ قرآن کو نہیں کھا سکتی۔ مسئلہ نمبر : (2) جب شہید حکما زندہ ہے تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے، جیسا کہ وہ زندہ جس میں قوت حس موجود ہو (اس پر نماز نہیں پڑھی جاتی، علماء نے شہداء کے غسل اور ان پر نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، پس حضرت امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے یہ کہا ہے کہ تمام شہداء کو غسل دیا جائے اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے، سوائے اس کے جو خالصۃ دشمن کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے میدان جنگ میں قتل ہوجائے، کیونکہ حضرت جابر ؓ کی حدیث ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم انہیں ان کے خون سمیت دفن کر دو “۔ مراد احد کا دن ہے اور آپ نے انہیں غسل بھی نہ دلایا، اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 179، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 1257، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابوداؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے بارے حکم ارشاد فرمایا کہ ان سے ہتھیار اور زرہیں اتارلی جائیں اور انہیں خون اور ان کے کپڑوں سمیت دفن کردیا جائے (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 91، ایضا، ابن ماجہ کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1503، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسی کے مطابق امام احمد، اسحاق، اوزاعی، داؤد، بن علی، فقہاء، امصار کی جماعت، اہل حدیث اور ابن علیہ نے کہا ہے، اور حضرت سعید بن مسیب اور حسن نے کہا ہے : انہیں غسل دیا جائے گا، ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے : شہداء احد کو ان کی کثرت کی وجہ سے غسل نہیں دیا گیا اور (اسی زیاوہ نے) اس سے مشغول رکھا، ابو عمر (رح) نے کہا ہے : حضرت سعید (رح) اور حسن (رح) کے اس قول کے مطابق عبداللہ بن حسن عنبری نے سوا فقہاء امصار میں سے کسی نے بھی قول نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے شہداء احد کو غسل نہ دینے کی یہ علت ذکر کی ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا ولی اور وارث تھا جو اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کے معاملات کو سرانجام دے سکتا تھا، اس میں علت، واللہ، وہ ہے جو فی دمائھم والی حدیث میں ہے۔ ” کہ وہ (خون) قیامت کے دن کستوری کی خوشبو کی طرح ہوگا (3) (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 393، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 2593، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ (غسل نہ دینے کی) علت شغل نہیں ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے جس نے اس بارے میں کہا اور نہ ہی اس مسئلہ کا قیاس اور نظر وفکر میں کوئی دخل ہے، بلکہ یہ تو خالصۃ اس اثر کی اتباع اور پیروی کا مسئلہ ہے جسے تمام نے شہدا احد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہیں غسل نہیں دیا گیا۔ بعض متاخرین نے جنہوں نے حسن کا مذہب اختیار کیا ہے انہوں نے شہداء احد کے بارے میں آپ ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : انا شھید علی ھولاء یوم القیامۃ میں قیامت کے دن ان پر شہادت دوں گا) فرمایا (4) (صحیح بخاری، باب الصلوۃ علی الشہید، حدیث نمبر 1257، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ ان کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ اس میں ان کے سوا کوئی اور شریک نہ ہوگا۔ ابو عمر (رح) نے کہا ہے : یہ شذوذ سے مشابہت رکھا ہے اور ان کے غسل کو ترک کرنے کے بارے قول زیادہ اولی ہے۔ کیونکہ وہ شہداء احدا اور ان کے علاوہ دوسروں کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے۔ اور ابوداؤد نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ؛ ایک آدمی کو اس کے سینہ یا اس کے حلق میں تیر مارا گیا اور فوت ہوگیا تو وہ جیسے تھا اسی طرح اسے کپڑے میں لپیٹ دیا گیا، فرمایا : اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 91، ایضا ابی داؤد، حدیث نمبر 2726، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (3) رہی شہداء پر نماز جنازہ ! تو اس کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام مالک (رح)، لیث (رح)، امام شافعی (رح)، اور امام احمد اور داؤد رحمۃ اللہ علہیم اس طرف گئے ہیں کہ ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ حضرت جابر ؓ کی حدیث ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ شہداء احد میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے تھے پھر آپ فرماتے :” ان میں سے قرآن کریم زیادہ جمع کرنے والا کون ہے ؟ “ پس جب آپ ﷺ کے لئے ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں آگے رکھتے اور آپ نے فرمایا میں قیامت کے دن ان پر شہادت دوں گا۔ “ اور آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا اور انہیں غسل نہ دیا گیا اور نہ ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی، (2) (ایضا، جلد 2، صفحہ 92، صحیح بخاری، باب الصلوۃ علی شہید، حدیث نمبر 1257، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور کوفہ، بصرہ اور شام کے فقہاء نے کہا ہے : ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور انہوں نے بہت سے آثار روایت کئے ہیں ان میں سے اکثر روایات مرسل ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ اور تمام شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی۔ (3) (صحیح بخاری، باب الصلوۃ علی الشہید، حدیث نمبر 1258، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (4) علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ شہید کو جب زندہ اٹھالیا جائے اور وہ میدان جنگ میں نہ مرے اور کچھ دیر زندہ رہے اور کچھ کھائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ کیا گیا۔ اور علماء نے اس بارے اختلاف کیا ہے جسے ظلما قتل کیا گیا جیسا کہ وہ جسے خارجیوں اور ڈاکوؤں وغیرہ نے قتل کردیا ہو۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : ہر وہ جسے ظلما قتل کیا گیا اسے غسل نہ دیا جائے لیکن اس پر اور ہر شہید پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور یہی قول تمام اہل عراق کا ہے۔ اور انہوں نے بہت سے صحیح طرق سے زید بن صوحان سے روایت کیا ہے اور یہ جنگ جمل میں شہید ہوئے تھے، تم مجھ سے کپڑے نہ اتارنا اور نہ ہی مجھ سے خون کو دھونا، اور حضرت عمار بن یاسر ؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے زید بن صوحان کے قول کی مثل ہی کہا ہے اور حضرت عمار بن یاسر ؓ جنگ صفین میں شہید کئے گئے اور حضرت علی ؓ نے انہیں غسل نہیں دیا۔ اور امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے (شہید کو) دیگر تمام مردوں کی طرح غسل دیا جائے گا سوائے اس کے جسے اہل حرب نے قتل کیا ہو اور یہی امام مالک (رح) کا قول ہے، امام مالک (رح) نے کہا ہے : اسے غسل نہیں دیا جائے گا جسے کفار نے قتل کیا اور وہ میدان جنگ میں ہی فوت ہوگیا، اور ہر وہ مقتول جو میدان جنگ میں قتل نہ کیا گیا ہو۔ لیکن اسے کفار نے قتل کیا ہو ،۔۔۔۔۔ تو اسے غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور یہی امام احمد بن حنبل ؓ کا قول ہے اور امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ باغیوں کے مقتول کو غسل نہیں دیا جائے گا اور امام مالک (رح) کا قول زیادہ صحیح ہے، بلاشبہ مردوں کو غسل دینا اجماع اور تمام کے نقل کرنے سے ثابت ہے، پس ہر میت کو غسل دینا واجب ہے سوائے اس کے جسے اجماع یا سنت ثابتہ نے (اس حکم سے) خارج کیا ہو، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (5) دشمن جب صبح کے وقت کسی قول پر ان کے گھروں میں حملہ کر دے اور انہیں اس کے بارے علم نہ ہو اور وہ ان میں سے بعض کو قتل کر دے تو کیا ان کا حکم میدان جنگ میں قتل ہونے والوں کو حکم کی طرح ہوگا یا عام مردوں کے حکم کی مثل، یہ مسئلہ ہمیں قرطبہ میں پیش آیا (اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ ہمارے پاس لائے) دشمن اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے۔ نے تین رمضان المعظم 627 ھ کی صبح کی کو حملہ کیا لوگ اپنے گھروں میں ابھی غفلت میں تھے، تو اس نے بعض کو قتل کردیا اور بعض کو قید کرلیا ان افراد میں سے جنہیں شہید کیا گیا میرے والد (رح) بھی تھے تو میں نے اپنے شیخ المقری الاستاذ ابو جعفر احمد المعروف باب حجۃ سے (یہ مسئلہ) پوچھا تو انہوں نے فرمایا، انہیں غسل بھی دو اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھو، کیونکہ تمہارے والد میدان جنگ میں دو لشکروں کی صفوں کے درمیان شہید نہیں غسل بھی دو اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھو، کیونکہ تمہارے والد میدان جنگ میں دو لشکروں کی صفوں کے درمیان شہید نہیں کئے گئے، پھر میں نے اپنے شیخ ربیع بن عبدالرحمن بن احمد بن ربیع بن ابی سے پوچھا تو انہوں نے کہا : بلاشبہ اس کا حکم میدان جنگ میں قتل ہونے والے کا ہی حکم ہے، پھر میں نے قاضی الجماعۃ ابا الحسن علی بن قطرال سے پوچھا اور ان کے پاس فقہاء کی ایک جماعت موجود تھی تو انہوں نے جواب دیا : اسے غسل دو اور کفن پہناؤ اور اس پر نماز جنازہ پڑھو، میں نے اسی طرح کیا، پھر اس کے بعد ” البقرہ “ وغیرہا میں میں اس مسئلہ پر (صحیح طرح) واقف ہوا جو کہ ابو الحسن الخمی کی کتاب ہے اور اگر میں اس سے پہلے اس پر واقف ہوجاتا تو میں انہیں غسل نہ دیتا اور میں انہیں خون سمیت انہیں کپڑوں میں دفن کردیتا۔ مسئلہ نمبر : (6) یہ آیت اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے اور اس میں شہادت پانے کا ثواب عظیم اور بہت زیادہ ہونے پر دلالت کرتی ہے یہاں تک کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونا ہر شے کو مٹا دیتا ہے سوائے قرض کے اسی طرح مجھے جبریل امین (علیہ السلام) نے ابھی بتایا ہے (1) (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، جلد 2، صفحہ 135) ہمارے علماء نے کہا ہے کہ دین (قرض) کا ذکر اس پر تنبیہ ہے کہ وہ حقوق بھی اسی کے معنی میں ہیں جو مذمت سے متعلق ہیں۔ مثلا غصب، باطل طریقے سے مال لینا، عمدا کسی کو قتل کرنا، اور زخمی کرنا اور دیگر ایسے امور جو ان کے تابع ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک قرض کی نسبت زیادہ اولی ہے کہ اسے جہاد کے سبب نہ بخشا جائے کیونکہ وہ زیادہ شدید اور سخت ہے اور ان تمام میں قصاص نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اس بارے میں سنۃ ثابتہ وارد ہیں۔ عبداللہ بن انیس ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’ اللہ تعالیٰ بندوں کو یا فرمایا لوگوں کو اٹھائے گا، ہمام کو شک ہے (کہ آپ نے لفظ العباد کہا یا الناس کہا) اور اپنے دست مبارک کے ساتھ شام کی طرف اشارہ کیا۔ ننگے بدن، غیر مختون اور بھم، ہم نے عرض کی : بھم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان کیساتھ کوئی شے نہ ہوگی، پس انہیں ایسی آواز کے ساتھ ندا دی جائے گی جسے ہر قرب وبعد والا سنے گا میں بادشاہ ہوں، میں حاکم (اور) حساب لینے والا ہوں اہل جنت میں سے کسی کو نہیں چاہیے کہ وہ جنت میں داخل ہو درآنحالیکہ اہل نار میں سے کوئی اسے ظلم کے عوض طلب کر رہا ہو، اور اہل نار میں سے کسی کو نہیں چاہیے کہ وہ جہنم میں داخل ہو درآنحالیکہ اہل جنت میں سے کوئی اسے ظلم کے عوض طلب کر رہا ہو حتی کہ ایک تھپڑ ہی ہو، راوی نے کہا ہم نے عرض کی : کیسے ممکن ہوگا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں آئیں گے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون۔ آپ نے فرمایا : ” نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ (1) (المستدرک، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 475، حدیث نمبر 3638) اسے حارثہ بن ابی اسامہ نے نقل کیا ہے، اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ “ انہوں نے عرض کی : ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی سازوسامان، تو آپ نے فرمایا :” بلاشبہ میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکوۃ وغیرہ (نیک اعمال) ساتھ لے کر آئے گا اور پھر ایک (آدمی) آئے گا (اور کہے گا) اس نے گالیاں دی ہیں (دوسرا آئے گا اور کہے گا) اس نے تہمت لگائی ہے (ایک اور آئے گا اور کہے گا) اس نے اس کا مال کھایا ہے، (ایک اور آکر کہے گا) اس نے اس کا خون بہایا ہے۔ (ایک اور آکر کہے گا) اس نے اسے مارا ہے، پس اسے اس کی نیکیوں میں سے دی جائیں گی اور دوسرے کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی پس اگر اس کی نیکیاں جو کچھ اس کے ذمہ ہے وہ پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو پھر ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گی پس اگر اس کی نیکیاں جو کچھ اس کے ذمہ ہے وہ پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو پھر ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے آتش جہنم میں پھینک دیا جائے گا (2) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، جلد 2، صفحہ 320) اور آپ ﷺ نے فرمایا :” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر اسے زندہ کیا جائے، پھر اسے قتل کیا جائے، پھر اسے زندہ کیا جائے پھر اسے قتل کیا جائے درآنحالیکہ اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا یہاں تک کہ اس کی طرف سے ادا کردیا جائے۔ (3) (سنن نسائی، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 53) اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بندہ مومن کا نفس اس کے ساتھ معلق ہے جو اس پر قرض ہے۔ (4) (شعب الایمان فی قبض الیدبان الاخوال المعرفۃ جلد 4، صفحہ 401، حدیث نمبر 5543) اور احمد بن زہیر نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : یہ صحیح ہے، اور اگر کہا جائے یہ تو اس پر دلالت کرتا ہے کہ بعض شہداء قتل کے وقت سے جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ان کی ارواح پرندے کے پیٹ میں ہوں گی، جیسا کہ تم نے ذکر کیا ہے اور نہ ہی وہ اپنی قبور میں ہوں گے، تو پھر وہ کہاں ہوں گے ؟ تو ہم نے کہا : حضور نبی مکرم ﷺ سے یہ حدیث موجود ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” شہداء کی ارواح جنت کے دروازے کے ساتھ ایک نہر پر ہوں گی اسے بارق کہا جاتا ہے، ان پر ان کا رزق صبح وشام جنت سے نکالا جاتا ہے۔ (5) (مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عباس، جلد 1 صفحہ 266) شاید یہ وہی ہوں، واللہ اعلم، اسی وجہ سے امام ابو محمد بن عطیہ نے کہا ہے : یہ طبقات اور مختلف احوال ہیں جن کا مجموعہ یہ ہے کہ رزق دیئے جاتے ہیں۔ اور امام ابو عبداللہ بن محمد بن یزید بن ماجہ القزدینی نے اپنی سنن میں حضرت سلیم بن عامر سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابو امامہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” سمندر کا ایک شہید خشکی کے دو شہیدوں کی مثل ہے اور سمندر میں (دو آدمی جس کا) سرچکرا رہا ہو وہ خشکی میں اس کی طرح ہے جو اپنے خون میں لت پت ہو اور جودو موجوں کے درمیان ہو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں دنیا میں سے منقطع ہونے والے کی طرح ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ارواح کو قبض کرنے کے لئے ملک ملک الموت کو مقرر فرمایا ہے سوائے سمندر میں شہید ہونے والوں کے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو خود قبض کرتا ہے اور خشکی کے شہید کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے قرض کے اور سمندر میں شہید ہونے والے کے گناہ اور قرض بھی بخش دیتا ہے (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 204، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 2767، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (7) وہ قرض جس کے سبب مقروض کو جنت سے روک دیا جائے گا۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ وہ وہ ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اس نے مال چھوڑا اور اس کے بارے وصیت نہ کی ہو یا وہ ادائیگی پر قادر ہو لیکن اس نے ادا نہ کیا اس نے اسراف یا بیوقوفی کی بنا پر قرض لیا اور مرگیا اور اسے ادا نہ کیا۔ اور رہا وہ آدمی جس نے واجب حق کو پورا کرنے کے لئے فاقہ کشی اور تنگ دستی کی وجہ سے قرض لیا اور مرگیا اور اس نے اسے ادا کرنے کے لئے کچھ نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نہیں اور تنگ دستی کی وجہ سے قرض لیا اور مرگیا اور اس نے اسے ادا کرنے کے لئے کچھ نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت سے نہیں روکے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ کیونکہ سلطان وقت پر فرض ہے کہ وہ اس کی طرف سے اس کا قرض ادا کرے، چاہے توجملہ صدقات میں سے یا غارمین کے حصہ سے یا اس مال فی سے جو مسلمانوں کو (صلح کے ساتھ) کہیں سے حاصل ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرض یا عیال (محتاجی) چھوڑی تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے ورثاء کے لئے ہے (2) (سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات، جلد 1 صفحہ 176، ایضا صحیح بخاری، باب من تکفل عن میت دینا فلیس لہ ان یرجع، حدیث 2133، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ہم نے اس باب کی مزید وضاحت کتاب ” التذکرہ “ میں کی ہے۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ (آیت) ” عند ربھم یرزقون “۔ اس میں مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت ہے عند کر امۃ ربھم۔ اور یہاں عند غایت قرب کا تقاضا کرتا ہے، پس یہ ” لدی “ کی طرح ہے، اسی وجہ سے اس کی تصغیر نہیں بنائی گئی کہ کہا جائے ! عنید، یہ سیبویہ نے کہا ہے، تو یہ غایت قرب (عندیہ) کرامت کے اعتبار سے ہے نہ کہ مسافت اور قرب کے اعتبار سے، اور (آیت) ” یرزقون “ سے مراد وہ رزق ہے جو عرف میں معروف ہے اور جس نے کہا ہے : اس سے مراد حیات الذکر ہے اس نے کہا ہے کہ انہیں ثنا جمیل (اچھی تعریف) کا رزق دیا جاتا ہے۔ اور پہلا معنی حقیقت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارواح جس حالت میں جنت کی ہواؤں، خوشبوؤں، نعمتوں اور اس کی فرحت و انبساط میں چلتی ہیں تو وہ ان چیزوں کا ادراک رکھتی ہیں جو ارواح کے لائق اور مناسب ہوتی ہیں، ان میں سے جن میں نفع اٹھایا جاسکتا ہے اور ان کے سبب زندہ اور بلند رہا جاسکتا ہے، اور رہیں لذات جسمانیہ تو ان ارواح کو جب ان کے اجساد کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ ان تمام نعمتوں سے پوری ہوجائیں گی، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں، اور یہ اچھا قول ہے۔ اگرچہ اس میں مجاز کی نوع بھی ہے، اور یہ اس کے موافق ہے جو موقف ہم نے اختیار کیا ہے، والموفق الالہ اور فرحین، ” یرزقون “ کی ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے، اور کلام میں ” احیاء “ کی صفت ہونے کی بنا پر ” فرحون “ بھی جائز ہے اور یہ فرح بمعنی سرور سے ماخوذ ہے، اور اس آیت میں فضل سے مراد وہی مذکورہ نعمتیں ہیں، اور ابن السمیقع نے فارحین کو الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں جیسا کہ الفرہ اور الفارہ، الحذر اور الحاذر، الطمع اور الطامع اور البخل اور الباخل، نحاس نے کہا ہے : غیر قرآن میں اس کا رفع پڑھنا جائز ہے، کیونکہ یہ احیاء کی صفت ہو سکتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم “۔ اس کا معنی ہے جو فضل میں ان سے نہیں آملے، اگرچہ ان کے لئے فضل (اور مرتبہ) ہے، اور (یستبشرون) کی اصل البشرۃ سے ہے، کیونکہ انسان جب فرحت و انبساط میں ہوتا ہے تو خوشی اور سرور کا اثر اس کے چہرے میں ظاہر ہوتا ہے، اور سدی نے کہا ہے : شہید کے پاس ایک کتاب لائی جاتی ہے جس میں اس کے بھائیوں میں سے اس کے پاس آنے والوں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خوش ہوجاتا ہے جیسا کہ اہل غائب دنیا میں اس کے آنے کے ساتھ خوش ہوتا ہے۔ (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3۔ 4، صفحہ 219) اور حضرت قتادہ، ابن جریج اور ربیع وغیرہ نے کہا ہے : ان کا خوش ہونا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑا وہ اپنے نبی کی معیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کر رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں پس وہ بھی ہماری طرح کی عزت و کرامت پار رہے ہیں پس وہ اسی کے سبب مسرور اور خوش ہو رہے ہیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 541 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ لوگ ابھی پیچھے سے انہٰں نہیں ملے ان کے لئے خوشی کے اظہار سے اشارہ تمام مومنین کی طرف ہے اگرچہ وہ قتل نہ کئے جائیں، کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کو دیکھتے ہیں تو انہیں یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ دین اسلام ہی وہحق ہے جس پر اللہ تعالیٰ اجر وثواب عطا فرمائے گا، پس وہ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان پر خوش ہوتے ہیں جو اس نے انہیں عطا فرمایا ہے اور وہ مومنین کے لئے بھی خوش ہوتے ہیں کہ نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، اس معنی کو زجاج اور ابن فورک نے اختیار کیا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 541 دارالکتب العلمیہ)
Top