Al-Quran-al-Kareem - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ اٹھائے ہوئے ہے اور جو کچھ رحم کم کرتے ہیں اور جو زیادہ کرتے ہیں اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازے سے ہے۔
اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى۔۔ : ”تَغِيْضُ“ ”غَاضَ یَغِیْضُ“ سے ہے اور یہ ”نَقَصَ یَنْقُصُ“ کا ہم معنی ہے۔ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، یعنی کم ہونا، کم کرنا۔ اسی طرح ”تَزْدَادُ“ باب افتعال ”زَادَ یَزِیْدُ“ کی طرح ہے، معنی ہے زیادہ ہونا اور زیادہ کرنا۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر بچہ پیدا ہونے تک ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور ارحام (بچہ دانیوں) کا یہ علم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہے، یعنی اس بات کا علم کہ مذکر ہے یا مؤنث، خوب صورت ہے یا بد صورت، بدبخت ہے یا نیک بخت، لمبی عمر والا ہے یا کم عمر۔ مزید دیکھیے سورة نجم (32) ، زمر (6) اور مومنون (12 تا 14)۔ عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَفَاتِحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) ”غیب کی کنجیاں پانچ ہیں (جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا)۔“ (پھر سورة لقمان کی آخری آیت میں مذکور چیزیں بیان فرمائیں)۔ [ بخاری، التفسیر، باب : (وعندہ مفاتح الغیب۔۔) : 4627] مزید وضاحت کے لیے سورة لقمان کی آخری آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی حقیقت بھی وہیں ملاحظہ فرمائیں۔ وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ: اور جو رحم کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں، یعنی بچہ ضائع ہوجاتا ہے یا نامکمل پیدا ہوتا ہے یا مدت ولادت میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے کہ بعض کے ہاں چھ یا نو ماہ بعد، بعض کے ہاں دس ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ : اللہ تعالیٰ کو ازل سے ابد تک ہر چیز کا علم ہے، اس نے ہر چیز کے متعلق پہلے ہی سب کچھ طے کر کے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے اور یہی تقدیر ہے۔ اس پر ایمان نہ ہو تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا، فرمایا : (اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ) [ القمر : 49 ] ”بیشک ہم نے جو بھی چیز ہے، ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔“ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کتنی ہوگی اور کیسے ہوگی، اس اندازے میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔
Top