Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ
: اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
مَا تَحْمِلُ
: جو پیٹ میں رکھتی ہے
كُلُّ اُنْثٰى
: ہر مادہ
وَمَا
: اور جو
تَغِيْضُ
: سکڑتا ہے
الْاَرْحَامُ
: رحم (جمع)
وَمَا
: اور جو
تَزْدَادُ
: بڑھتا ہے
وَكُلُّ
: اور ہر
شَيْءٍ
: چیز
عِنْدَهٗ
: اس کے نزدیک
بِمِقْدَارٍ
: ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
آیت نمبر 8 تا 18 ترجمہ : اللہ بخوبی جانتا ہے کہ مادہ کس چیز سے حاملہ ہے ؟ آیا لڑکا ہے یا لڑکی اور ایک ہے یا متعدد وغیرہ وغیرہ اور مدت حمل میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اس کو بھی جانتا ہے ہر چیز اس کے نزدیک مقدار اور تحدید کے ساتھ ہے کہ اس (مقررہ مقدار) سے تجاوز نہیں ہوتا، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ عظیم اور اپنی مخلوق پر قوت کے ذریعہ غالب ہے، (المتعال میں) یاء اور بغیر یاء دونوں قراءتیں ہیں تم میں سے کوئی شخص خواہ آہستہ بات کرے یا زور سے، اللہ تعالیٰ کے علم میں سب برابر ہے اور وہ جو رات کی تاریکی میں چھپا ہو اور (یا) دن میں راستہ میں چلنے (پھرنے) کی وجہ سے ظاہر ہو ہر انسان کے ساتھ آگے پیچھے (نگرانی) کیلئے رات دن کی ڈیوٹی والے فرشتے لگے رہتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے ہیں، یعنی اس کے حکم سے جن وغیرہ سے حفاظت کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات کو نہیں بدلتا یعنی اس کی نعمتوں کو سلب نہیں کرتا تاآنکہ وہ خود ان صفات کو نہ بدل دے جو اس میں ہیں یعنی اپنی صفات جمیلہ کو معصیت سے نہ بدل دے، اور جب کسی قوم کے بارے میں عذاب کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر اسے کوئی نہیں ٹال سکتا خواہ نگران فرشتے ہوں یا اور کوئی اللہ تعالیٰ جن کو سزا دینے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں ان کا کوئی حامی نہیں ہوتا کہ ان کو عذاب سے بچا سکے (مِنْ والٍ ) میں مِنْ زائدہ ہے وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلی چمکاتا ہے جس سے مسافروں کو اندیشہ لاحق ہوتا ہے اور مقیمین کو بارش کی امید ہوتی ہے وہی ہے جو پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو پیدا کرتا ہے اور بادلوں کی گرج کہ وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں کے چلانے پر مقرر ہے حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتا ہے یعنی وہ سبحان اللہ وبحمدہ کہتا ہے اور فرشتے اس کی یعنی اللہ ہیبت سے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ بجلیوں کو بھیجتا ہے اور وہ ایک قسم کی آگ ہے جو بادلوں سے نکلتی ہے سو وہ جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے تو وہ اس کو جلا ڈالتی ہے (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس کو دعوت دینے کیلئے آپ ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا، تو اس شخص نے کہا اللہ کا رسول کون ؟ اور اللہ کیا ؟ آیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا تانبے کا ہے تو اس پر (آسمانی) بجلی گری اور اس کی سر کی کھوپڑی کو اچک لے گئی اور کفار اللہ کے بارے میں نبی ﷺ سے جھگڑ رہے ہیں فی الواقع وہ زبردست قوت والا یا پکڑ والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ برحق ہے اور اس کا کلمہ ” لا اِلٰہَ الا اللہ “ ہے اور وہ ہستیاں جن کو وہ پکارتے ہیں اس کے علاوہ اور وہ بت ہیں، بندگی کرتے ہیں ان کو کچھ بھی جواب نہیں دے سکتیں، اس چیز کے بارے میں جس کو وہ طلب کر رہے ہیں ان کو پکارنا تو قبولیت کے بارے میں ایسا ہے کہ کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر پانی سے کہے کہ اے پانی تو کنویں سے نکل کر میرے منہ میں پہنچ جا، حالانکہ وہ پانی اس کے منہ تک کبھی پہنچنے والا نہیں، اسی طرح وہ (اصنام) بھی ان کی پکار کا جواب دینے والے نہیں ہیں اور کافروں کا بتوں کی بندگی کرنا یا حقیقۃً ان کو پکارنا اکارتِ محض ہے (یعنی تیر بےہدف ہے) (اور اللہ ہی ہے) کہ جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز بخوشی جیسا کہ مومنین اور ناخوشی جیسا کہ منافقین اور وہ جس کو تلوار کے ذریعہ مجبور کردیا گیا ہو اور سب چیزوں کے سایہ صبح و شام (اللہ کو) سجدہ کرتے ہیں، اے محمد ﷺ اپنی قوم سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے ؟ اور اگر وہ جواب نہ دیں تو خود ہی بتادو کہ وہ اللہ ہے، اس لئے کہ اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں، (پھر) ان سے کہو کہ (جب حقیقت یہ ہے) تو کیا تم نے اللہ کے غیر (یعنی) بتوں کو کارساز بنا لیا جن کی تم بندگی کرتے ہو جو اپنے بھی نفع نقصان کے مالک نہیں اور تم نے نفع نقصان کے مالک کو چھوڑ دیا ؟ یہ استفہام توبیخی ہے، (ان سے پوچھو) کیا نابینا اور بینا یعنی کافر اور مومن (اور) کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی یکسان ہوتی ہے، نہیں ہوتی، اور اگر ایسا نہیں تو کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیں کہ جنہوں نے اللہ کے مانند کچھ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے شرکاء کی پیدا کردہ اللہ کی پیدا کردہ شئ ان پر مشتبہ ہوگئی ؟ کہ ان کی تخلیق کی وجہ سے ان کو مستحق عبادت یقین کرلیا، یہ استفہام انکاری ہے، یعنی بات ایسی نہیں ہے اور خالق (حقیقی) کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے، کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، وہ یکتا ہے (اور) اپنے بندوں پر غالب ہے، پھر حق و باطل کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی (نالے) اپنی گنجائش کے مطابق اس کو لے کر بہہ نکلے پھر اس سیلاب نے پانی پر چڑھے جھاگوں کو اٹھا لیا وہ سطح آب پر آنے والا کوڑا کرکٹ وغیرہ ہے اور ارضیاتی دھاتوں میں سے مثلاً سونا اور چاندی، اور تانبا جس کو آگ میں تپاتے ہیں زیور بنانے کیلئئے یا سازوسامان بنانے کیلئے تاکہ ان سے استفادہ کیا جائے مثلاً برتن جبکہ اس کو پگھلایا جائے اسی طرح کے یعنی سیلاب کے جھاگوں کے مانند جھاگ ہیں اور وہ، وہ میل ہوتا ہے جس کو بھٹی الگ کردیتی ہے، مذکورہ مثال کے مانند اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھات کے جھاگ تو وہ ناکارہ ہو کر ختم ہوجاتے ہیں یعنی بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اور جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں کہ وہ پانی اور دھات ہے تو وہ زمین پر ایک زمانہ تک ٹھہر جاتا ہے، اور حق ثابت اور باقی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ مذکورہ مثال کی طرف مثالیں بیان کرتا ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی حکم برداری کی یعنی اطاعت کے ذریعہ فرمانبرداری کی، ان کیلئے جنت ہے، اور جن لوگوں نے کہ وہ کافر ہیں اس کی حکم برداری نہیں کی اگر ان کیلئے زمین میں جو کچھ ہے اور اسکے ساتھ اتنا ہی اور بھی ہو تو اس کو عذاب کے عوض میں دیدیں گے یہی ہیں وہ لوگ جن کیلئے برا حساب ہے اور وہ انکے تمام اعمال کا مواخذ ہے اس میں سے کچھ بھی معاف نہیں کیا جائیگا، اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بری جگہ ہے وہ برا بچھونا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الْمتَعَالِ اسم فاعل واحد مذکر غائب، (تَفَاعلٌ سے) مصدر تَعَالِیٌ، المُتَعَال اصل میں المتعالیُ تھا آخر سے یاء حذف ہوگئی، مادہ عُلُوٌّ ہے، یہاں ثلاثی مجرد کو ثلاثی مزید میں لیجانے کا مقصد معنی میں زیادتی کو بیان کرنا ہے، اس کے معنی ہیں برتر، بزرگ تر، المتعال میں دو قراءتیں ہیں یاء کے ساتھ یعنی المتعالی اور بغیر یاء کے یعنی المتعال۔ قولہ : سوآء منکم الخ اس میں دو ترکیبیں ہیں، (1) سواءٌ خبر مقدم اور مَنْ اَسَرَّ ومَنْ جَھَرَ مبتداء مؤخر۔ سوال : جب مبتداء دو ہیں تو خبر بھی تثنیہ لانی چاہیے تھی یعنی سواء ان کہنا چاہیے تھا۔ جواب : سواء چونکہ مصدر بمعنی مستو ہے لہٰذا اس میں واحد تثنیہ جمع سب برابر ہیں، (2) سواء مبتداء اور اَسَرَّ القولَ الخ اس کی خبر۔ سوال : سواء نکرہ ہے اس کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : سواء کی صفت چونکہ منکم موجود ہے لہٰذا اس میں تخصیص پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے سواءٌ کا مبتداء بننا درست ہوگیا۔ قولہ : ساربٌ یہ سربٌ سے اسم فاعل ہے بمعنی، راہ میں چلنے والا، گلیوں میں پھرنے والا، سارب کی جمع سَرْبٌ ہے جیسا کہ راکبٌ کی جمع رَکْبٌ آتی ہے ساربٌ کا عطف من ھو مستخفٍ پر ہے نہ کہ مستخف پر۔ قولہ : معقِّبات یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے اور مُعَقِّبَۃٌ کی جمع ہے (تفعیل) سے تعقیب مصدر ہے، باری باری سے روز و شب میں آنے والے فرشتے۔ (بیضاوی، و کبیر) قولہ : تَعْتَقِبُ اس میں اشارہ ہے کہ مُعَقِّبَاتٌ اِعْتَقَبَ سے ہے، اصل میں مُتَعَقِّباتٌ تھا تاء کو قاف میں ادغام کردیا وہ ملائکہ جو آمدورفت میں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں، مراد وہ ملائکہ ہیں جو شب و روز میں ڈیوٹی بدلتے ہیں۔ قولہ : مَرَدَّ ، اسم فعل، ٹالنا، لوٹانا۔ قولہ : مِنْ والٍ ، مِنْ زائدہ ہے وَال اسم فاعل اصل میں والِیٌ تھا (ض) یاء حذف کردی گئی، مددگار، حمایتی۔ قولہ : خوفاً وطمعًا، اور کہا گیا ہے یہ دونوں یریکم کے کاف سے حال ہیں، ای حَالَ کو نکم خائفین وطامعین، ابو البقاء نے کہا ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے فعلوں کے مفعول بھی ہوسکتے ہیں، (مگر زمخشری نے انکار کیا ہے) اور بعض حضرات نے اَلْبَرْقَ سے بھی حال قرار دیا ہے۔ (اعراب القرآن للدرویش) قولہ : تُسَبِّحُ اس میں اشارہ ہے کہ الملائکۃ کا عطف الرَّعد پر ہے نہ کہ قریب پر۔ قولہ : بقحف، قُحف کھوپڑی، کاسۂ سر (جمع) اقحاف، قُحوف۔ قولہ : ای کلمۃ اس میں اشارہ ہے کہ دعوت دعاء کے معنی میں نہیں ہے اور نہ بمعنی اَلدَّعوۃ المجابۃ کے معنی میں ہے۔ قولہ : اِستجابۃً ۔ سوال : استجابۃ مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : در وجہ سے اول یہ کہ مستثنیٰ ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہوجائے اسلئے کہ مستثنیٰ متصل ہی اصل ہے، اور مستثنیٰ منہ استجانۃ ہے جو یستجیبون سے مفہوم ہے اسلئے کہ فعل مصدر پر دلالت کرتا ہے دوسرے یہ کہ اگر استجابۃ کو مقدر نہ مانا جائے تو تشبیہ العرض بالذات لازم آئے گی جو کہ جائز نہیں ہے، اسلئے کہ ستجابۃ عرض ہے اور باسط کفیہ ذات، بتوں سے مراد مانگنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے کہہ رہا ہو کہ اے پانی تو میرے منہ میں آجا ظاہر ہے کہ یہ حماقت و سفاہت ہے اسلئے کہ پانی جماد ہے اس میں کسی کی فریاد سننے کی صلاحیت نہیں ہے، اسی طرح وہ شخص جو بتوں سے مرادیں مانگ رہا ہے وہ بھی سفیہ اور احمق ہے اسلئے کہ بت بھی جماد بےحس ہیں۔ قولہ : غُدُوٌّ، غداۃ کی جمع ہے، صبح کا وقت۔ قولہ : ا لآصال، یہ اصیل کی جمع ہے شام کا وقت۔ قولہ : جُفَاءٌ بروزن غُرابٌ، باطل، بےفائدہ یقال، جَفَا الوادی والقدرُ یعنی وادی (ندی) اور ہانڈی نے جھاگ باہر نکل دئیے۔ قولہ : اجابوہ بالطاعۃ اس میں اشارہ ہے کہ استجابوا (استفعال) افعال کے معنی میں ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ یہاں طلب کے معنی مقصود نہیں ہیں۔ قولہ : الجنۃ، اس کے اضافہ سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے الحُسْنٰی الجنۃ محذوف کی صفت ہے الجنۃُ الحُسْنٰی، مبتداء مؤخر اور للذین الخ خبر مقدم ہے۔ تفسیر و تشریح اللہ یعلم۔۔۔ (الآیۃ) رحم مادر میں کیا ہے ؟ نر ہے یا مادہ، خوبصورت ہے بدصورت، خوش نصیب ہے یا بد نصیت، نہ نیک ہے یابد، طو یل العمر ہے یا نا قصیرالمر، نا قص تو لد ہوگا یا کا مل، یہ سب با تیں صرف اللہ ہی جانتا ہے اس کا علم بلا واسطہ ہے، نہ کسی آلہ کا محتاج اور نہ ذریعہ کا۔ غرضیکہ وہ ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے واقف ہے، قرائن اور تخمینہ سے کوئی حکیم یا ڈاکٹر جو کچھ اس معاملہ میں رائے دیتا ہے اس کی حیثیت ایک گمان اور اندازہ کی ہوتی ہے بسا اوقات واقعہ اس کے خلاف نکلتا ہے، اَلٹرا ساؤنڈ یا ایکسرے مشین کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات بھی یقینی نہیں ہوتیں ان کا غلط ہونا بھی تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے اس کے علاوہ مشینوں کے ذریعہ معلومات حاصل کرنا ایک قسم کے مشاہدہ سے حاصل ہونے والا علم ہے جیسا کہ کوئی آپریشن کرکے نرومادہ ہونے کو متعین کرلے، اس کا علم غیب سے کوئی تعلق نہیں غیب سے مراد وہ چیز ہے جو انسانی حواس سے غائب ہو یعنی نہ آنکھوں سے اور نہ آلات سے اس کو دیکھا جاسکے اور نہ کانوں اور آلات سے اسے سنا جاسکے اور نہ ناک سے سونگھا جاسکے اور نہ زبان سے چکھا جاسکے اور نہ ہاتھوں سے چھوا جاسکے، اور شہادت سے اس کے بالمقابل وہ چیزیں مراد ہیں کہ جو انسانی حواس مذکورہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکے مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا علم غیب خاص اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ غائب کو اسی طرح جانتا ہے جس طرح حاضر و مشاہد کو جانتا ہے، عمومی حالات میں بچہ کے رحم مادر میں رہنے کی مدت 280 دن ہوتی اگر کوئی عارض پیش نہ آئے۔ لہ معقبت۔۔۔ (الآیۃ) یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہرحال میں براہ راست خود دیکھ رہا ہے اور ہر ذرہ کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، بلکہ مزید براں اللہ کے مقرر کئے ہوئے نگرانِ کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور اس کے پورے کارنامہ زندگی کا رکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں، بخاری شریف کی روایت ہے کہ رات اور دن کے نگران فرشتے الگ الگ ہیں ان کی ڈیوٹی صبح فجر کی نماز کے بعد اور عصر کے بعد تبدیل ہوتی ہے۔ فلا مرد۔۔۔ وال، یعنی کسی کو بھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ کوئی پیر یا فقیر یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ بھی کرتے رہو وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تم کو تمہارے برے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا۔ ان اللہ لا یغیر۔۔۔۔ (الآیۃ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ کے اوامرو نواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتا اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتے یعنی ان کے امن و عافیت و مصیبت میں اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اعمال و احوال کو برائی اور فساد میں تبدیل نہ کرے ورنہ تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز عمل بدل دیتے ہیں۔ اس تشریح سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں تغیر احوال سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اطاعت و شکر گذاری چھوڑ کر اپنے حالات میں بری تبدیلی پیدا کرلے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا حفاظت و رحمت کا طرز بدل دیتے ہیں۔ اس آیت کا عام طور پر جو یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ کسی قوم میں اچھا انقلاب اس وقت تک نہیں آتا جبتک وہ خود اچھے انقلاب کیلئے اپنے حالات کو درست نہ کرے، اسی مفہوم میں یہ شعر مشہور ہے۔ ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا یہ بات اگرچہ ایک حد تک صحیح ہے مگر آیت مذکور کا یہ مفہوم نہیں ہے، اور اسکا صحیح ہونا بھی ایک عام قانون کی حیثیت سے ہے جو شخص خود اپنے حالات کی اصلاح کا ارادہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی امداد و نصرت کا وعدہ نہیں، بلکہ یہ وعدہ اسی حالت میں ہے کہ جب خود اصلاح کی فکر کرے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہدایت کے راستے تب ہی کھلتے ہیں جب خود ہدایت کی طلب موجود ہو، لیکن انعامات الٰہیہ اس قانون کے پابند نہیں بسا اوقات اس کے بغیر بھی عطا ہوجاتے ہیں۔ (معارف) ھو الذی۔۔۔ (الآیۃ) یعنی اللہ ہی کی ذات پاک ہے کہ جو تم کو برق و بجلی دکھلاتی ہے جو انسان کیلئے خوف بھی بن سکتی ہے کہ جس جگہ پڑجائے سب کچھ خاک کر ڈالے، اور طمع وامید بھی ہوتی ہے کہ بجلی کی چمک کے بعد بارش آئے گی، جو انسانوں کی زندگی کا سہارا ہے۔ لہ دعوۃ الحق (الآیۃ) یعنی امید و بین کے وقت اسی ایک خدا کو پکارنا چاہیے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے یہاں دعوت عبادت کے معنی میں ہے یعنی اس کی عبادت حق اور صحیح ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق ومالک اور مدبر و متصرف صرف وہی ہے اسلئے عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے، اور دعوۃ کے معنی کلمہ کے بھی ہیں جیسا کہ مفسر علام نے صراحت کی ہے۔ اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کنویں کی مَنْ (کنارے) پر کھڑا ہو کر اور دونوں ہاتھ پھیلا کر پانی سے کہے کہ اے پانی تو میرے منہ تک آجا ! ظاہر بات ہے کہ پانی جامد اور لاشعور چیز ہے اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ ہاتھ پھیلانے والا پیاسا ہے اور نہ اسے یہ پتہ کہ یہ ہاتھ پھیلانے والا مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے، اور نہ اس میں یہ قدرت کہ اپنی جگہ سے حرکت کرکے اس کے منہ تک پہنچ جائے، اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن بتوں کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ انزل من السماء۔۔۔ بقدرھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تشبیہ و تمثیل کے پیدایہ میں حق و باطل کی حقیقت واضح کی ہے سورة بقرہ کے آغاز میں بھی منافقین کیلئے مثالیں بیان فرمائی ہیں، مثال سے مقصد بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرانا ہے۔ حق و باطل کی مثال : اس آیت میں مذکورہ مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان جامع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے، اسلئے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو دل سے تشبیہ دی ہے اسلئے کہ بارش کا پانی وادیوں اور ندی نالوں میں جاکر جمع ہوتا ہے اور بقدر وسعت پانی لے کر رواں ہوجاتا ہے جس طرح قرآن مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ دونوں مثالوں کا حاصل یہ ہے کہ جیسا ان مثالوں میں میل کچیل برائے چندے (وقتی طور پر) اصلی چیز کے اوپر چڑھا ہوا نظر آتا ہے لیکن انجام کار وہ پھینک دیا جاتا ہے اور اصلی چیز رہ جاتی ہے اسی طرح باطل گو چند روز حق کے اوپر نظر آئے لیکن آخر کار باطل محو اور مغلوب ہوجاتا ہے اور حق باقی اور ثابت رہتا ہے۔ اسی طرح جب سونے چاندی وغیرہ کو بھٹی میں تپایا جاتا ہے تو میل کچیل اوپر آکر اچھل کود شروع کردیتا اور بڑی شان کے ساتھ کچھ دیر کیلئے اصل دھات پر چڑھ جاتا ہے اور سطح پر وہی نظر آتا ہے مگر کچھ ہی دیر کے بعد کوڑے دان کی نذر ہوجاتا ہے، اسی طرح بظاہر کچھ دیر کیلئے حق کو مغلوب کرلیتا ہے مگر کچھ مدت کے بعد حق باطل سے اس طرح ٹکراتا ہے کہ باطل کا بھیجہ پاش پاش کردیتا ہے۔ اولئک لھم سوء الحساب، بری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی خطاء اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے اور ہر قصور پر مواخذہ کیا جائے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کا محاسبہ اپنے ان بندوں سے کرے گا جو اس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں، بخلاف انکے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے ان سے حساب یسیر یعنی ہلکا حساب لیا جائیگا، اور ان کی خدمات کے مقابلہ میں انکی خطاؤں کو درگذر کیا جائیگا اور ان کے مجموعی طرز عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر ان کی بہت سی کوتاہیوں سے صرف نظر کرلیا جائیگا اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے ابوداؤد میں مروی ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے نزدیک کتاب اللہ میں سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہے ” منیعمل سوءًا یجزبہ “ جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائیگا، اس پر حضور نے فرمایا، عائشہ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع و فرمانبردار بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے تو اللہ اسے اس کے کسی قصور کی سزا قرار دیکر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کردیتا ہے، آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہوگا وہ سزاپا کر رہے گا، حضرت عائشہ نے عرض کیا پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے ؟ ” فَامَّا مَنْ اُوْتِیَ کتابہ بیمینہٖ فَسَوْفَ یُحاسبُ حِسَابًا یَسِیْرًا “ جس کا اعمال نامہ اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائیگا اس سے ہلکا حساب لیا جائیگا، حضور نے جواب دیا اس سے مراد صرف پیشی ہے مگر جس سے باز پرس ہوئی وہ تو مارا گیا۔
Top