Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ
: اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
مَا تَحْمِلُ
: جو پیٹ میں رکھتی ہے
كُلُّ اُنْثٰى
: ہر مادہ
وَمَا
: اور جو
تَغِيْضُ
: سکڑتا ہے
الْاَرْحَامُ
: رحم (جمع)
وَمَا
: اور جو
تَزْدَادُ
: بڑھتا ہے
وَكُلُّ
: اور ہر
شَيْءٍ
: چیز
عِنْدَهٗ
: اس کے نزدیک
بِمِقْدَارٍ
: ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
رجوع برائے مضمون توحید قال اللہ تعالیٰ : اللہ یعلم ما تحمل کل انثی .... الیٰ .... وھو الواحد القھار۔ (ربط) گزشتہ آیات میں منکرین نبوت اور منکرین بعث بعد الموت کے شبہات کا جواب تھا اور اس سے قبل توحید کا مضمون تھا اب پھر توحید ہی کا مضمون بیان فرماتے ہیں اس ذیل میں اول حق تعالیٰ نے اپنا عالم بجمیع معلومات ہونا بیان کیا چناچہ اللہ یعلم الخ سے اپنا وسیع العلم ہونا بیان کیا کہ اللہ کا علم تمام کائنات کو محیط ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں بعد اذاں اپنا حافظ خلق اور رقیب ہونا بیان کیا چناچہ لہ معقبات سے یہ بتلا دیا کہ وہی تمام مخلوق کا محافظ اور نگہبان ہے بعد ازاں ھو الذی یریکم البرق الخ سے اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بیان کیں تاکہ اس کا عظیم الشان ہونا ظاہر ہو اور اس آیت ھو الذی یریکم البرق میں ایسے دلائل قدرت اور حکمت کا ذکر فرمایا کہ جو من وجہ نعمت اور رحمت ہیں اور من وجہ نقمت اور زحمت ہیں تاکہ رغبت اور رہبت دونوں ہی میں معین اور مددگار ہوں پھر قدرت کی ان بڑی بڑی نشانیوں کے بعد فرمایا لہ دعوۃ الحق یعنی وہی معبود برحق ہے جس کی یہ قدرت ہے اور وہی لائق عبادت ہے کیونکہ وہی نفع اور ضرر کا مالک ہے اس کے سوا کسی کی پرستش سے نفع اور ضرر کی امید رکھنا بےکار ہے غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنا اور بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنوئیں کے من پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ اے پانی کسی طرح تو میرے منہ میں پہنچ جا پھر یہ بتایا کہ بینا اور نابینا اور ظلمت اور نور برابر نہیں ہوسکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ گزشتہ آیات میں مشرکین کے انکار بعث اور انکار حشر و نشر کا ذکر تھا جس کا منشاء یہ تھا کہ جب انسان مر کر ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس کے اجزاء منتشر اور متفرق ہوگئے اور ایک دوسرے سے رل مل گئے اور باہمی امتیاز بھی ختم ہوگیا تو اب دوبارہ زندہ ہونا ناممکن اور محال ہوگیا حق تعالیٰ نے اس کی تردید کے لیے ان آیات میں اپنے احاطہ علمی اور کمال قدرت کو بیان کیا تاکہ عقلی طور پر حشر و نشر کا امکان واضح ہوجائے کہ جس کے علم اور قدرت کی کوئی حد نہیں اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے اللہ تعالیٰ تمام جزئیات کو اور تمام اجزاء اور ذرات کو خوب جانتا ہے اس کو معلوم ہے کہ یہ اجزاء کسی جسم اور کس بدن کے ہیں اس کو زید اور عمرو ہر ایک کے اجزاء الگ الگ معلوم ہیں وہ اپنے علم اور قدرت سے ان اجزاء کو پھر اسی طرح جوڑ سکتا ہے جس طرح اس نے پہلے جوڑا تھا۔ (دیکھو البحر المحیط ص 328 جلد 5) اللہ ہی خوب جانتا ہے جو ہر مادہ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے یعنی یہ بات کہ پیٹ میں نر ہے یا مادہ، وہ ایک ہے یا دو یا اس سے زیادہ، ناقص ہے یا کامل اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اور حالت حمل میں یہ بھی مقدر ہوجاتا ہے کہ کون ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا اور باوجود معجزات کے دیکھنے کے پھر بھی اپنے کفر پر قائم رہے گا اس تقریر سے آیت کا ماقبل سے ارتباط ظاہر ہوجائے گا اور رحموں کے گھٹنے اور بڑھنے کو بھی وہی جانتا ہے کہ رحم میں کتنے بچے ہیں اور بچہ کتنے دنوں میں پیدا ہوگا اور ہر شے اس کے یہاں مقدار معین کے ساتھ ہے نہ اس سے کم ہوسکتی ہے اور نہ زیادہ اور ہر شے کی کمیت اور کیفیت اسی کو پورے طور پر معلوم ہے کسی کو معلوم نہیں کہ اس نے کیا مقدر کیا ہے اور ہر امر کے لیے ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے اس کا ظہور میں آنا ناممکن ہے اور ہر چیز کی عدم سے وجود میں آنے سے پہلے اللہ کے علم میں مقدار معین ہے وہ جاننے والا ہے۔ چھپے اور کھلے کا کوئی چیز اس کے علم سے غائب نہیں وہ سب سے بڑا اور بلند ہے ہر شے اس کے مقابلہ میں حقیر اور صغیر ہے اس تک کسی کے خیال اور قیاس کی بھی رسائی نہیں تم میں سے جو شخص چھپا کر اپنے دل میں بات کہے اور جو اس کو پکار کر کہے اور جو شخص رات کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہے اور جو دن میں چل رہا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں برابر ہیں رات دن اس کے حضور میں یکساں ہیں اللہ کا علم تمام کائنات کو محیط ہے اس کو ہر جسم اور ہر بدن کے اجزاء کا پورا پورا اور علیحدہ علیحدہ علم ہے مرنے کے بعد جب اجزائے بدن متفرق اور منتشر ہوگئے تو تمہاری نظر میں اگرچہ ان اجزائے متفرقہ میں امتیاز نہ رہا مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں سب ممتاز اور ایک دوسرے سے جدا ہیں اس کو معلوم ہے کہ یہ مذکر کا جزو ہے یا مؤنث کا جزو ہے اور اجزاء منی کے متعلق اس کو پورا علم ہے کہ یہ جزو سر کا ہے یا پیر کا ہے حالت حمل میں بھی بچہ کے تمام اجزاء کا اس کو علم ہے اسی طرح سمجھو کہ مرنے اور گلنے اور سڑنے کے بعد بھی اس پر کسی جزو کا علم پوشیدہ نہیں جس طرح اس نے اپنے علم وقدرت سے پانی اور مٹی کے متفرق اجزاء کو جوڑ کر انسان پیدا کیا اسی طرح وہ توڑنے کے بعد پھر بھی جوڑنے پر قادر ہے یہاں تک اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کو بیان کیا کہ وہ عالم الغیب ہے اور ذرہ ذرہ کو اس کا علم محیط ہے اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ خداوند ذوالجلال حفیظ و رقیب بھی ہے تمام عالم کا محافظ اور نگہبان ہے چناچہ ہر آدمی کے لیے خواہ مومن ہو یا کافر اللہ کی طرف سے پہرہ دار فرشتے مقرر ہیں جو باری باری سے آنے والے ہیں اور بندہ کے آگے اور پیچھے سے اللہ کے حکم کے مطابق آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت کرتے ہیں یہ فرشتے چونکہ یکے بعد دیگرے آتے ہیں اس لیے ان کو معقبات کہتے ہیں یہ فرشتے انسان کی ہر درندہ اور موذی جانور سے حفاظت کرتے ہیں اور جب اللہ کی تقدیر آتی ہے کہ آدمی کو کوئی گزند پہنچے تو یہ فرشتے تھوڑی دیر کے لیے اس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں پھر بدستور اس کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں ان فرشتوں کو حفظۃ بھی کہتے ہیں اور بظاہر یہ فرشتے کراما کاتبین کے سوا ہیں جن کا کام بندہ کے اقوال و افعال کو لکھنا ہے کتابت اعمال کے لیے ہر انسان پر دو فرشتے مقرر ہیں یہ ساری عمر بندہ کے ساتھ رہتے ہیں بدلتے نہیں اور کراما کاتبین کے علاوہ کچھ فرشتے انسان کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں وہ بدلتے رہتے ہیں دن کے محافظ علیحدہ ہیں اور رات کے محافظ علیحدہ ہیں جو انسان کی سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے سے حفاظت کرتے ہیں (تفسیر روح المعانی ص 101 جلد 13 و روح البیان ص 350 جلد 4) کراما کاتبین بندہ کے اعمال کے نگہبان ہیں اور وہ دو ہیں ایک دائیں اور ایک بائیں عن الیمین وعن الشمال قعید یہ دو فرشتے انسان سے کبھی جدا نہیں ہوتے ان دو کے علاوہ کچھ فرشتے انسان کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور بدلتے رہتے ہیں ان کی تعداد میں روایتیں مختلف ہیں بعض نے کہا کہ پانچ فرشتے ہیں اور بعض نے کہا دس اور بعض نے کہا بیس۔ (واللہ اعلم) فائدہ : حق جل شانہ نے اس عالم کو عالم اسباب بنایا ہے ہر چیز کے لئے ظاہر میں ایک سبب ظاہری پیدا کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ باطنی اسباب و ذرائع بھی پیدا کئے ہیں جن کو ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں انہی باطنی اسباب میں یہ ملائکہ و معقبات ہیں جو ہماری حفاظت کا ایک باطنی سبب ہیں غیبی طور پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو ہم سے بلائیں دفع کرنے کا ایک سبب اور ذریعہ بنایا ہے مومن کا کام یہ ہے کہ ان کے وجود پر ایمان لائے جیسے کہ ہم کراما کاتبین کے وجود مجھ پر ایمان رکھتے رہیں اگرچہ ہمیں ان کے قلم اور کاغذ اور روشنائی اور کتابت کی حقیقت اور کیفیت معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے اور کیسی ہے (روح المعانی ص 102 جلد 13) یہ تو بندوں کے سامان حفاظت کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی حفاظت کے لیے کچھ فرشتے مقرر کیے ہیں جو ان سے بلائیں دفع کرتے ہیں اب آگے ان آفتوں اور بلاؤں اور مصیبتوں کا ذکر کرتے ہیں جو بد اعمالیوں کی وجہ سے بندوں پر نازل ہوتی ہیں چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا اس معاملہ کو جو کسی قوم کے ساتھ ہو جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت کو نہ بدلیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ مہربانی اور نگہبانی اور نعمت اور عافیت سے کسی قوم کو محروم نہیں کرتا جب تک وہ اپنی چال کو اللہ کے ساتھ نہ بدلیں جب وہ اپنی روش اللہ کے ساتھ بدل دیتے ہیں اور بجائے شکر نعمت کے کفران نعمت اور غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تب اللہ کی طرف سے آفت اور مصیبت آتی ہے جب تم اللہ کے ساتھ غیروں کا سا معاملہ کرنے لگتے ہو تو اللہ بھی غیروں کا سا معاملہ کرنے لگتے ہیں بندے جب اپنی حالت بدل دیتے ہیں کہ بجائے طاعت کے معصیت کرنے لگتے ہیں تو اللہ بھی ان سے اپنے فضل اور عنایت کو اٹھا لیتا ہے۔ جب کسی قوم میں علانیہ طور پر فسق وفجور اور بدکاری شائع ہوجاتے تو وہ قوم چند روز میں تباہ ہوجاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے اور جب اللہ ارادہ کرے کسی قوم کے ساتھ برائی کا یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے بوجہ بدنیتی اور بداعمالی اپنی نعمت چھین کر ان کی ذلت و خواری کا ارادہ فرمائیں تو پھر وہ برئی اور بلا کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی اور ایسے وقت میں سوائے خدا کے کوئی مددگار نہیں ہوتا جو بلا کو دفع کرسکے حتیٰ کہ وہ فرشتے جو ان کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے علیحدہ ہوجاتے ہیں اور برائی سے ہلاکت اور آفت مراد ہے وہ وہ ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لیے بجلی دکھاتا ہے بجلی جب چمکتی ہے تو لوگ اس سے بارش کی امید کرتے ہیں اور اس کے گرنے سے ڈرتے بھی ہیں ایک ہی چیز میں دو متضاد صفتوں کا جمع ہونا خدا کا کمال قدرت کی دلیل ہے گویا کہ ایک ہی شئے نعمت بھی ہے اور عذاب اور مصیبت بھی اس طرح خدا تعالیٰ نے ایک ہی شئی میں اپنا لطف اور قہر دو متضاد چیزوں کو جمع کردیا اور ” برق “ اس نور لامع اور ساطع کو کہتے ہیں جو ابر کے درمیان سے چمکتا ہے اور وہ ہی اپنی قدرت سے ہوا میں بوجھل بادلوں کو اٹھاتا ہے جو ہزاروں ٹن پانی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور مجال نہیں کہ بغیر اس کے حکم کے کسی جگہ برس جائیں اور نہ کسی کی یہ مجال کہ ان بادلوں میں سے اپنی ضرورت کے موافق پانی کا ایک قطرہ لے سکے اور گرج حمد و ثنا کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے اس کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں فرشتوں کا تسبیح وتحمید کرنا اور خدا کی عظمت و جلال کو بیان کرنا بظاہر ایک معقول امر ہے مگر رعد یعنی (گرج) کا بظاہر تسبیح وتحمید کرنا قابل غور معلوم ہوتا ہے اس سے بعض علماء اس طرف چلے گئے کہ گرج کی تسبیح وتحمید کا مطلب یہ ہے کہ گرج سے خدا کی کمال قدرت ظاہر ہوتی ہے جس کو سن کر اہل عرفان کی زبان سے بےساختہ سبحان اللہ اور الحمدللہ نکل جاتا ہے اس مطلب کا حاصل یہ ہے کہ تسبیح کی اسناد رعد کی طرف مجازی ہے اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو سحاب (بادل) پر مقرر ہے پس اگر رعد ایک فرشتہ کا نام ہے تو پھر اس کی تسبیح وتحمید میں کوئی استبعاد نہیں جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک فرشتہ کی تسبیح پڑھنے کی آواز ہے جو بادلوں کو چلاتا ہے اور اس وقت تسبیح پڑھتا ہے جسے عوام الناس بادل کی آواز سمجھتے ہیں ورنہ حقیقت یہ آواز اس کی تسبیح کی ہے اور اس فرشتہ کے ہاتھ میں آتشی تازیانہ ہوتا ہے جس سے وہ بادلوں کو ہنکاتا ہے اس سے جو چمک ظاہر ہوتی ہے وہ برق (بجلی) ہے اور وہ کوڑا جس سے ابر کو مارتا ہے اس کی آواز رعد ہے اور صاعقہ ایک آگ ہے جو بادلوں میں پیدا ہوتی ہے جب نیچے آتی ہے تو جس چیز پر گرتی ہے تو اس کو جلا کر بھسم کردیتی ہے اور محققین یہ فرماتے ہیں کہ اگر رعد محض آواز کا نام بھی ہو تب بھی تسبیح وتحمید کی اسناد اس طرف حقیقی ہے اگرچہ وہ ہمارے فہم میں نہ آئے حق تعالیٰ کا ارشاد وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم۔ یعنی کوئی شے ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح وتحمید نہ کرتی ہو مگر اے بنی آدم تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور باقی لوگ نہیں سمجھتے تھے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بارگاہ خداوندی میں ہر چیز کی ایک خاص حقیقت ہے جیسے نماز اور روزہ اور قراءت قرآن اور سورة بقرہ آل عمران وغیرہ وغیرہ ہمارے اعتبار سے یہ تمام چیزیں اعراض اور غیر قائم بنفسہ ہیں لیکن اصل حقیقت ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اسی طرح سمجھو کہ رعد ہمارے اعتبار سے اگرچہ محض ایک آواز ہو لیکن بارگاہ خداوندی میں اس کی کوئی پوشیدہ حقیقت ہو فرشتہ ہو یا کوئی شے ہو اور وہ حقیقتاً خدا کی تسبیح وتحمید کرتی ہو تو اللہ تعالیٰ کی خبر کے مطابق اس کی تصدیق واجب اور لازم ہے گو ہماری فہم میں نہ آئے پس جان لینا چاہئے کہ گرج کی یہ آواز جو ہماری سمجھ میں خالی آواز معلوم ہوتی ہے وہ درحقیقت سبحان اللہ وبحمدہ کے معنی رکھتی ہے اور تسبیح پڑھنے والی چیز درحقیقت رعد ہے پس مسلمان کا کام یہ ہے کہ زیادہ تحقیق میں نہ پڑے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو فرما دیا اس کو تسلیم کرے اور جو غیر مسلم ہے وہ ان باتوں کو کسی طرح بھی ماننے والا نہیں اس عالم کے احوال کو اس عالم کے احوال پر قیاس کرنا سراسر نادانی ہے اور جس خبر اور اثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو بادلوں پر مقرر ہے اور جو آواز سنائی دیتی ہے وہ فرشتہ کی آواز ہوتی ہے سو یہ خبر اگرچہ آحاد میں سے ہے متواتر اور قطعی نہیں لیکن احوط یہ ہے کہ حدیث کی مخالفت نہ کی جائے اگرچہ وہ آحاد ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی دلیل قائم نہ ہوجائے عقلا یہ بات جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ پیدا کرکے بارش کا انتظام اس کے سپرد کیا ہو اور اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہو جس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہو اور یہ رعد اس فرشتہ کی آواز ہو اور یہ برق اس کے کوڑے کی شراروں کی چمک ہو (واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم) غرض یہ کہ رعد اور برق اس کے قہر کی نشانیاں ہیں جس سے بندوں کو ڈراتا ہے اور ان سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں گرنے والی بجلیاں بھیجتا ہے پھر ان کو جس پر چاہتا ہے گراتا ہے اور اس کو ہلاک کردیتا ہے اور یہ کافر لوگ اللہ کے قہر کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ اللہ کی قدرت اور قہر کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ وہ سخت قوت والا ہے دشمن اس کے قبضہ قدرت سے نکل نہیں سکتے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عرب کے ایک متکبر رئیس کے پاس دعوت اسلام کا پیغام بھیجا وہ متکبر بولا کہ اللہ کا رسول کون ہے ؟ اور اللہ کیا چیز ہے ؟ سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا ؟ تیسری مرتبہ جب اس نے یہ گستاخانہ الفاظ بکے تو فورا ایک بادل اٹھا اور اس پر بجلی گری جس سے اس کی کھوپڑی اڑ گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اب قدرت کی ان بڑی بڑی نشانیوں کو بطور نتیجہ ارشاد فرماتے ہیں خدائے برحق ہی کے لیے سزاوار ہے سچی دعا اور پکار یعنی اس سے دعا مانگنا اور اسی کا یاد رکھنا اور اسی کی طرف رجوع کرنا صحیح اور درست ہے کیونکہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور حاجت روا ہے اور جو لوگ اس کے سوا اور معبودوں کو پکارتے ہیں کیونکہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور حاجت روا ہے اور جو لوگ اس کے سوا اور معبودوں کو پکارتے ہیں وہ معبود ان کو ان کی پکار کا کچھ جواب نہیں دے سکتے ان کا پکارنا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ پانی آپ سے آپ اس کے منہ تک پہنچ جائے اور وہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں کیونکہ پانی جما د ہے بےحس ہے اور بےشعور ہے اور نہ اسے ہاتھ پھیلانے والے کی خبر، نہ اس کی پیاس کی خبر اور نہ اس میں یہ قدرت کہ پکارنے والے کی پکار کا جواب دے سکے، بعینہٖ یہ مثال مشرکوں کو بتوں کو پکارنا محض بےسود ہے اور کافروں کی اپنے بتوں کو جس قدر بھی پکار ہے وہ سب بےکار ہے بتوں کو پکارنا یہ دعوت جہالت و ضلالت ہے جو مفضی الی الہلاکت ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خدا ہی کی پرستش ٹھیک ہے اور اس کے غیر کی پرستش بالکل رائیگاں ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی کے پاس جاکر اس بات کا منتظر رہے کہ یہ پانی میرے منہ میں آجائے حالانکہ وہ کبھی آپ سے آنے والا نہیں اس طرح غیر اللہ کی پرستش سے جو لوگ نفع کے امیدوار ہیں ان کی امید کبھی برآنے والی نہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر (رح) فرماتے ہیں کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے خیال ہیں اور بعضے جن ہیں اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک نہیں پھر کیا حاصل ان کا پکارنا جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی (انتہیٰ ) اس کے بعد پھر حق تعالیٰ اپنی عظمت اور کبریائی کو بیان فرماتے ہیں کہ تمام مخلوق اس کی مسخر ہے اور اس کے سامنے ذلیل و خوار ہے اور غیر اللہ کی پرستش عقلا اس لیے بھی بےکار ہے کہ تمام کائنات اللہ کے سامنے سربسجود ہے کیونکہ اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے کوئی خوشی سے اور کوئی ناخوشی سے کوئی خوشی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجالاتا ہے اور جو خدا پر یقین نہیں رکھتا اس پر اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے اس کے خلاف نہیں کرسکتا اور ان زمین والوں کے سائے بھی صبح اور شام کے اوقات میں سجدہ کرتے ہیں یعنی سائے بھی خدا کے حکم بردار ہیں جب گھٹاتا ہے گھٹ جاتے ہیں اور جب بڑھاتا ہے تو بڑھ جاتے ہیں اور سایوں کا گھٹنا اور بڑھنا صبح اور شام کے اوقات میں زیادہ ہوتا ہے اور کائنات کا یہ سجدہ اللہ کی عظمت اور جلال کی خبر دیتا ہے۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ کافر تو غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں مگر ان کا سایہ اللہ کو سکدہ کرتا ہے۔ ابن انباری (رح) کہتے ہیں کہ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظلال کے لیے عقول اور افہام پیدا کر دے جس سے وہ اللہ کو سجدہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو فہم دیا اور وہ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں اسی طرح سمجھو کہ مومن کا سایہ اللہ کو طوعا سجدہ کرتا ہے اور کافر کا سایہ کرہا سجدہ کرتا ہے (تفسیر کبیر ص 198 جلد 5) : انسانی سجدہ کے معنی زمین پر پیشانی رکھ دینے کے ہیں اور انسان کے علاوہ دوسری چیزوں کا سجدہ ان کے لائق اور مناسب ہے۔ : یہ سجدہ عزائم سجود میں سے ہے اس آیت کو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہے۔ یہاں تک توحید کی حقانیت اور شرک کا بطلان واضح ہوگیا اب بطور اتمام حجت ان سے سوالات کا حکم دیا جاتا ہے اے نبی ﷺ آپ ان مشرکوں سے جو خدا کے سوا اوروں کو پوجتے ہیں پوچھئے کون ہے رب آسمانوں اور زمین کا یعنی ان کا مدبر اور خالق کون ہے جو ان کو قائم رکھنے والا اور ان کے وجود کو تھامنے والا ہے اور چونکہ اس کا جواب متعین ہے اس لیے آپ جواب میں کہہ دیجئے کہ اللہ ہے یعنی آپ ان کے جواب کا انتظار فرمائیے خود ہی کہہ دیجئے کہ اللہ ہے اس سوال کا صرف یہ ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اس لیے ان کے جواب کا آپ انتظار نہ کیجئے نیز وہ خود بھی خدا کے خالق اور مالک اور مدبر ہونے کے منکر نہیں اے نبی ﷺ ! ان مشرکوں سے پوچھئے کہ کیا پس اس اقرار و اعتراف کے بعد تم نے اللہ کے سوا کارساز پکڑے ہیں جو اپنی ذاتوں کے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کے مالک نہیں تو غیر کی کیا مدد کریں گے پوچھئے کیا اندھا یعنی مشرک اور بینا یعنی مومن برابر ہے یا کفر و شرک کی تاریکیاں اور ایمان کی روشنی برابر ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح اندھا اور بینا اور اندھیرا اور اجالا برابر نہیں اسی طرح مومن اور کافر اور ایمان اور کفر برابر نہیں مومن بینا ہے وہ راہ ھق کو دیکھتا ہے اور کافر اندھا ہے اس کو راہ حق دکھائی نہیں دیتی کیا انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ہیں کہ انہوں نے بھی کسی چیز کو پیدا کیا ہو جیسے خدا نے پیدا کیا پھر اس وجہ سے پیدائش ان کی نظر میں مشتبہ ہوگئی اور شبہ میں پڑگئے کہ یہ بھی خالق ہے اور وہ بھی خالق ہیں ہم کس کو معبود مانیں مطلب یہ ہے کہ کیا ان معبودوں نے بھی کوئی چیز پیدا کی ہے جس سے تم پر اللہ کی مخلوق اور غیر اللہ کی مخلوق مشتبہ ہوگئی ہے اس لیے تم نے ان کو اللہ کا شریک اور ساجھی بنا لیا اور اس اشتباہ کی وجہ سے تم نے غلطی سے کسی چیز کو خالق مان لیا اگر ایسا ہوتا تو ایک حد تک معذور ہوسکتے تھے لیکن جب یہ بات بھی نہیں تو پھر کیا آفت آئی کہ شرک کی بلا میں گرفتار ہوئے یعنی یہ بات تو نہیں پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبود ٹھہرائے ہوئے ہیں اگر مخلوقات عالم میں ذرا غور کریں اور عقلوں سے کام لیں تو تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو پائیں گے اس لیے اے نبی ! آپ ﷺ ان مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی اپنی ذات صفات میں یکتا ہے اور سب پر غالب ہے اور اس کے سوا جو ہے وہ مغلوب ہے اور مغلوب خدا اور معبود نہیں ہوسکتا۔
Top