Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) ۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے
اللہ یعلم ما تحمل کل انثی وما تغیض الارحام وما تزداد اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ مَا تحَْمِلُ (میں مَا مصدری ہے یعنی) حاملہ ہونے کو اللہ جانتا ہے یا (مَا موصولہ ہے یعنی) جس چیز کو مادہ اپنے پیٹ میں اٹھائے ہوتی ہے۔ نر یا مادہ ‘ ایک یا متعدد ‘ پورے سالم اعضاء والا بچہ یا ناقص اور اس کی ہر موجودہ اور آئندہ حالت کو اللہ جانتا ہے۔ تَغِیْض غَاض کا مضارع ہے اور غاض لازم بھی ہے ‘ بمعنی انغاض (باب انفعال) کے اور متعددی بھی ہے ‘ بمعنی اَغَاضَ (باب افعال) کے۔ قاموس میں ہے : غَاضَ الْمَاء پانی کم ہوگیا ‘ گھٹ گیا۔ غَاضَ ثَمَنُ السلعۃِ سامان کی قیمت گھٹ گئی۔ غَاضَ الْمَاءَ وَثَمَنُ السلعۃِ اس نے پانی تھوڑا کردیا ‘ کم کردیا اور سامان کی قیمت گھٹا دی۔ تَزْدَادُط ازداد سے مضارع ہے۔ ازدیاد (افتعال) لازم بھی آتا ہے ‘ جیسے ازداد القَوْم عَلٰی عشرۃ قوم دس افراد سے زیادہ ہوگئی اور متعدی بھی آتا ہے ‘ جیسے ونزداد کیل بعیر ہم ایک بار شتر بڑھا دیں گے۔ اگر دونوں فعلوں کو لازم کہا جائے تو مامصدری ہوگا یعنی ارحام کے گھٹنے اور بڑھنے کو اللہ جانتا ہے۔ رحم کے گھٹنے بڑھنے سے مراد ہے : رحم کے اندر والی چیز کے جثہ ‘ مدت اور تعداد کا گھٹنا بڑھنا اور اگر دونوں فعل متعدی مانے جائیں تو مَا موصولہ بھی ہوسکتا ہے اور مصدریہ بھی۔ مسئلہ : باتفاق علماء حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ ہے۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ‘ چھ مہینے میں عورت کے بچہ پیدا ہوگیا۔ حضرت عثمان نے عورت کو سنگسار کردینے کا حکم دے دیا۔ حضرت ابن عباس (مانع ہوئے اور) فرمایا : کتاب اللہ کی روشنی میں اگر میں تم سے اس مسئلہ میں مناظرہ کروں تو تمہارے پاس جواب نہ ہوگا۔ اللہ نے فرمایا : وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثلٰثُوْنَ شَھْرًا اس کا حالت حمل میں رہنا اور دودھ پینا تیس ماہ ہے۔ دوسری آیت میں آیا ہے : وَفِصَالُہٗ فِی عَامِیْن اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہوتا ہے۔ دونوں آیتوں کے ملانے سے مدت حمل ( کم سے کم) چھ ماہ رہتی ہے۔ حضرت عثمان نے یہ سن کر تعزیری سزا منسوخ کردی۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان نے سزا ساقط کردی اور کسی نے مخالفت نہیں کی تو یہ اجماع (سکوتی) ہوگیا (کہ حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ ہے) کبھی چھ ماہہ بچہ پیدا ہوتا اور زندہ بھی رہتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ مدت حمل دو سال ہے۔ دارقطنی اور بیہقی نے سنن میں ابن المبارک کے طریق سے از داؤد بن عبدالرحمن از ابن جریج از جمیلہ بنت سعد ایک حدیث بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : تکلے کے سایہ کی بقدر بھی کوئی عورت حمل میں دو سال سے آگے نہیں بڑھتی۔ دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے : حمل دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا خواہ زیادتی تکلے کے سایہ کے برابر ہو۔ ایک قول میں امام شافعی و امام مالک کے نزدیک زیادہ سے زیادہ مدت حمل چار سال ہے۔ دوسری روایت میں امام مالک کا قول آیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت حمل پانچ برس ہے۔ حماد بن سلمہ نے کہا : ہرم بن سنان کو ہرم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں چار برس رہا تھا (ہرم بہت زیادہ بوڑھے آدمی کو کہتے ہیں) ۔ بیہقی کا بیان ہے کہ ولید بن مسلم نے امام مالک بن انس سے کہا : مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : عورت کے حمل کی مدت میں دو سال سے تکلے کے سایہ کے بقدر بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ امام مالک نے فرمایا : سبحان اللہ ‘ یہ کون کہتا ہے ؟ میری یہ ہمسائی محمد بن عجلان کی بیوی بہت سچی عورت ہے اور اس کا شوہر بھی بڑا سچا آدمی ہے۔ اس عورت کے تین بطن بارہ سال میں پیدا ہوئے ‘ ہر بطن چار سال میں۔ ابن ہمام نے کہا : ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں جو مدت آئی ہے ‘ وہ (حضرت عائشہ کا قیاس نہیں ہے ‘ ایسے مسائل میں قیاس کو دخل نہیں) صرف سماعی ہے (رسول اللہ ﷺ سے آپ نے ایسا ہی سنا ہوگا) لہٰذا مرفوع کے حکم میں ہے (یعنی حضرت عائشہ کا قول نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے) اور حدیث مرفوع بہرحال محمد بن عجلان کی بیوی کے قول سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اگر حدیث کی نسبت شارع کی طرف صحیح ثابت ہوجائے تو پھر حدیث میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہوسکتا اور ولید بن مسلم کی روایت اگر صحیح بھی ہو اور امام مالک نے ایسا ہی فرمایا ہو اور عورت نے بھی ایسا ہی بیان کیا ہو تب بھی اس میں غلطی کا احتمال ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ چار برس تک (حیض کا) خون نہیں آیا اور چار سال کے بعد بچہ پیدا ہوا تو اس سے یہ یقین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ عورت پورے چار برس حاملہ رہی ؟ ہوسکتا ہے کہ اس کی پاکی کی مدت دو سال یا اس سے زیادہ رہی ہو ‘ پھر دو سال یا اس سے کم مدت حمل والی ہوئی ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ پیٹ کے اندر حرکت ہوتی ہوئی چار سال تک محسوس ہوتی رہی (لامحالہ بچہ ہی حرکت کرتا ہوگا) تو حرکت سے بچہ کے وجود پر بھی استدلال قطعی نہیں ‘ بغیر بچہ کے (صرف ریاح منجمد کی) حرکت بھی ممکن ہے۔ ہم سے بیان کیا گیا تھا کہ ایک عورت نے نو ماہ تک پیٹ میں کسی چیز کی حرکت محسوس کی ‘ اس عرصہ میں خون بھی بند رہا اور پیٹ بھی بڑا ہوگیا۔ جب وضع حمل کا وقت آیا اور دایہ جا کر بیٹھی اور درد ہوئے تو پانی چھوٹ گیا اور رفتہ رفتہ پیٹ لگ گیا اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا ‘ آخر دایہ اٹھ گئی ___ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک عورت کا شوہر چند سال گھر سے غائب رہا ‘ جب واپس آیا تو بیوی کو حاملہ پایا۔ حضرت عمر نے اس عورت کو سنگسار کرا دینے کا ارادہ کیا۔ حضرت معاذ نے فرمایا : امیر المؤمنین ! اگر اس عورت پر آپ کو (شرعی) دسترس ہو بھی تب بھی اس کے پیٹ کے بچہ پر آپ کو کوئی دسترس نہیں ہوسکتی (یعنی اس کو آپ قتل نہیں کرسکتے ‘ جب بچہ پیدا ہوجائے تو عورت کو سنگسار کرا سکتے ہیں) غرض بچہ پیدا ہوا اور ایسا ہوا کہ اس کے دو اگلے دانت بھی نکل آئے تھے۔ اس شخص نے بچہ کو دیکھا تو بولا : قسم ہے رب کعبہ کی ! یہ میرا بچہ ہے (حضرت عمر نے عورت کی سزا منسوخ کردی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دو سال سے زائد مدت حمل حضرت عمر نے تسلیم کرلی) ۔ جواب : یہ سزا کی منسوخی تو اس وجہ سے ہوئی کہ مرد نے اس بچہ کو اپنا بیٹا ہونا تسلیم کرلیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اسی کا بیٹا ہے اور جس کا فراش ہوتا ہے ‘ بچہ اسی کا (شرعاً ) مانا جاتا ہے (خواہ وہ بچہ زناء کا ہی ہو مگر مانا جائے گا شوہر ہی کا) اسی لئے حضرت عمر نے سزا موقوف کردی۔ مسئلہ : ایک بطن میں (ایک جھلی کے اندر) زیادہ سے زیادہ کتنے بچے ہوتے ہیں ‘ اس کی کوئی حد نہیں۔ بعض نے کہا کہ چار بچوں کا ہونا تو معلوم ہوا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : یمن میں مجھ سے ایک شیخ نے بیان کیا تھا کہ اس کی بیوی کے پانچ بطن ہوئے اور ہر بطن میں پانچ پانچ بچے ہوئے۔ میں کہتا ہوں : ہندوستان میں ایک خبر مشہور ہوئی تھی کہ پورب کی طرف قاضی قدوہ کی بیوی کے ایک بطن میں ایک جھلی میں سو بچے ہوئے اور سب زندہ رہے۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل تفسیر کہتے ہیں کہ غیض الارحام حیض ہے جو بچہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر حاملہ کو حیض آنے لگے تو بچہ میں نقصان آجاتا ہے۔ رحم کے اندر حیض کا خون بچہ کی غذا ہے ‘ جب خون آجاتا ہے تو بچہ کی غذا گھٹ جاتی ہے اور بچہ میں نقصان آجاتا ہے اور حمل کی حالت میں حیض بند رہے تو بچہ بڑھتا رہتا ہے اور پورا ہوجاتا ہے۔ پس نقصان سے مراد ہے : بچے کی جسمانی بناوٹ کا نقصان جو خون کے نکلنے سے ہوجاتا ہے اور زیادتی سے مراد ہے : بچہ کی تخلیقی بناوٹ کا پورا ہوجانا جو خون بند رہنے سے ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حاملہ کو حیض ہوجائے تو بچہ کی غذا کم ہوجاتی ہے اور مدت حمل بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ پاکی کے نو ماہ پورے ہوجائیں (تب بچہ پورا پیدا ہوتا ہے) اگر حمل کی حالت میں پانچ دن خون آگیا تو نو ماہ پانچ روز میں بچہ پیدا ہوگا۔ پس غذا کی کمی بیشی سے مدت حمل میں کمی بیشی ہوجاتی ہے۔ حسن بصری نے فرمایا : غیض الارحام سے مراد ہے (حمل کی مدت) نو ماہ سے کم ہونا اور زیادۃ سے مراد ہے نو ماہ سے مدت حمل کا زیادہ ہوجانا۔ بعض نے کہا : نقصان سے مراد ہے : بچہ کا ساقط ہونا اور زیادت کا معنی ہے : بناوٹ کا پورا ہونا۔ وکل شیء عندہ بمقدار اور ہر چیز اللہ کے نزدیک ایک خاص انداز سے (مقرر) ہے۔ یعنی ہر چیز کی اللہ کے علم میں ایک حد معین ہے۔ حد مقرر سے کوئی چیز نہ بڑھ سکتی ہے نہ گھٹ سکتی ہے۔
Top