Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ تعالیٰ وہ ہے جو جانتا ہے وہ جو اٹھاتی ہے ہر مادہ اور جو سکڑتے ہیں رحم اور جو بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک خاص اندازے کے مطابق ہے
(ربط آیات) جیسا کہ سورة ہذا کے تعارف میں بیان ہوچکا ہے ، اس میں بنیادی عقائد ہی کا ذکر ہے ، اللہ نے ابتداء میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو بیان کرنے کے بعد توحید کے دلائل ذکر کیے ، ان دلائل میں سے بعض کا تعلق عالم بالا سے اور بعض کا عالم زیریں سے ہے ، اس کے ساتھ ساتھ قیامت کا مسئلہ بھی سمجھایا گیا ہے اور درمیان میں حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقانیت کا ذکر بھی آگیا ہے اب آج کے درس میں بھی توحید ہی کے دلائل بیان کیے گئے ہیں جن پر غور کر کے انسان مسئلہ توحید کو پہچان سکتا ہے اور اپنے ایمان کو درست کرسکتا ہے ۔ (شکم مادر میں بچے کی کیفیت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اللہ یعلم ما تحمل کل انثی “ اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ اٹھاتی ہے ہر مادہ ، مادہ سے مراد عورت بھی ہوسکتی ہے اور ہر جانور کی مادہ بھی جس کے رحم میں بچہ پیدا ہوتا ہے ، سورة لقمان کی آخری آیت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” ویعلم ما فی الارحام “۔ وہی جانتا ہے ، کہ شکم مادر میں کیا ہے ، مطلب یہ کہ پیدا ہونے والے بچے کی تفصیلات سے نہ تو بچے کی ماں واقف ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص جانتا ہے بلکہ اس کی اصل کیفیت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، موجودہ میڈیکل سائینس اس حد تک تو ترقی کرچکی ہے کہ یہ بتا سکے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی مگر یہ کوئی نہیں بتائیگا کہ پیدا ہونے والا بچہ تام الخلقت ہوگا یا ناقص الخلقت اس کا رنگ کا لا ہوگا یا گورا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بڑا ہو کر سعادت مند ہوگا یا شقی یہ کس وقت پیدا ہوگا ، اس کی عمر کتنی ہوگی ، دولت مند ہوگا یا مفلس ، تعلیم یافتہ ہوگا یا نہیں ، فرمایا ان تمام چیزوں کو اللہ ہی جانتا ہے جو خالق اور مالک ہے اور یہی اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ۔ فرمایا (آیت) ” وما تغیض الارحام وما تزداد “۔ رحم مادر کے سکڑنے اور پھیلنے کو بھی اللہ ہی جانتا ہے ، رحم میں موجود مادے کی مقدار کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ، اس کی مصلحت کو بھی اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ (آیت) ” وکل شیء عندہ بمقدار “۔ ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازے کے مطابق ہوتی ہے ، بعض اوقات رحم میں صرف ایک بچہ ہوتا ہے جب کہ بعض اوقات دو یا زیادہ بھی ہوتے ہیں ، اور بعض اوقات رحم بالکل خالی ہوتا ہے ، عام طور پر صحت مند بچے کے لیے مدت حمل نو ماہ ہوتی ہے مگر بعض اوقات بچہ چھ ماہ پر بھی پیدا ہوجاتا ہے ، بعض حمل قبل از وقت بھی گر جاتے ہیں یہ بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بچہ رحم مادر میں مدت حمل نہیں پوری کرسکا بعض اوقات مدت حمل نو ماہ سے زیادہ بھی ہوجاتی ہے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) تجربات کی بناء پر فرماتے ہیں کہ مدت حمل کے چار سال تک طویل ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں امام شافعی (رح) بھی زیادہ سے زیادہ مدت حمل چار سال تک بتاتے ہیں جب کہ امام مالک (رح) پانچ سال تک کے قائل ہیں ، امام ضحاک (رح) تین یا چار سال تک شکم مادر میں رہے اور پیدائش کے وقت ان کے دانت بھی نکلے ہوئے تھے ، بہرحال مدت حمل کے کم وبیش ہونے کی حکمت کو بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ ایک عورت کے ہاں بیک حمل کتنے بچے پیدا ہوسکتے ہیں تو اس کی کوئی انتہا نہیں ، بعض فرماتے ہیں کہ بیک وقت چار بچے ہو سکتے ہیں اور بعض چھ یا زیادہ کی تعداد بھی متعین کرتے ہیں ، تاہم تجربات اس سے زیادہ کے بھی ہوئے ہیں کسی زمانے میں ہندوستان میں قاضی قدوہ گزرے ہیں ، ان کے متعلق قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں انکشاف کرتے ہیں کہ ان کی بیوی کے ہاں ایک حمل میں سو بچے پیدا ہوئے اللہ کی قدرت وہ سارے کے سارے اپنی طبعی عمر تک زندہ رہے اور حسب معمول مختلف کام کاج کرتے رہے ، بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے اور اس کی مصلحت کے مطابق ہوتا ہے غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ شکم مادر کی کیفیت کو اللہ ہی جانتا ہے ، اور اس کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ ہے ۔ (عالم الغیب والشہادت) آگے ارشاد ہے (آیت) ” علم الغیب والشھادۃ “ وہی اللہ پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں کیونکہ اس کا ارشاد ہے ، (آیت) ” وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ “۔ (یونس) کائنات میں ذرے کے برابر بھی کوئی چیز تیرے رب سے غائب نہیں ہے ، اس کی نظر تو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر چیز پر ہے ، مگر یہاں پر غائب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسان کی نسبت سے غائب ہیں اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔ بعض چیزیں ملائکہ کی نسبت سے بھی غائب ہیں اور بعض ان کے سامنے ہیں ، بعض چیزوں کا احساس انسان کو حواس کے ذریعہ ہوتا ہے اور بعض چیزیں ، وراء المحسوسات ہیں یعنی وہ عقل و حواس سے باہر ہیں ۔ تو بہرحال وہ تمام چیزیں جو انسانوں کی نسبت سے غائب ہیں اور جو چیزیں سامنے ہیں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، عالم الغیب والشہادۃ کا یہی معنی ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات ” الکبیر “ ہے یعنی وہ بہت بڑی ہستی ہے ، اس کی وسعت کو کوئی نہیں جان سکتا اور نہ کوئی اس کے علم اور قدرت کا احاطہ کرسکتا ہے ، خداوند تعالیٰ ” المتعال “ یعنی بہت بلندو برتر ہے ، اس کو ہر قسم کا تصرف حاصل ہے وہ ہمہ دان ، ہمہ بین اور ہمہ تو ان ہے ، وہ قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کا مالک ہے ، لہذا جو چاہے سو کرے ، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ فرمایا (آیت) ” سوآء منکم من اسر القول ومن جھر بہ “ جو کوئی تم میں سے پوشیدہ طور پر کوئی بات کرتا ہے یا ظاہرا کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے لیے سب برابر ہے ، وہ ظاہر اور باطن سب کو جانتا ہے وہ تو (آیت) ” علیم بذات الصدور “۔ ہے جو سینوں کے رازوں سے بھی واقف ہے ، فرمایا اللہ تعالیٰ کے لیے وہ بھی برابر ہے (آیت) ” ومن ھو مستخف باللیل “ جو رات کے وقت چھپنے والا ہے ۔ بعض لوگوں کا کاروبار رات کے وقت شروع ہوتا ہے چور اور بدکار لوگ اپنا کام رات کے وقت انجام دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکیں ، یہ رات کے وقت چھپنے والے لوگ ہیں (آیت) ” وسارب بالنھار “ اور دن کے وقت چلنے والے بھی اللہ کے ہاں برابر ہیں جو لوگ دن کے وقت کاروبار کرتے ہیں گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ، وہ بھی اللہ کے علم میں ہیں ، گویا اس کی نظروں سے رات اور دن میں کوئی بھی غائب نہیں ، وہ سب کو جانتا ہے ، انسان کسی بھی حالت میں ہوں ، اللہ کے نزدیک برابر ہیں ، وہ ان پر نظر رکھتا ہے اور ان کا ضرور محاسبہ کریگا ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفت اور خصوصیت ہے ۔ (اللہ کا حفاظتی نظام) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ “ ہر شخص کے لیے آگے بیچھے آنے والے مقرر ہیں ، اس کے آگے بھی اور پیچھے بھی ، اس سے مراد اللہ کے فرشتے ہیں جو اس نے ہر آدمی کے لیے بطور نگران مقرر کر رکھے ہیں ۔ (آیت) ” یحفظونہ من امر اللہ “۔ وہ اللہ کے حکم کے مطابق اس شخص کی حفاظت کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی دو طرح کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے ، ایک تو ہر شخص کے اعمال کی حفاظت کا کام ہے اور اس کے لیے اللہ نے کراما کاتبین دو فرشتے لگا رکھے ہیں ، دائیں طرف والا نیک اعمال لکھتا ہے اور بائیں طرف والا برے اعمال محفوظ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ، سورة ق میں موجود ہے (آیت) ” مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “۔ جو بھی کلمہ انسان کی زبان سے اچھا یا برا نکلتا ہے ، فرشتے فورا لکھ لیتے ہیں ، یہ فرشتے دن اور رات کے لیے الگ ہوتے ہیں ، دن کے فرشتے عصر کے وقت تبدیل ہوجاتے ہیں اور رات کے فرشتے صبح کی نماز کے وقت چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ دن کے فرشتے ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں ، اسی لیے عصر اور فجر کی دو نمازیں بڑی اہم ہیں کہ ان اوقات میں فرشتے ہر انسان کے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہیں ، بہرحال یہ سلسلہ انسان کے ساتھ عمر بھر قائم رہتا ہے ، پھر جب وہ فوت ہوجاتا ہے تو اس کا مکمل نامہ اعمال اس کے گلے میں لٹکا دیا جاتا ہے جو قیامت کے دن کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا ، اسی طرح گویا ہر انسان کی پوری زندی کا ریکارڈ محفوظ ہوجاتا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ہر عمل کو احاطہ تحریر میں لانے کے علاوہ ان کی شکل و صورت بھی بنائی جاتی ہے ، جب فرشتے بعض اعمال کی شکل بنانے سے عاجز آجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عمل کو اسی طرح لکھ دو ، اس کی شکل و صورت میں خود بنا لوں گا ۔ انسان کے اعمال کے حفاظتی فرشتوں کے علاوہ ہر انسان کے ساتھ بعض ایسے فرشتے بھی مقرر ہیں جو اسے موذی جانوروں ، جنات اور شیاطین کے شر اور ہر قسم کے حوادثات سے محفوظ رکھتے ہیں یہ حفاظت اس وقت تک ہوتی رہتی ہے ، جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے ، پھر جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو حفاظت اٹھا لی جاتی ہے اور فورا کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل حفاظتی نظام قائم کر رکھا ہے جس کے ذریعے ہر شخص کی جان اور اس کے اعمال کی حفاظت کی جاتی ہے اور یہ فریضہ آگے پیچھے یعنی یکے بعد دیگرے آنے والے فرشتے انجام دیتے ہیں ۔ امام ابن جریر (رح) ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) اور امام شاہ ولی اللہ (رح) نے کنانہ عددی کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ ہر انسان کی حفاظت کے لیے کتنے فرشتے مقرر ہیں آپ نے فرمایا کہ دو فرشتے تو دائیں بائیں اعمال کی نگرانی کے لیے مقرر ہیں اور دو آگے پیچھے حفاظت کے لیے ہیں ، فو فرشتے ہر انسان کی آنکھوں پر مقرر ہیں اور دو ہونٹوں پر ایک فرشتہ منہ پر مقرر ہے کہ کوئی خطرناک چیز منہ پر نہ چلی جائے اور ایک فرشتہ پیشانی پر مقرر ہے اس طرح ہر انسان کے ساتھ کل دس فرشتے بنتے ہیں ، لیکن امام ابن جریر (رح) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ جو فرشتے اس کے اعمال اور اس کے جسم کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں ان کی کل تعداد تین سو ساٹھ ہے واللہ اعلم “ یہ روایت ابو یعلی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے جس کے درجے کا کچھ علم نہیں ، بہرحال فرشتوں کی تعداد جو بھی ہو ، اعمال کے حفاظت کنندگان تو نص قرآنی سے ثابت ہیں اور انسان کے جسم کی حفاظت کرنے والوں سے متعلق ان احادیث سے پتہ چلتا ہے یہ سارا حفاظتی نظام اس لیے ہے تاکہ انسانی ذہن میں کوئی الجھن پیدا نہ ہو ، اور پھر جب محاسبے کی منزل آئے گی تو انسان کا ہر قول فعل اور عمل بالکل محفوظ حالت میں پیش کردیا جائے گا ، اور کسی قسم کا اشتباہ نہیں رہنے دیا جائے گا ۔ (اجتماعی حالت کی تبدیلی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان اللہ لایغیر ما بقوم “۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں تبدیل کرتا کسی قوم کی حالت کو (آیت) ” حتی یغیروا ما بانفسھم “۔ یہاں تک کہ وہ تبدیل کریں اس چیز کو جو ان کے نفسوں میں ہے ، یہ سنت اللہ ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اسباب مہیا نہیں کرتی ، اس کی حالت تبدیل نہیں کی جاتی ، اگر کسی قوم کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت عطا کی ہے تو وہ اس وقت تک نہیں چھینتی جب تک قوم اپنے عمل کے ذریعے اس کے چھن جانے کے حالات پیدا نہیں کردیتی ، اسی طرح جب کوئی قوم تکلیف میں ہوتی ہے اور وہ اچھائی چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس قوم کو بہتری کی طرف نہیں لاتے جب تک قوم اپنے اعمال وکردار کے ذریعے ثابت نہیں کردیتی کہ وہ مطلوبہ بھلائی کی اہل بن چکی ہے ، گویا ہر قوم اور فرد کے نتائج اس کے مہیا کردہ اسباب پر مرتب ہوتے ہیں جو قوم خود تو بہتری کی کوشش نہیں کرتی ، ایسے اقدام نہیں کرتی جو اسے ترقی کی طرف لے جائیں تو پھر خالی دعاؤں سے تو اللہ تعالیٰ ان کی مراد پوری نہیں کرتا ، جب تک وہ خود اس کے لیے تگ ودو نہ کریں ۔ مسلمانوں کی اجتماعی حالت تاتاریوں کے زمانہ سے زوال پذیر ہے اور آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود یہ قوم کسی ٹھکانے پر لگتی نظر نہیں آتی اس وقت مسلمانوں کا پورا نظام بگڑ چکا ہے ، فواحش خواہشات اور خود غرضی کا دور دوراہ ہے جسے مسلمان ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ، ہر شخص آرام طلب ہوچکا ہے ، محنت سے جی چراتا ہے عباسیوں کو اسی آرام طلبی اور حب مال وجاہ نے تباہ کیا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں انفرادی طور پر تو بڑے اچھے لوگ بھی موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے مگر ان کی اجتماعی حالت ٹھیک نہیں ہے ، صفین کے واقعہ تک اور پھر کچھ عرصہ بعد تک بھی مسلمان اجتماعی حیثیت سے قابل رشک تھے مگر بعد میں خود غرضی کی وجہ سے ان کی حالت کافروں سے بھی بدتر ہوگئی ہے پورے یورپ اور امریکہ میں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا ، مگر ہمارے ایشائی ممالک میں ہر گلی کوچے اور بازار میں بھکاری آپ کا پیچھا کرتے ہیں ، انگریزوں میں فحاشی اور عیاشی ضرور ہے ، مگر بھکاری کوئی نہیں ، کیونکہ وہ ہر بیکار آدمی کو گزارہ الاؤنس دیتے ہیں مادی ترقی کا جذبہ بھی مسلمانوں کی نسبت کافروں میں بہت زیادہ ہے جاپانی اپنے ملک کی خاطر بم لے کر چمنیوں میں کود گئے وہ لوگ محنت کے عادی ہیں ، وقت کو ضائع نہیں کرتے جب کہ ان کے مقابلے میں مسلمان کھیل کود کے دلدادہ ہیں ، فضول رسومات ، لڑائی جھگڑا ، بداخلاقی مسلمانوں کے مشاگل ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ذلت میں مبتلا اور اغیار کے دست نگر ہیں ، اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جب تک مسلمان خود اس حالت کو بدلنے کو کوشش نہیں کریں گے ، اللہ تعالیٰ بھی اس قبیح حالت کو تبدیل نہیں کرے گا ۔ فرمایا (آیت) ” واذا اراد اللہ بقوم سوء ا “۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے لیے خود قوم ایسے اسباب پیدا کرلیتی ہے ، تو فرمایا (آیت) ” فلا مردلہ “ تو اس برائی کو پھر کوئی ٹال نہیں سکتا ، پھر وہ ذلت کے گڑھے میں ہی گرتے ہیں ، (آیت) ” وما لھم من دونہ من وال “۔ پھر ان کے لیے خدا تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار اور کا رساز بھی نہیں ہوتا ، وہ لاکھ شرکیہ عقائد کو اپنائیں ، غیر اللہ سے مدد مانگیں ، مگر ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوگی اور کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرسکے گا ۔
Top