Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور آپ سے پہلے ہم نے صرف مردوں کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، سو تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے
ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کریں ان آیات میں اول تو یہ بیان فرمایا کہ ہم نے پہلے جن کو رسول بنا کر بھیجا وہ انسان ہی تھے مشرکین مکہ کو یہ بات مستبعد معلوم ہو رہی ہے کہ ان کے پاس جو رسول آیا وہ انسان ہے حالانکہ رسول اور بشر ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے بلکہ انسانوں کی طرف انسان ہی کا مبعوث ہونا حکمت اور مصلحت کے مطابق ہے پھر فرمایا (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) مفسرین نے فرمایا ہے کہ اہل الذکر سے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مراد ہیں مشرکین مکہ تجارت کے لیے سال میں دو مرتبہ شام جایا کرتے تھے اور مدینہ منورہ میں یہودیوں پر ان کا گزر ہوتا تھا اور راستے میں نصرانیوں کے راہبوں سے بھی ملاقات ہوتی تھی جو جنگلوں میں رہتے تھے اور شام میں نصرانیوں کی حکومت تھی وہاں نصرانی بہت تھے ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ مشرکین مکہ جانتے تھے کہ یہودی اور نصرانی دین سماوی کے مدعی ہیں اسی لیے انہوں نے مدینے کے یہودیوں سے معلوم کیا تھا کہ ہم صحیح راہ پر ہیں یا محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی ہدایت پر ہیں، جس کا ذکر سورة نساء رکوع 8 میں گزر چکا ہے، اہل مکہ انہیں صاحب علم سمجھتے تھے اس لیے فرمایا کہ تم یہود و نصاریٰ سے معلوم کرلو سابقین انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان تھے یا فرشتے تھے یا اور کسی جنس سے تھے ان سے پوچھو گے تو یہی بتائیں گے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے جو نبی اور رسول آتے تھے وہ سب بشر تھے اور آدمی ہی تھے، مشرکین اور یہود و نصاریٰ کا مذہب ایک نہیں تھا لیکن مشرکین چونکہ انہیں اہل علم سمجھتے تھے اس لیے ارشاد فرمایا کہ ان سے پوچھ لو۔
Top