Dure-Mansoor - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور آپ سے پہلے ہم نے صرف مردوں کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، سو تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے
1:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب کے لوگوں نے اس کا انکار کیا اور ان میں سے جنہوں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بلند تر ہے کہ ان کا رسول ایک بشر ہو محمد ﷺ کی طرح تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منہم “ (یونس آیت 2) نازل فرمائی اور (مزید) فرمایا (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیہم فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “ یعنی پوچھ لوجاننے والوں سے اور پہلے کتابوں کے حاملین سے کیا رسول بشر تھے جو ان کے پاس آئے یا فرشتے تھے ؟ اگر وہ فرشتے تھے تو تمہارے پاس بھی فرشتے آتے اور اگر وہ بشر تھے تو پھر اس کے رسول ہونے کا انکار نہ کرو پھر فرمایا (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیہم من اھل القری “ یوسف آیت 109) یعنی وہ آسمان والوں میں سے نہ تھے جیسے تم نے کہا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا “ سے مراد ہے کہ عرب کے لوگوں نے کہا (آیت) ” لولا انزل علینا الملائکۃ “ (المائدہ آیت 73) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے بشر کو ہی رسول بنا کر بھیجا ہے (فرمایا) (آیت) ” فسئلوا “ اے عرب کے گروہ (پوچھ لو) (آیت) ” اھل الذکر “ یعنی ان اہل کتاب یہودیوں اور نصاری سے جن کے پاس تم سے پہلے رسول آئے تھے (آیت) ” ان کنتم لا تعلمون “ ( اگر تم نہیں جانتے) اور وہ رسول جو محمد ﷺ سے پہلے تھے وہ ان کی طرح بشر تھے اور وہ لوگ عنقریب تم کو خبر دیں گے کہ وہ (سب کے سب) ان کی طرح بشر تھے۔ اہل علم سے دینی مسائل پوچھنے کا حکم : 3:۔ فریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر “ یعنی اے قریش کے مشرکین تم اہل کتاب سے پوچھ لو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تورات میں اور انجیل میں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر “ عبداللہ بن سلام اور اہل تورات کے چند افراد کے بارے میں نازل ہوئی یہ لوگ اہل کتاب تھے ان سے پوچھ لو (آیت) ” ان کنتم لا تعلمون “ (یعنی اگر تم نہیں جانتے) ایک آدمی البتہ نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج اور عمرہ بھی کرتا ہے حالانکہ وہ منافق ہے پوچھا گیا اے اللہ کے رسول کس وجہ سے اس پر نفاق داخل ہوتا ہے آپ نے فرمایا وہ اپنے امام پر طعن کرتا ہے اور اس کا امام وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون “۔ 5:۔ ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عالم کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون “۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے علم کو پہچانے کہ وہ ہدایت پر ہے یا اس کے خلاف ہے۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بالبینت “ سے مراد ہیں آیات ” والزبر “ سے مراد ہے کتابیں۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ (آیت) ” بالبینت والزبر “ میں (آیت) ” البینت “ سے مراد ہے حلال اور حرام ہے جس کو انبیاء لے کر آئے (آیت) ” والزبر “ سے مراد ہے انبیاء کی کتابیں (آیت) ” وانزلنا الیک الذکر “ سے مراد ہے قرآن شریف۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” لتبین للناس مانزل الیہم “ کے بارے میں فرمایا کہ (ان کو بیان کریں) جو ان کے حلال کی گئیں اور جو ان پر حرام کی گئیں۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لتبین للناس مانزل الیہم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی طرف بھیجا تاکہ وہ اس کو دلیل بنالیں ان پر۔ 10:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولعلہم یتفکرون “ یعنی (شاید کہ وہ) اطاعت کریں۔ 11:۔ حاکم نے (اور اس کو صحیح بھی کہا) حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان رسول ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم کو خبر دی جو قیامت کے قائم ہونے تک ہوگا ہم میں سے جس نے اس کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو اس کو بھول گیا وہ اس کو بھول گیا۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” افامن الذین مکروا السیات “ سے مراد نمرود بن کنعان اور اس کی قوم ہے۔ 13:۔ ابن شبیہ ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” افامن الذین مکروا السیات “ سے مراد شرک ہے۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے (آیت) ” افامن الذین مکروا السیات “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کو رسولوں کو جھٹلانا اور ان کا گناہوں کو کرنا مراد ہے۔ 15:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم فی تقلبہم “ یعنی ان کے اختلاف میں۔ 16:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم فی تقلبہم “ سے مراد ہے کہ اگر میں چاہوں اسے سفر میں پکڑلوں (اور فرمایا) (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ یعنی اگر میں چاہوں تو اس کو پکڑ لوں اس کے ساتھ کی موت کے پیچھے اور وہ اس سے خوف زدہ ہیں۔ 17:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم فی تقلبہم “ یعنی ان کے سفروں میں (پکڑلوں ) ۔ 18۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم فی تقلبہم “ یعنی ہر حال پر جس پر وہ ہوں رات اور دن کو (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ یعنی بعض کو عذاب کے ساتھ پکڑنے اور بعض کو چھوڑنے سے اور یہ اس وجہ سے کہ وہ ایک بستی کو عذاب دیتے ہیں اور دوسری کو چھوڑ دیتے ہیں۔ 19:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ سے مراد ہے کہ کم کردیتے ہیں ان کے اعمال میں سے۔ 20:۔ ابن جریر نے عطاء الخراسانی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ اور انہوں نے کہا ہم نہیں دیکھتے مگر کہ کمی کرنے کے وقت ہم اس کو لوٹاتے ہیں آیات میں سے عمر ؓ نے فرمایا میں نہیں دیکھتا مگر جو تم کمی کرتے ہو اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ایک آدمی حضرت عمر ؓ کے پاس سے نکلا ان لوگوں میں سے جو عمر ؓ کے پاس تھے توا یک دیہاتی سے ملا اس نے کہا اے فلاں تیرے رب نے کیا کہا ؟ اس نے کہا اس نے کمی کردی اور وہ آدمی عمر ؓ کے پاس لوٹا اور ان کو تخوف کے معنی کمی کرنا بتلایا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر کیا تھا۔ 21:۔ ابن ابی شبیہ، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو پکڑے گا ان کے بعض کے حق میں کمی کرنے کی وجہ سے بعض سے۔ 22:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” التخوف “ سے مراد ہے کم کرنا بعض وہ کمی کریں گے ان کے شہروں اور ان کے اطراف میں۔ 23:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اولم یروا الی ما خلق اللہ من شیء یتفیوا ظللہ عن الیمین والشمآئل سجدا للہ “ یعنی ہر چیز کا سایہ سجدہ کرتا ہے۔ ” فالیمین “ دن کا اول حصہ ” والشمآئل “ دن کے آخری حصہ میں۔ 24:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اولم یروا الی ما خلق اللہ من شیء یتفیوا ظللہ “ یعنی جب سایہ ڈھلتا ہے تو ہر چیز متوجہ ہوجاتی ہے سجدہ کرتے ہوئے اللہ کے لئے قبلہ کی طرف حتی کہ بیت وشجر بھی اور فرمایا کہ وہ لوگ اس وقت نماز کا پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں۔ ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے : 25:۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب سایہ ڈھلتا ہے تو کوئی چیز باقی نہیں رہتی جانور میں سے اور نہ پرندے میں سے مگر وہ گرپڑتا ہے اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے۔ 26:۔ عبد بن حمید، ترمذی، ابن منذر اور ابوالشیخ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظہر کی نماز سے پہلے اور زوال کے بعد چار رکعت نماز تہجد کے برابر شمار ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے مگر وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اس وقت میں پھر آپ نے یہ آیت یتفیوا ظللہ عن الیمین والشمآئل سجدا للہ “ تلاوت فرمائی۔ 27:۔ ابن ابی شیبہ نے سعد بن ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت کے بارے میں فرمایا ہر چیز کا سایہ ہے اور ہر چیز کا سجدہ ہے اس کے خیال میں ہے (یعنی خیال کے طور پر وہ سجدہ میں ہے) 28:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں فرمایا ہر چیز کا سایہ ہے اور ہر چیز کا سجدہ ہے اس کے خیال میں ہے (یعنی خیال کے طور پر وہ سجدہ میں ہے) 29:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب سورج ڈھلتا ہے ہر چیز اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے۔ 30:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ (آیت) ” یتفیوا ظللہ عن الیمین والشمآئل “ سے صبح کا وقت اور شام کا وقت مراد ہے جب ہر چیز کا سایہ ڈھل جاتا ہے لیکن صبح کا سایہ تو وہ دائیں طرف سے ہوتا ہے اور سایہ شام بائیں طرف سے ہوتا ہے جب ہوتا ہے جب صبح ہوتی ہے تو (ہر چیز) اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے اور جب شام ہوتی ہے تو (ہر چیز) اس کے لئے سجدہ کرتی ہے۔ 31:۔ ابن ابی حاتم نے ابو غالب شیبانی (رح) سے روایت کیا کہ سمندر کی موجیں سمندر کی نماز ہے۔ 32:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” دخرون “ سے مراد ہے کہ وہ عاجز ہوں گے۔ 33:۔ عبدالرزاق ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھم داخرون “ سے مراد ہے کہ وہ عاجز ہوں گے۔
Top