Al-Qurtubi - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے۔ اگر لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔
آیت نمبر 43 تا 44 قولہ تعالیٰ : وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم قرأۃ العامہ یوحی یعنی یا کے ساتھ اور حا کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ اور حفص نے حضرت عاصم (رح) سے نوحی الیھم نون عظمت اور ھا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جس وقت انہوں نے حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا اور کہا : اللہ تعالیٰ اس سے عظیم تر ہے کہ اس کا رسول بشر (انسان) ہو پس اس نے ہماری طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ ان کا جواب دیا : وما ارسلنا من قبلک اے محمد ! ﷺ ہم نے آپ سے پہلے بھی امم ماضیہ کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجے مگر آدمی (یعنی مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا ہے) ۔ فسئلوا اھل الذکر حضرت سفیان نے کہا ہے : یعنی تم ان سے پوچھ لو جو اہل کتاب میں سے مومن ہیں، ان کنتم لا تعلمون اگر تم خود نہیں جانتے تو وہ تمہیں خبر دیں گے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) بشر (انسان) تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے پس تم اہل کتاب سے دریافت کرلو سو اگرچہ وہ ایمان نہیں لائے لیکن وہ یہ اعتراف کریں گے کہ رسل (علیہم السلام) بشر تھے۔ اس کا معنی حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت مجاہد ؓ سے مروی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اہل ذکر سے مراد اہل قرآن ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اہل علم ہیں۔ اور یہ دونوں قریب المعنی ہیں۔ بالبینت والزبر کہا گیا ہے : بالبینت، ارسلنا کے متعلق ہے۔ اور کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ ای ما أرسلنا من قبلک بالبینات والزبر الارجالا ای غیر رجال (یعنی ہم نے آپ سے پہلے واضح نشانیاں اور کتابیں سوائے مردوں کے نہیں بھیجیں) پس اس میں الا بمعنی غیر ہے، جیسا کہ اس قول میں ہے : لا الہ الا اللہ ای غیر اللہ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں) اور یہ کلبی (رح) کا قول ہے۔ ہم ان کے طرف وحی بھیجتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کلام میں حذف ہے اور اس پر ارسلنا دلالت کرت ا ہے۔ ای أرسلنا ھم بالبینات والزبر (یعنی ہم نے انہیں واضح نشانیوں کے ساتھ اور کتابوں کے ساتھ بھیجا) ۔ اس قول کی بنا پر بالبینت کا پہلے ارسلنا کے ساتھ تعلق نہیں ہوگا کیونکہ الا کا ماقبل اس کے مابعد میں عمل نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اس کا تعلق ارسلنا مقدرہ کے ساتھ ہوگا، یعنی أرسلنا ھم بالبینات۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تعلمون کا مفعول ہے اور بازائدہ ہے، یا اسے اعنی کو مضمر مان کر نصب دی گئی ہے۔ جیسا کہ اعشی نے کہا ہے : ولیس مجیرا ان أتی الحی خائف ولا قائلا الا ھو المتعیبا ای اعنی المتعیب (یعنی اعنی فعل کے سبب یہ منصوب ہے) اعر البینات کا معنی دلائل وبراہین ہیں۔ اور الزبر سے مراد کتب ہیں۔ اس کا ذکر آل عمران میں ہوچکا ہے۔ وانزلنا الیک الذکر سے مراد قرآن حکیم ہے۔ (اور ہم نے آپ کی طرف قرآن کریم نازل کیا) لتبین للناس ما نزل الیھم تاکہ آپ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو کھول کر بیان کریں اس کتاب میں موجود احکام اور وعدو وعید جوان کی طرف نازل کی گئی ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی مراد اور مفہوم کو کھول کر بیان کرنے والے اور وضاحت کرنے والے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مجمل ذکر کیا ہے مثلا نماز اور زکوٰۃ کے احکام اور علاوہ ازیں وہ چیزیں جنہیں مفصل ذکر نہیان کیا۔ یہ مکمل بحث مقدمۃ الکتاب میں گزر چکی ہے۔ والحمد للہ۔ ولعلھم یتفکرون تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
Top