Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے یہی مرد بھیجے تھے کہ حکم بھیجتے تھے ہم ان کی طرف سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں
خلاصہ تفسیر
اور (یہ منکر لوگ جو آپ کی رسالت ونبوت کا اس بناء پر انکار کر رہے ہیں کہ آپ بشر اور انسان ہیں اور نبی و رسول ان کے نزدیک کوئی انسان و بشر نہ ہونا چاہئے یہ ان کا جاہلانہ خیال ہے کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی صرف آدمی ہی رسول بنا کر معجزات اور کتابیں دے کر بھیجے ہیں کہ ان پر وحی بھیجا کرتے تھے (تو اے مکہ والو منکرین) اگر تم کو علم نہیں تو دوسرے اہل علم سے پوچھ دیکھو (جن کو انبیاء سابقین کے حالات کا علم ہو اور وہ تمہارے خیال میں بھی مسلمانون کی طرفداری نہ کریں اور اسی طرح آپ کو بھی رسول بنا کر) آپ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جو ہدایات آپ کے واسطے سے) لوگوں کے پاس بھیجی گئی ہیں وہ ہدایات آپ ان کو واضح کر کے سمجھا دیں اور تاکہ وہ ان میں غور وفکر کیا کریں۔

معارف و مسائل
روح المعانی میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مشرکین مکہ نے اپنے قاصد مدینہ طیبہ کے یہود کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجے کہ کیا یہ بات واقعی ہے کہ پہلے بھی سب انبیاء (علیہم السلام) جنس بشر و انسان سے ہوتے آئے ہیں۔
اگرچہ لفظ اہل الذکر میں اہل کتاب اور مؤمنین سب داخل تھے مگر یہ ظاہر ہے کہ مشرکین کا اطمینان غیر مسلموں ہی کے بیان سے ہوسکتا تھا کیونکہ وہ خود رسول کریم ﷺ کی بات پر مطمئن نہیں تھے تو دوسرے مسلمانوں کی بات کیسے مان سکتے تھے۔
اَهْلَ الذِّكْر لفظ ذکر چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی علم کے بھی ہیں اسی مناسبت سے قرآن کریم میں تورات کو بھی ذکر فرمایا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اور قرآن کریم کو بھی ذکر کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ میں قرآن مراد ہے اس لئے اہل الذکر کے لفظی معنی اہل علم کے ہوئے اور یہاں اہل علم سے کون لوگ مراد ہیں اس میں ظاہر یہ ہے کہ علمائے اہل کتاب یہود و نصاری مراد ہیں یہ قول ابن عباس حسن السدی وغیرہ کا ہے اور بعض حضرات نے اس جگہ بھی ذکر سے قرآن مراد لے کر اہل الذکر کی تفسیر اہل قرآن سے کی ہے اس میں زیادہ واضح بات رمانی، زجاج، ازہری کی ہے وہ کہتے ہیں المراد باہل الذکر علماء اخبار الامم السالفتہ کائنا من کان فالذکر بمعنی الحفظ کانہ قیل اسالوا المطلعین علی اخبار الامم یعلموکم بذلک اس تحقیق کی بناء پر اس میں اہل کتاب بھی داخل ہیں اور اہل قرآن بھی۔
بینات کے معنی معروف ہیں اور مراد اس سے یہاں معجزات ہیں، زبر دراصل زبرہ کی جمع ہے جو لوہے کے بڑے ٹکڑوں کے لئے بولا جاتا ہے اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ٹکڑوں کو جوڑنے کی مناست سے لکھنے کو زبر کہا جاتا ہے اور لکھی ہوئی کتاب کو زبر اور زبور بولتے ہیں یہاں مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں تورات انجیل زبور قرآن سب داخل ہیں ،
ائمہ مجتہدین کی تقلید غیر مجتہد پر واجب ہے
آیت مذکورہ کا یہ جملہ (آیت) فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ اس جگہ اگرچہ ایک خاص مضمون کے بارے میں آیا ہے مگر الفاظ عام ہیں جو تمام معاملات کو شامل ہیں اس لئے قرآنی اسلوب کے اعتبار سے درحقیقت یہ اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی ہے نقلی بھی کہ جو لوگ احکام کو نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں اسی کا نام تقلید ہے یہ قرآن کا واضح حکم بھی ہے اور عقلا بھی اس کے سوا عمل کو عام کرنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی امت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک بلا اختلاف اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے جو تقلید کے منکر ہیں وہ بھی اس تقلید کا انکار نہیں کرتے کہ جو لوگ عالم نہیں وہ علماء سے فتوی لے کر عمل کریں اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن و حدیث کے دلائل بتلا بھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی انہی علماء کے اعتماد پر قبول کریں گے ان میں خود دلائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت تو ہے نہیں اور تقلید اسی کا نام ہے کہ نہ جاننے والا کسی جاننے والے کے اعتماد پر کسی حکم کو شریعت کا حکم قرار دے کر عمل کرے یہ تقلید وہ ہے جس کے جواز بلکہ وجوب میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں البتہ وہ علماء جو خود قرآن و حدیث کو اور مواقع اجماع کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو ایسے احکام میں جو قرآن و حدیث میں صریح اور واضح طور پر مذکور ہیں اور علماء صحابہ وتابعین کے درمیان ان مسائل میں کوئی اختلاف بھی نہیں ان احکام میں وہ علماء براہ راست قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کریں ان میں علماء کو کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں لیکن وہ احکام و مسائل جو قرآن وسنت میں صراحۃ مذکور نہیں یا جن میں آیات قرآن اور روایات حدیث میں بظاہر کوئی تعارض نظر آتا ہے یا جن میں صحابہ وتابعین کے درمیان قرآن وسنت کے معنی متعین کرنے میں اختلاف پیش آیا ہے یہ مسائل و احکام محل اجتہاد ہوتے ہیں ان کو اصطلاح میں مجتہد فیہ مسائل کہا جاتا ہے ان کا حکم یہ ہے کہ جس عالم کو درجہ اجتہاد حاصل نہیں اس کو بھی ان مسائل میں کسی امام مجتہد کی تقلید ضروری ہے محض اپنی ذاتی رائے کے بھروسہ پر ایک آیت یا روایت کو ترجیح دے کر اختیار کرنا اور دوسری آیت یا روایت کو مرجوع قرار دے کر چھوڑ دینا اس کے لئے جائز نہیں۔
اسی طرح جو احکام قرآن وسنت میں صراحۃ مذکور نہیں ان کو قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول سے نکالنا اور ان کا حکم شرعی متعین کرنا یہ بھی انہی مجتہدین امت کا کام ہے جن کو عربی زبان عربی لغت اور محاورات اور طریق استعمال کا نیز قرآن وسنت سے متعلقہ تمام علوم کا معیاری علم اور ورع وتقوی کا اونچا مقام حاصل ہو جیسے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ شافعی، مالک احمد بن حنبل یا اوزاعی فقیہ ابواللیث وغیرہ جن میں اللہ تعالیٰ نے قرب زمانہ نبوت اور صحبت صحابہ وتابعین کی برکت سے شریعت کے اصول و مقاصد سمجھنے کا خاص ذوق اور منصوص احکام سے غیر منصوص کو قیاس کر کے حکم نکالنے کا خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا ایسے مجتہد فیہ مسائل میں عام علماء کو بھی ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید لازم ہے ائمہ مجتہدین کے خلاف کوئی نئی رائے اختیار کرنا خطاء ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت کے اکابر علماء محدثین وفقہا امام غزالی، رازی، ترمذی، طحاوی مزنی ابن ہمام ابن قدامہ اور اسی معیار کے لاکھوں علماء سلف وخلف باوجود علوم عربیت وعلوم شریعت کی اعلیٰ مہارت حاصل ہونے کے ایسے اجتہادی مسائل میں ہمیشہ ائمہ مجتہدین کی تقلید ہی کے پابند رہے ہیں سب مجتہدین کے خلاف اپنی رائے سے کوئی فتوی دینا جائز نہیں سمجھا البتہ ان حضرات کو علم وتقوی کا وہ معیاری درجہ حاصل تھا کہ مجتہدین کے اقوال وآراء کو قرآن وسنت کے دلائل سے جانچتے اور پرکھتے تھے پھر ائمہ مجتہدین میں جس امام کے قول کو وہ کتاب وسنت کے ساتھ اقرب پاتے اس کو اختیار کرلیتے تھے مگر ائمہ مجتہدین کے مسلک سے خروج اور ان سب کے خلاف کوئی رائے قائم کرنا ہرگز جائز نہ جانتے تھے تقلید کی اصل حقیقت اتنی ہی ہے۔
اس کے بعد روز بروز علم کا معیار گھٹتا گیا اور تقوی و خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتباع ہوی میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا بلکہ اپنی اغراض واہوا کا اتباع ہوگا جو باجماع امت حرام ہے علامہ شاطبی نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کام کیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاوی میں باجماع امت حرام کہا ہے اس لئے متاخرین فقہا نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی تقلید کا پابند کرنا چاہئے یہیں سے تقلید شخصی کا آغاز ہوا جو درحقیقت ایک انتظامی حکم ہے جس سے دین کا انتظام قائم رہے اور لوگ دین کی آڑ میں اتباع ہوی کے شکار نہ ہوجائیں اس کی مثال بعینہ وہ ہے جو حضرت عثمان غنی نے باجماع صحابہ قرآن کے سبعۃ احرف (یعنی سات لغات) میں سے صرف ایک لغت کو مخصوص کردینے میں کیا کہ اگرچہ ساتوں لغات قرآن ہی کے لغات تھے جبرئیل امین کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئے مگر جب قرآن کریم عجم میں پھیلا اور مختلف لغات میں پڑھنے سے تحریف قرآن کا خطرہ محسوس کیا گیا تو باجماع صحابہ مسلمانوں پر لازم کردیا گیا کہ صرف ایک ہی لغت میں قرآن کریم لکھا اور پڑھا جائے حضرت عثمان غنی ؓ نے اسی ایک لغت کے مطابق تمام مصاحف لکھوا کر اطراف عالم میں بھجوائے اور آج تک پوری امت اسی کی پابند ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے لغات حق نہیں تھے بلکہ انتظام دین اور حفاظت قرآن از تحریف کی بناء پر صرف ایک لغت اختیار کرلیا گیا اسی طرح ائمہ مجتہدین سب حق ہیں ان میں سے کسی نے اختیار کی ہے اس کے نزدیک دوسرے ائمہ قابل تقلید نہیں بلکہ اپنی صواب دید اور اپنی سہولت جس امام کی تقلید میں دیکھی اس کو اختیار کرلیا اور دوسرے ائمہ کو بھی اسی طرح واجب الاحترام سمجھا۔
اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بیمار آدمی کو شہر کے حکیم اور ڈاکٹروں میں سے کسی ایک ہی کو اپنے علاج کے لئے متعین کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ بیمار اپنی رائے سے کبھی کسی ڈاکٹر سے پوچھ کر دوا استعمال کرے کبھی کسی دوسرے سے پوچھ کر یہ اس کی ہلاکت کا سبب ہوتا ہے وہ جب کسی ڈاکٹر کا انتخاب اپنے علاج کے لئے کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ دوسرے ڈاکٹر ماہر نہیں یا ان میں علاج کی صلاحیت نہیں ،
حنفی، شافعی، مالکی حنبلی کی جو تقسیم امت میں قائم ہوئی اس کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہ تھی اس میں فرقہ بندی اور گروی بندی کا رنگ اور باہمی جدال وشقاق کی گرم بازاری نہ کوئی دین کا کام ہے نہ کبھی اہل بصیرت علماء نے اسے اچھا سمجھا ہے بعض علماء کے کلام میں علمی بحث و تحقیق نے مناظرانہ رنگ اختیار کرلیا اور بعد میں طعن وطنز تک نوبت آگئی پھر جاہلانہ جنگ وجدال نے وہ نوبت پہنچا دی جو آج عموما دینداری اور مذہب پسندی کا نشان بن گیا فالی اللہ المشتکی ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
تنبیہ
مسئلہ تقلید و اجتہاد پر کچھ یہاں لکھا گیا وہ اس مسئلہ کا بہت مختصر خلاصہ ہے جو عام مسلمانوں کے سمجھنے کے لئے کافی ہے عالمانہ تحقیقات وتفصیلات اصول فقہ کی کتابوں میں مفصل موجود ہیں خصوصا کتاب الموافقات علامہ شاطبی جلد رابع باب الاجتہاد اور علامہ سیف الدین آمدی کی کتاب احکام الاحکام جلد ثالث القاعدۃ الثالثۃ فی المجتہدین، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتابیں حجۃ اللہ البالغہ اور رسالہ عقد الجید اور آخر میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد اس مسئلے میں خاص طور سے قابل دید ہیں اہل علم ان کی طرف مراجعت فرمائیں
Top