Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی تو انسان ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے پھر اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو یاد رکھنے والوں (اہل علم) سے پوچھ دیکھو
وما ارسلنا من قبلک الخ ان آیتوں میں پھر اسی بات کی طرف رجوع ہے کہ جس کی وجہ سے مشرکین عرب مسلمانوں اور نبی (علیہ السلام) کو تکلیفیں دیتے تھے جن پر صبر اور برداشت اور توکل کا ان کو پچھلی آیت میں حکم دیا گیا تھا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ عرب کے لوگ حضرت ﷺ کا وعظ سن کر جس میں حرام اور ناپاک اور مکروہ افعال کی مذمت اور بت پرستی کی قباحت اور مکارم اخلاق کی تاکید تھی یہ کہتے تھے کہ اگر خدا کو ہمیں سمجھانا ہی مقصود تھا تو ہمارے پاس آسمان سے فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا ؟ چناچہ یہ شبہ ان کا مع الجواب قرآن مجید میں اور مقامات پر بھی ذکر ہوا ہے۔ اب اس شبہ کا اس آیت میں یوں جواب دیتا ہے کہ چند در چند اسرار مصالح کی وجہ سے ہمیشہ انسان ہی رسول ہوتے آئے ہیں اور وہ ہی خدا کے صحیفے اور معجزات لائے ہیں اگر تمہیں یہ بات معلوم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ دیکھو اور اسی لیے ہم نے اے محمد ﷺ آپ پر بھی ذکر یعنی قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کو آپ احکامِ الٰہی بتا دیں اور آیات قدرت سے نصیحت حاصل کرنا سکھا دیں اور تاکہ وہ خود بھی فکروغور کریں۔ فوائد : (1) فسئلوا اھل الذکر میں علماء کے کئی قول ہیں۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں اہل تورات یعنی یہود مراد ہیں۔ زجاج کہتے ہیں عموماً اہل کتاب مراد ہیں کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ پہلے انبیاء بھی انسان تھے اور عرب کے مشرک اہل کتاب کو اہل الذکر یعنی اہل علم سمجھتے تھے اس لیے ان سے دریافت کرنے کا حکم دیا بعض کہتے ہیں عموماً اہل علم مراد ہیں۔ (2) اس آیت سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت تورات یا انجیل اہل کتاب کے پاس بلاتحریف موجود تھی جیسا کہ ظاہر ہے۔ (3) بالبینات والزبر ارسلنا کے ساتھ متعلق ہے جیسا کہ آیت کا سیاق اور سباق چاہتا ہے نہ کہ فاسئلوا سے۔ (4) اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی بات خصوصاً شرعی مسئلہ ازخود معلوم نہ ہو تو جو اس کو جانتا ہے اس سے دریافت کرلینا چاہیے۔ یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ دریافت کرنے میں کسی کی خصوصیت نہیں کہ کس سے دریافت کرے کوئی اہل علم خواہ روایات احادیث و اقوال علمائِ سلف صحابہ وتابعین و تبع تابعین سے ماہر اور ان سے جواب دے خواہ قرآن و احادیث سے استنباط کر کے۔ اصول فقہ میں علماء نے اس بات کو طے کردیا ہے کہ اول قرآن سے ‘ پھر احادیث سے ‘ پھر اجماع سے حجت پکڑی جاتی ہے اور پھر جب کوئی مسئلہ صاف طور پر نہ قرآن میں ملے نہ احادیث میں نہ اجماع سے ثابت ہو تو پھر استنباط کی ضرورت ہے اور استنباط خود پیغمبر (علیہ السلام) نے بھی کیا ہے اور صحابہ ؓ نے بھی۔ اس لیے دین میں استنباط بھی ایک مستند چیز مانی گئی اور ضرور ماننی چاہیے کیونکہ بغیر اس کے قرآن مجید تفصیلاً لکل شیء نہیں ہوسکتا، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ استنباط کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور اس کے شروط بھی ہیں اور استنباط کو فقہاء قیاس بھی کہتے ہیں پس جو استنباط نہ کرسکتا ہو اس مسئلہ میں جو اس کو کتاب و سنت و اجماع میں نہ ملے تو مستنبط یعنی مجتہد سے پوچھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کو تقلید شرعی کہتے ہیں جس کی ضرورت سمجھی گئی واللہ اعلم بالصواب و عندہ ام الکتاب۔
Top