Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے۔ اگر لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔
پانچواں شبہ قال اللہ تعالیٰ : وما ارسلنا من قبلک الا رجالا .... الیٰ .... ولعلہم یتفکرون۔ (ربط) اس آیت میں کافروں کے اس شبہ کا جواب دیتے ہیں جو وہ کہا کرتے تھے کہ پیغمبر بشر نہیں ہوتا بلکہ فرشتہ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ رسالت اور بشریت میں منافات سمجھتے تھے اس لیے ایسا کہتے تھے حق تعالیٰ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جتنے پیغمبر ہم نے پہلے بھیجے وہ سب بشر تھے اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو اہل علم سے دریافت کرلو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت کے لیے فرشتے نازل نہیں کئے، بلکہ انسانوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا اور ان کی صداقت کے لیے ان کو معجزات عطا کیے چناچہ فرماتے ہیں اور نہیں بھیجا ہم نے رسول بنا کر آپ سے پہلے مگر صرف مردوں کو نہ فرشتوں کو اور نہ عورتوں کو وحی بھیجتے تھے ہم ان کی طرف ہقام نبوت و رسالت مردوں کے لیے مخصوص ہے۔ کسی عورت کو اللہ تعالیٰ نے بنی اور رسول نہیں بنایا اور نہ ان کی طرف وحی نبوت و رسالت بھیجی۔ حضرت مریم (علیہ السلام) اور مادر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جس وحی کا ذکر آیا ہے وہ وحی الہام اور روحی ولایت تھی نہ کہ وحی نبوت و رسالت کیونکہ وحی کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معنی میں مستعمل ہوا ہے ” الہام “ کے معنی میں بھی آیا ہے جیسا کہ واوحی ربک الی النحل میں ایحاء سے وحی الہام مراد ہے۔ اور وان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیاءھم میں ایحاء سے وسوسہ مراد ہے اس لیے کہ وحی کے لغوی معنی القاء خفی کے ہیں جو وحی نبوت اور وحی الہام اور وسوسہ وغیرہ کو شامل ہیں۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ شان خداوندی اس سے بالا تر ہے کہ اس کا پیغمبر آدمی ہو اگر خدا کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا تو فرشتوں کو بھیجتا اس پر خدا تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ عادۃ اللہ یوں ہی جاری ہے کہ وہ فرشتوں کو پیغمبر بنا کر نہیں بھیجتا ہے سابق میں اس نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب آدمی تھے اور سب مرد تھے تو محمد ﷺ کی نبوت و رسالت میں کیا استبعاد ہے۔ پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے دریافت کرلو کہ جن میں ہمیشہ پیغمبر آتے رہے وہ تم کو بتلا دیں گے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اس وقت تک جو نبی گزرا وہ مرد تھا فرشتہ نہ تھا اہل کتاب سے پوچھنے کا حکم اس لیے دیا کہ کفار مکہ ان کے علم کے معتقد تھے غرض یہ کہ آپ ﷺ سے پہلے جس قدر نبی بھیجے گئے وہ سب مردوں میں سے تھے اور کھلے معجزات اور صحیفوں کے ساتھ بھیجے گئے اور اسی طرح اے نبی ﷺ ہم نے تیری طرف یہ نصیحت کی کتاب اتاری تاکہ تو تمام لوگوں کے لیے اللہ کے نازل کردہ احکام۔ اوامرو نواہی کو صاف اور واضح طور پر بیان کرے اور نیز یہ نصیحت کی کتاب اس لیے اتاری گئی کہ وہ اس میں غوروفکر کریں اور جانیں کہ یہ مخلوق کا کلام نہیں اور ہدایت پا جائیں۔ غوروفکر سے انسان حق کی راہ پاتا ہے اور عناد اور غفلت آدمی کو تباہ اور برباد کر کے چھوڑتی ہے۔ فائدہ اولیٰ : (1) اس آیت کے عموم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عالم پر عالم کی تقلید واجب ہے۔ اور تقلید کے معنی یہ ہیں کہ غیر عالم کسی عالم سے حکم شرعی دریافت کرے۔ اور بغیر دلیل معلوم کیے اس پر عمل کرے تقلید شخصی میں کسی خاص امام کی ذات کا اتباع مقصود نہیں ہوتا اس لیے کہ ذاتی طور پر سوائے رسول خدا ﷺ کے کسی کا اتباع واجب نہیں۔ غیر عالم، عالم شریعت سے جو مسئلہ پوچھتا ہے اس کا مقصود حکم شرعی کا دریافت کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کی ذاتی رائے۔ جو شخص کسی کو نبی کی طرح واجب الاتباع سمجھے وہ کافر ہے البتہ بغیر سند اور بغیر دلیل معلوم کیے کسی حدیث کو امام بخاری (رح) کے اعتماد پر صحیح مان لینا یہ تقلید فی الروایت ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا علم اور فہم اور ان کے تقویٰ اور ان کی نقاہت اور درایت پر اعتماد کرکے قرآن اور حدیث پر عمل کرنا اور ان کے فتویٰ کے مطابق شریعت کا اتباع کرنا۔ تقلید فی الدرایت ہے اور غیر عالم کو عالم کا اتباع واجب ہے اور ظلوم و جہول ایک انسان کو جس کا علم بھی ناقص اور فہم بھی ناقص اور تقویٰ بھی ناقص اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے سمجھے ہوئے معنی کے مطابق قرآن و حدیث پر عمل کرے اس پر فرض ہے کہ راسخین فی العلم اور مستنبطین کی تقلید کرے ناقص پر کامل کا اتباع عقلاً و شرعاً واجب ہے۔ چوں تو یوسف نیستی یعقوب باش بانراران گریہ وآشوب باش اور جو شخص اپنے آپ کو علم اور فہم میں ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا ہمسر سمجھے اس سے ہمارا خطاب نہیں اور جو اپنی کمتری کا اقرار کرے تو پھر عرض یہ ہے کہ باجماع عقلاء کمتر پر بالاتر کا اتباع واجب ہے معلوم نہیں کہ مدعیان کمتری بالحدیث کے نزدیک عقلاء عالم کا یہ اجماع حجت ہے یا نہیں۔ نابالغ پر بالغ کا اتباع عقلا و شرعا واجب ہے بغیر ولی کی اجازت کے نابالغ کا کوئی تصرف بیع و شراء اور نکاح وغیرہ معتبر نہیں اسی طرح علم اور فہم کے نابالغوں کا فتویٰ بغیر ائمہ ہدایت۔ ابوحنیفہ (رح) اور شافعی (رح) اور احمد (رح) کی تصدیق اور ولایت کے معتبر نہیں یہ حضرات باتفاق اہل علم۔ علم اور عقل اور ہدایت کے بالغ تھے اور آج کے مدعیان عمل بالحدیث اگر یہ کہیں کہ ہم بھی علم اور عقل کے بالغ ہیں ہمیں کسی بالغ کی ولایت کی ضرورت نہیں تو ہم عرض کریں گے کہ آپ اپنے علم و عقل کے بلوغ کی علامتیں بیان کیجئے تاکہ آپ کے دعوے کا صدق ظاہر ہو سکے۔ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ فائدہ دوم : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلق تقلید کو فرض فرمایا ہے اور مطلق تقلید کے دو فرد ہیں ایک تقلید شخصی کو سب مسائل ضروریہ ایک ہی عالم سے پوچھ کر عمل کرے دوسرے تقلید غیر شخصی وہ یہ ہے کہ جس عالم دین سے چاہے حکم شرعی دریافت کرکے اس پر عمل کرے اور آیت اپنے اطلاق کی وجہ سے دونوں قسموں کو شامل ہے اور ظاہر ہے کہ مطلق کا وجود خارج میں افراد ہی کے ضمن میں ہوتا ہے لہٰذا تقلید شخصی بھی مامور بہ کا ایک فرد ہوگی فی حد ذاتہ تقلید کی دونوں قسمیں جو از میں برابر ہیں اور صحابہ کرام وتابعین کے زمانہ میں مسلمان اپنے اپنے شہر کے عالم اور مفتی سے حکم شرعی معلوم کرکے اس پر عمل کرتے تھے اور یہ تقلید شخصی تھی قرأت قرآن بہ سبعۃ احرف جائز اور مخیر تھی مگر حضرت عثمان ؓ نے باجماع صحابہ کرام قرأت قرآن کو لغت قریش پر مقصود کردیا اور باقی حروف پر قرأت قرآن کو ممنوع قرار دیا تقلید غیر شخصی فی حد ذاتہ جائز ہے بشرطیکہ مقصود اتباع شریعت ہو اور بشرطیکہ ہوائے نفسانی سے کالی ہو اور اگر مقصود اتباع ہوائے نفس ہو کہ جس امام کا قول اس کی خواہش اور غرض کے مطابق ہو اس کو لے لے تو یہ تلفیق ہے اور باجماع امت حرام ہے جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ (رح) نے اس کی تصریح کی ہے تقلید غیر شخصی سے دین کھیل تماشہ نہیں پڑھا وہ لامحالہ کسی کی تقلید پر مجبور ہے تو اس زمانہ کے علماء اہل حدیث کی تقلید سے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کی تقلید بہتر ہے۔ اے مسلمانو ! امام ابوحنیفہ (رح) سنہ 80 ہجری میں گزرے اور صحابہ کرام کو دیکھا اور پھر صحابہ کرام مثلا حضرت عمر اور حضرت علی ؓ کے شاگردوں سے علم حاصل کیا تو کیا ابوحنیفہ (رح) اس زمانہ کے علماء اہل حدیث سے بھی گئے گزرے تھے کہ ان کی تقلید تو شرک اور بدعت ہوجائے۔ اور اس زمانہ کے علماء اہل حدیث کی تقلید توحید بن جائے۔ اے مسلمانو ! تم اپنے انجام کو سوچ لو۔ (وما علینا الا البلاغ) ۔
Top