بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
(76:1) ہل اتی : استفہام تقریری ہے ہل بمعنی قد ہے۔ بیشک آچکا ہے بیشک گذر چکا ہے۔ علی الانسان۔ انسان سے عام انسان مراد ہے۔ یا حضرت آدم (علیہ السلام) ؟ اگلی آیت میں الانسان کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسے نطفہ امشاج سے پیدا کیا۔ امام فخر الدین رازی نے دونوں جگہ الانسان سے مراد عام انسان لیا ہے (اضواء البیان) حین : طائفۃ محدودۃ من الزمان الممتد الخیر المحدودۃ (بیضاوی) طویل ولا محدود زمانہ کا ایک محدود حصہ۔ الدھر : طریل، غیر محدود زمانہ۔ لم یکن شیئا مذکورا۔ جملہ محل نصب میں ہے اور الانسان سے حال ہے لم یکن مضارع نفی جحد بلم۔ وہ نہیں تھا۔ شیئا موصوف مذکورا ۔ ذکر سے اسم مفعول۔ صفت شی کی۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ :۔ انسان پر ایک ایسا وقت گزرا ہے کہ اس وقت نہ یہ دنیا میں موجود تھا نہ اہل دنیا میں اس کا تذکرہ تھا۔ کوئی انسان کے نام سے واقف نہ تھا۔
Top