Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
134۔ (آیت)” الذین ینفقون فی السراء والضراء “ آسانی اور تنگی میں ، مؤمنین کے پہلے اوصاف جو جنت کو واجب کردیتے ہیں وہ سخاوت ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سخی اللہ کے قریب ہے جنت کے قریب ہے لوگوں کے قریب ہے اور آگ سے بعید ہے اور بخیل اللہ سے دور ، جنت سے دور لوگوں سے دور ، آگ کے قریب ہے اور جاہل سخی اللہ کے ہاں محبوب ہے عابد بخیل سے ۔ (آیت)” والکاظمین الغیظ “ بھر بھر کر غصہ آنے کے باوجود اپنے نفس کو روکنے والا کظم کہا جاتا ہے کسی چیز کو روکنا اس کے بھرپور ہونے کے بعد ” کظم الغیظ “ کہا جاتا ہے غصہ کی وجہ سے انسان کو بھر پور ہوجانا پھر اس کو روک لینا اور اس کو ظاہر نہ کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” اذ القلوب لدی الحناجر کا ظمین “۔ اس آنے والے دن سے جس وقت کلیجے دل کو پہنچیں گے ۔ معاذ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غصہ کو قابو میں رکھے گا حالانکہ وہ غصہ نکالنے پر اس کو قدرت حاصل تھی کہ وہ اپنے غصہ کو نافذ کر دے (لیکن اس نے نافذ نہیں کیا) اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن سب مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اس کو اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے لے لے ، (آیت)” والعافین عن الناس “۔ کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ اپنے غلاموں سے بےادبی کرنے کی وجہ سے د درگزر فرمانا ، زید بن اسلم اور مقاتل فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے درگزر کرے جس نے ان کے ساتھ ظلم کیا اور ان کے ساتھ برا کیا (آیت)” واللہ یحب المحسنین “۔ سفیان ثوری (رح) ، فرماتے ہیں کہ برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرنا جبکہ احسان کے بدلے میں احسان کرنا تجارت ہے ۔
Top