Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میں، اور جو ضبط کرنے والے ہیں غصہ کو اور جو لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ محبت فرماتا ہے اچھے کام کرنے والوں سے،
اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا : اول اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ ) (یہ حضرات خرچ کرتے ہیں تکلیف میں بھی اور خوشی میں بھی) اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ ہر حال میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ایک ہزار روپے میں جو ایک روپے کی حیثیت مالدار کے لیے ہے وہی حیثیت ایک روپے میں سے ایک پیسے کی غریب آدمی کے لیے ہے۔ جن کو اللہ کے لیے خرچ کرنے کا ذوق ہے وہ تنگدستی میں بھی خرچ کرتے ہیں جس کی تعریف فرماتے ہوئے سورة حشر میں فرمایا ہے (وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ) (کہ وہ اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو خود حاجت ہو) فی سبیل اللہ خرچ کرنا مالداروں ہی کا حصہ نہیں غربیوں کا بھی حصہ ہے۔ سخاوت ایک مزاج ہے جس کا تعلق مالداری سے نہیں جسے سخاوت کا مزاج نصیب ہوجائے وہ ہر حال میں خرچ کرتا ہے۔ غصہ پینے کی فضیلت : دوم یہ فرمایا (وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ) کہ یہ حضرات اپنے غصے کو ضبط کرنے والے ہیں یعنی جب غصہ آتا ہے تو اس کو پی جاتے ہیں اور غصہ کے مقتضیٰ پر عمل نہیں کرتے، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑ دے (بلکہ) پہلوان وہی ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو پالے۔ (رواہ البخاری صفحہ 903: ج 2) رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی بندہ نے اللہ کے نزدیک کوئی گھونٹ اس گھونٹ سے زیادہ فضیلت والا نہیں پیا جو غصہ والا گھونٹ ہو جسے وہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ضبط کر جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 434 از مسند احمد) سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ غصہ شیطان سے ہے اور بیشک شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی ہی بجھاتا ہے سو تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے تو وضو کرے اور حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اس طرح غصہ چلا جائے تو بہتر ہے ورنہ لیٹ جائے۔ (رواہ الترمذی المشکوٰۃ صفحہ 343) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے اور جس نے اپنے غصے کو روک لیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روک لیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 434) معاف کرنے کی فضیلت : سوم یہ فرمایا وَ الْعَافِیْنَ کہ یہ لوگ لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ معاف کرنا بہت فضیلت والی صفت ہے اور یہ فضیلت ہر قسم کے مظالم کے معاف کرنے کو شامل ہے کسی آدمی نے مال مار لیا ہو حق روک لیا ہو، مار پیٹ کی ہو، غیبت کی ہو، بہتان لگایا ہو ان سب کے معاف کرنے میں اجر وثواب ہے اور معاف کرنے کا بلند مرتبہ یہ ہے کہ قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے رب ! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سب سے زیادہ باعزت کون ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 434 ازبیہقی فی شعب الایمان) محسنین اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں : چہارم یوں فرمایا : (وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) المحسنین محسن کی جمع ہے جس کا مصدر احسان ہے اور احسان ہر کام کو خوبی کے ساتھ انجام دینے کو کہا جاتا ہے۔ عبادات کا احسان تو حدیث جبرئیل میں بیان فرما دیا کہ : اَنْ تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے سو اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے) اور بندوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں ان میں خوبی اور عمدگی اختیار کرے۔ مثلاً قرضوں کے تقاضوں میں نرمی اختیار کرے۔ بڑوں کی عزت کرے چھوٹوں پر رحم کرے یتیموں، مسکینوں اور ضعیفوں کی خدمت کرے ضرورت مندوں کو کھلائے پلائے پہنائے اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ حضرت زین العابدین کا ایک واقعہ : صاحب روح المعانی نے یہاں ایک واقعہ لکھا ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام زین العابدین ؓ کو ان کی ایک باندی وضو کرا رہی تھی اس کے ہاتھ سے لوٹا گرگیا جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا انہوں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اس نے (وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ) پڑھ دیا اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا غصہ ضبط کرلیا پھر اس نے و العافین عن الناس پڑھا آپ نے اس کو معاف کردیا۔ پھر اس نے (وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) پڑھا اس پر انہوں نے فرمایا اچھا جا تو اللہ کے لیے آزاد ہے۔
Top