Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو خرچ کئے جاتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میں اور دبالیتے ہیں غصہ اور معاف کرتے ہیں لوگوں کو اور اللہ چاہتا ہے نیکی کرنے والوں کو
خلاصہ تفسیر
ایسے لوگ (ہیں) جو کہ (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں (ہر حال میں) فراغت میں (بھی) اور تنگی میں (بھی) اور غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو (جن میں یہ خصال ہوں بوجہ اکمل) محبوب رکھتا ہے اور (ایک ان مذکورین کے اعتبار سے دوسرے درجہ کے مسلمان) ایسے لوگ (ہیں) کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں (دوسروں پر) زیادتی ہو یا (کوئی گناہ کر کے خاص) اپنی ذات کا نقصان کرتے ہیں تو (فورا) اللہ تعالیٰ (کی عظمت اور عذاب) کو یاد کرلیتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں، (یعنی اس طریقہ سے جو معافی کے لئے مقرر ہے کہ دوسروں پر زیادتی کرنے میں ان اہل حقوق سے بھی معاف کرائے اور خاص اپنی ذات کے متعلق گناہ میں اس کی حاجت نہیں، اور اللہ تعالیٰ سے معاف کرانا دونوں میں مشترک ہے) اور (واقعی) اللہ تعالیٰ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو (رہا اہل حقوق کا معاف کرنا سو وہ لوگ اس کا اختیار تو نہیں رکھتے کہ عذاب سے بھی بچالیں اور حقیقی بخشش اسی کا نام ہے) اور وہ لوگ اپنے فعل (بد) پر اصرار (اور ہٹ) نہیں کرتے اور وہ (ان باتوں کو) جانتے بھی ہیں (فلاں کام ہم نے گناہ کا کیا اور یہ کہ توبہ ضرور ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ غفار ہے، مطلب یہ کہ اعمال کی بھی درستی کرلیتے ہیں، اور عقائد بھی درست رکھتے ہیں) ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ ان کے (درختوں اور مکانوں کے) نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے (اور اسی مغفرت اور جنت کی تحصیل کا شروع آیتوں میں حکم تھا، بیچ میں اس کا طریقہ بتلایا، ختم پر اس کا وعدہ فرمایا) اور (یہ) اچھا حق الخدمت ہے ان کام کرنے والوں کا (وہ کام استغفار اور حسن اعتقاد ہے اور استغفار کا نتیجہ آئندہ اطاعت کی پابندی ہے جس پر عدم اصرار دلالت کرتا ہے) بالتحقیق تم سے قبل (زبانوں میں) مختلف طرق (کے لوگ) گزر چکے ہیں (ان میں مسلمان بھی تھے اور کفار بھی اور ان میں اختلاف و مقابلہ و مقاتلہ بھی ہوا، لیکن انجام کار کفار ہی ہلاک ہوئے، چناچہ اگر تم آثار کا مشاہدہ کرنا چاہو) تو تم روئے زمین پر چلو پھرو، اور دیکھ لو کہ اخیر انجام تکذیب کرنے والوں کا (یعنی کفار کا) کیسا ہوا، (یعنی ہلاک و برباد ہوئے، چناچہ ان کی ہلاکت کے آثار اس وقت تک بھی باقی تھے، جس کو دوسری آیت میں فرمایا ہے فتلک بیوتھم خاویۃ (27: 52) فتلک مساکنھم لم تسکن (28: 58) وانھما لبامام مبین (15: 79) یہ (مضمون مذکور) بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے (کہ اگر اس میں غور کریں تو عبرت حاصل کرسکتے ہیں) اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے (یعنی ہدایت اور نصیحت بھی یہی لوگ حاصل کرتے ہیں، ہدایت یہ کہ اس کے موافق عمل کریں)۔
معارف و مسائل
ان آیات میں حق تعالیٰ نے مومنین متقین کی خاص صفات اور علامات بتلائی ہیں، جن سے بہت سے فوائد متعلق ہیں، مثلا یہ کہ قرآن حکیم نے جگہ جگہ نیک بندوں کی صحبت اور ان کی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرمائی ہے، کہیں صراط الذین انعمت علیھم فرما کر دین کی سیدھی اور صحیح راہ انہی مقبول بندوں سے سیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا، کہیں کونوا مع الصادقین فرماکر ان کی صحبت اور معیت کی خاص افادیت کی تلقین فرمائی، اور دنیا میں ہر گروہ کے اندر اچھے برے لوگ ہوا کرتے ہیں، اچھوں کے لباس میں برے بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ مقبول بندوں کی خاص علامات وصفات بتلا کر یہ سمجھا دیا جائے کہ یہ لوگ غلط رہنماؤں اور مقتداؤں سے پرہیز کریں اور صادقین کی علامتیں پہچان کر ان کا اتباع کریں، مومنین متقین کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ان کی دائمی کامیابی اور جنت کے اعلی مقامات بتلا کر نیک بندوں کو خوشخبری اور بری راہوں پر چلنے والوں کے لئے نصیحت و ترغیب کا راستہ کھولا گیا ہے، ان آیات کے اخیر میں ھذا بیان للناس وھدی و موعظۃ للمتقین میں اسی کی طرف اشارہ ہے، مقبولین کی جو صفات و علامات یہاں ذکر کی گئی ہیں، اس میں ابتدائی آیات میں ان صفات کا بیان ہے جن کا تعلق انسانی حقوق اور باہمی معاشرت سے ہے، اور بعد کی آیات میں وہ صفات ہیں جن کا تعلق حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے ہے، جن کو دوسرے لفظوں میں حقوق العباد اور حقوق اللہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
متذکرہ بالا آیات میں حقوق انسانی سے متعلقہ صفات کو پہلے اور حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کو بعد میں فرماکر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگرچہ اصل کے اعتبار سے حقوق اللہ سارے حقوق پر مقدم ہیں، لیکن دونوں میں ایک خاص فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بندوں پر لازم کیے ہیں ان سے نہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کو فائدہ متعلق ہے نہ خدائے تعالیٰ کو ان کی حاجت ہے، اور نہ ان کے ادا نہ کرنے سے اللہ کا کوئی نقصان ہے، اس کی ذات سب سے بےنیاز ہے، اس کی عبادت سے فائدہ خود عبادت کرنے والے کا ہے، پھر وہ رحیم الرحماء اور کریم الکرماء بھی ہے، اس کے حقوق میں بڑی سے بڑی کوتاہی اور غلطی کرنے والا انسان جس وقت بھی اپنے کئے ہوئے پر نادم ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور توبہ کرلے تو بارگاہ رحم و کرم سے اس کے سارے گناہ ایک دم میں معاف ہوسکتے ہیں، بخلاف حقوق العباد کے کہ انسان ان کا محتاج ہے، اور جس شخص کے حقوق کسی کے ذمہ لازم ہیں، اگر وہ ادا نہ کرے تو اس کا نقصان بھی ہے اور اپنے نقصان کو معاف کرنا بھی انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے حقوق العباد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نظام عالم کی درستی اور انسانی معاشرے کی اصلاح کا سب سے بڑا دار و مدار باہمی حقوق کی ادائیگی پر ہے، اس میں ذرا سی کوتاہی جنگ وجدال اور فساد کی راہیں کھول دیتی ہے، اور اخلاق فاضلہ اگر پید اکرلئے جائیں تو دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں، صدیوں کی لڑائیاں صلح و آشتی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اس لئے بھی ان صفات و علامات کو مقدم کیا گیا جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، ان صفات میں سب سے پہلی صفت یہ بتلائی گئی ہے(الذین ینفقون فی السراء والضراء، یعنی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے ایسے عادی اور خوگر ہیں کہ ان پر فراخی ہو یا تنگی ہر حال میں مقدور بھر خرچ کرتے رہتے ہیں، زیادہ میں سے زیادہ اور کم میں سے کم، اس میں ایک طرف تو یہ ہدایت ہے کہ غریب فقیر آدمی بھی اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بالکل فارغ نہ سمجھیں، اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت سے محروم نہ ہوں، کیونہ ہزار روپے میں سے ایک روپیہ خرچ کرنے کا جو درجہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہزار پیسے میں سے ایک پیسہ خرچ کرنے کا بھی ہے، اور عملی طور پر جس طرح ہزار روپے کے مالک کو ایک روپیہ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا کچھ مشکل نہیں اسی طرح ہزار پیسوں کے مالک کو ایک پیسہ خرچ کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی۔
دوسری طرف یہ ہدایت بھی ہے کہ تنگی کی حالت میں بھی بقدر حیثیت خرچ کرتے رہنے سے خرچ کرنے کی مبارک خصلت و عادت فنا نہیں ہوگی، اور شاید اللہ تعالیٰ اسی کی برکت سے فراغت اور فراخی بھی عطا فرمادیں۔ تیسری اہم چیز اس میں یہ ہے کہ جو شخص اس کا خوگر ہو کہ دوسرے انسانوں پر اپنا مال خرچ کر کے ان کو فائدہ پہنچا سکے، غریبوں، فقیروں کی امداد کرے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور ان کی مرضی کے خلاف ہضم کرنے کے پاس بھی نہ جائے گا، اس لئے اس پہلی صفت کا حاصل یہ ہوا کہ مومنین متقین اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچانے کی فکر میں رہا کرتے ہیں، خواہ ان پر فراخی ہو یا تنگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے ایک وقت صرف ایک انگور کا دانہ خیرات میں دیا، کیونکہ اس وقت ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا، بعض سلف سے منقول ہے کہ کسی وقت انہوں نے صرف ایک پیاز کا صدقہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے
(اتقوا النار ولو بشق تمرۃ و ردوا السائل ولو بظلف شاۃ) " یعنی تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ میں دے کر ہی ہو، اور سائل کو خالی واپس نہ کرو اور کچھ نہ ہو تو بکری کے پاؤں کی کھری ہی دیدو "۔
تفسیر کبیر میں امام رازی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو جن کے پاس سونا چاندی تھا انہوں نے وہ صدقہ میں دیدیا، ایک شخص کھجور کے چھلکے لایا، کہ میرے پاس اور کچھ نہیں، وہ ہی صدقہ کردیئے گئے، ایک اور شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی چیز صدقہ کرنے کے لئے نہیں ہے، البتہ میں اپنی قوم میں عزت دار سمجھا جاتا ہوں میں اپنی عزت کی خیرات کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی آدمی مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہونگا۔
رسول کریم ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے تعامل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف مالداروں اور اغنیاء ہی کا حصہ نہیں ہے، غریب، فقیر بھی اس صفت کے حامل ہوسکتے ہیں کہ اپنی اپنی مقدرت کے موافق اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے اس عظیم صفت کو حاصل کرلیں۔
انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ مال ہی خرچ کیا جائے
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ینفقون کا تو ذکر فرمایا کہ وہ لوگ تنگی اور فراخی ہر حال میں فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں، یہ متعین نہیں فرمایا کہ کیا خرچ کرتے ہیں، اس کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر خرچ کرنے کی چیز داخل ہے، مثلا جو شخص اپنا وقت، اپنی محنت اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ بھی اس انفاق کی صفت سے موصوف کیا جائے گا، جو حدیث بحوالہ تفسیر کبیر اوپر گزری ہے وہ اس پر شاہد ہے۔
تنگی اور فراخی کے ذکر میں ایک اور حکمت
یہ بھی ہے کہ یہی وہ حالتیں ہیں جن میں عادۃ انسان خدا کو بھولتا ہے جب مال و دولت کی فراوانی ہو تو عیش میں خدا کو بھول جاتا ہے اور جب تنگی اور مصیبت ہو تو بسا اوقات اسی کی فکر میں راہ کر خدا سے غافل ہوجاتا ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو نہ عیش میں خدا کو بھولتے ہیں نہ مصیبت و تکلیف میں، ظفر شاہ دہلوی کا کلام اس معنی میں خوب ہے ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا خواہ ہو کتنا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں خدا نہ رہے جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اس کے بعد ان کی ایک خاص صفت اور علامت یہ بتلائی گئی کہ اگر ان کو کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑے جو ان کو اذیت اور تکلیف پہنچائے تو وہ غصہ میں مشتعل اور مغلوب نہیں ہوجاتے، اور غصہ کے مقتضی پر عمل کر کے انتقام نہیں لیتے، پھر صرف یہی نہیں کہ انتقام نہ لیں بلکہ دل سے بھی معاف کردیتے ہیں، اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ تکلیف دینے والے کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے ہیں، اسی ایک صفت میں گویا تین صفتیں شامل ہیں، اپنے غصہ پر قابو پانا، تکلیف دینے والے کو معاف کرنا، پھر اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا، ان تینوں چیزوں کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین) یعنی وہ لوگ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کا قصور معاف کردیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
امام بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیدنا علی بن حسین ؓ کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ آپ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرا رہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت علی ابن حسین ؓ کے اوپر گرا، تمام کپڑے بھیگ گئے، غصہ آنا طبعی امر تھا، کنیز کو خطرہ ہوا، تو اس نے فورا یہ آیت پڑھی والکاظمین الغیظ، یہ سنتے ہی خاندان نبوت کے اس بزرگ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، بالکل خاموش ہوگئے، اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ والعافین عن الناس پڑھ دیا، تو فرمایا کہ میں نے تجھے دل سے بھی معاف کردیا، کنیز بھی ہوشیار تھی اس کے بعد اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا، واللہ یحب المحسنین جس میں احسان اور حسن سلوک کی ہدایت ہے، حضرت علی بن حسین نے یہ سن کر فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی) لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کردینا انسانی اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ثواب آخرت نہایت اعلی ہے، حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے " قیامت کے روز حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوگی کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق ہے وہ کھڑا ہوجائے، تو اس وقت وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کے ظلم و جور کو دنیا میں معاف کیا ہوگ "۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے
(من سرہ ان یشرف لہ البنیان وترفع لہ الدرجت فلیعف عن من ظلمہ ویعط من حرمہ ویصل من قطعہ) " جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہئے کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کردے اور جس نے اس کو کبھی کچھ نہ دیا ہو، اس کو بخشش و ہدیہ دیا کرے، اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے "۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا خلق عظیم سکھلایا، اور یہ بتلایا ہے کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں، ارشاد فرمایا(ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ (41: 34) " یعنی برائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کرو، تو جس کے ساتھ دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا "۔ حق تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی اخلاقی تربیت بھی اسی اعلی پیمانہ پر فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی یہ ہدایت دی کہ(صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک) " یعنی جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں، اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں، اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں "۔
رسول کریم ﷺ کی تو بڑی شان ہے آپ کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق و اوصاف آپ کے خدام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیے تھے جو اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہے، صحابہ وتابعین ؓ اور اسلاف امت کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظم کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دیں، حضرت امام اعظم نے غصہ کو ضبط فرمایا، اور اس کو کچھ نہیں کہا، اور گھر پر واپس آنے کے بعد ایک خوان میں کافی درہم و دینار رکھ کر اس شخص کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی، یہ شخص باہر آیا تو اشرفیوں کا یہ خوان اس کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش فرمایا کہ آج تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا، اپنی نیکیاں مجھے دیدیں، میں اس احسان کا بدلہ کرنے کے لئے یہ تحفہ پیش کر رہا ہوں، امام کے اس معاملہ کا اس کے قلب پر اثر ہونا ہی تھا، آئندہ کو اس بری خصلت سے ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا، حضرت امام سے معافی مانگی اور آپ کی خدمت اور صحبت میں علم حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں میں ایک بڑے عالم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہاں تک ان اوصاف کا بیان تھا جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں، اس کے بعد حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کا بیان اس طرح فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، اور کبھی بمقتضائے بشریت ان سے گناہ ہوجاتا ہے تو فورا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرتے ہیں، اور آئندہ اس گناہ سے باز آنے کا ارادہ پختہ کرلیتے ہیں،
Top