Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُنْفِقُوْنَ
: خرچ کرتے ہیں
فِي السَّرَّآءِ
: خوشی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَالْكٰظِمِيْنَ
: اور پی جاتے ہیں
الْغَيْظَ
: غصہ
وَالْعَافِيْنَ
: اور معاف کردیتے ہیں
عَنِ
: سے
النَّاسِ
: جو لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُحْسِنِيْنَ
: احسان کرنے والے
جو خرچ کئے جاتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میں اور دبالیتے ہیں غصہ اور معاف کرتے ہیں لوگوں کو اور اللہ چاہتا ہے نیکی کرنے والوں کو
خلاصہ تفسیر
ایسے لوگ (ہیں) جو کہ (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں (ہر حال میں) فراغت میں (بھی) اور تنگی میں (بھی) اور غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو (جن میں یہ خصال ہوں بوجہ اکمل) محبوب رکھتا ہے اور (ایک ان مذکورین کے اعتبار سے دوسرے درجہ کے مسلمان) ایسے لوگ (ہیں) کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں (دوسروں پر) زیادتی ہو یا (کوئی گناہ کر کے خاص) اپنی ذات کا نقصان کرتے ہیں تو (فورا) اللہ تعالیٰ (کی عظمت اور عذاب) کو یاد کرلیتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں، (یعنی اس طریقہ سے جو معافی کے لئے مقرر ہے کہ دوسروں پر زیادتی کرنے میں ان اہل حقوق سے بھی معاف کرائے اور خاص اپنی ذات کے متعلق گناہ میں اس کی حاجت نہیں، اور اللہ تعالیٰ سے معاف کرانا دونوں میں مشترک ہے) اور (واقعی) اللہ تعالیٰ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو (رہا اہل حقوق کا معاف کرنا سو وہ لوگ اس کا اختیار تو نہیں رکھتے کہ عذاب سے بھی بچالیں اور حقیقی بخشش اسی کا نام ہے) اور وہ لوگ اپنے فعل (بد) پر اصرار (اور ہٹ) نہیں کرتے اور وہ (ان باتوں کو) جانتے بھی ہیں (فلاں کام ہم نے گناہ کا کیا اور یہ کہ توبہ ضرور ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ غفار ہے، مطلب یہ کہ اعمال کی بھی درستی کرلیتے ہیں، اور عقائد بھی درست رکھتے ہیں) ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ ان کے (درختوں اور مکانوں کے) نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے (اور اسی مغفرت اور جنت کی تحصیل کا شروع آیتوں میں حکم تھا، بیچ میں اس کا طریقہ بتلایا، ختم پر اس کا وعدہ فرمایا) اور (یہ) اچھا حق الخدمت ہے ان کام کرنے والوں کا (وہ کام استغفار اور حسن اعتقاد ہے اور استغفار کا نتیجہ آئندہ اطاعت کی پابندی ہے جس پر عدم اصرار دلالت کرتا ہے) بالتحقیق تم سے قبل (زبانوں میں) مختلف طرق (کے لوگ) گزر چکے ہیں (ان میں مسلمان بھی تھے اور کفار بھی اور ان میں اختلاف و مقابلہ و مقاتلہ بھی ہوا، لیکن انجام کار کفار ہی ہلاک ہوئے، چناچہ اگر تم آثار کا مشاہدہ کرنا چاہو) تو تم روئے زمین پر چلو پھرو، اور دیکھ لو کہ اخیر انجام تکذیب کرنے والوں کا (یعنی کفار کا) کیسا ہوا، (یعنی ہلاک و برباد ہوئے، چناچہ ان کی ہلاکت کے آثار اس وقت تک بھی باقی تھے، جس کو دوسری آیت میں فرمایا ہے فتلک بیوتھم خاویۃ (27: 52) فتلک مساکنھم لم تسکن (28: 58) وانھما لبامام مبین (15: 79) یہ (مضمون مذکور) بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے (کہ اگر اس میں غور کریں تو عبرت حاصل کرسکتے ہیں) اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے (یعنی ہدایت اور نصیحت بھی یہی لوگ حاصل کرتے ہیں، ہدایت یہ کہ اس کے موافق عمل کریں)۔
معارف و مسائل
ان آیات میں حق تعالیٰ نے مومنین متقین کی خاص صفات اور علامات بتلائی ہیں، جن سے بہت سے فوائد متعلق ہیں، مثلا یہ کہ قرآن حکیم نے جگہ جگہ نیک بندوں کی صحبت اور ان کی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرمائی ہے، کہیں صراط الذین انعمت علیھم فرما کر دین کی سیدھی اور صحیح راہ انہی مقبول بندوں سے سیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا، کہیں کونوا مع الصادقین فرماکر ان کی صحبت اور معیت کی خاص افادیت کی تلقین فرمائی، اور دنیا میں ہر گروہ کے اندر اچھے برے لوگ ہوا کرتے ہیں، اچھوں کے لباس میں برے بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ مقبول بندوں کی خاص علامات وصفات بتلا کر یہ سمجھا دیا جائے کہ یہ لوگ غلط رہنماؤں اور مقتداؤں سے پرہیز کریں اور صادقین کی علامتیں پہچان کر ان کا اتباع کریں، مومنین متقین کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ان کی دائمی کامیابی اور جنت کے اعلی مقامات بتلا کر نیک بندوں کو خوشخبری اور بری راہوں پر چلنے والوں کے لئے نصیحت و ترغیب کا راستہ کھولا گیا ہے، ان آیات کے اخیر میں ھذا بیان للناس وھدی و موعظۃ للمتقین میں اسی کی طرف اشارہ ہے، مقبولین کی جو صفات و علامات یہاں ذکر کی گئی ہیں، اس میں ابتدائی آیات میں ان صفات کا بیان ہے جن کا تعلق انسانی حقوق اور باہمی معاشرت سے ہے، اور بعد کی آیات میں وہ صفات ہیں جن کا تعلق حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے ہے، جن کو دوسرے لفظوں میں حقوق العباد اور حقوق اللہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
متذکرہ بالا آیات میں حقوق انسانی سے متعلقہ صفات کو پہلے اور حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کو بعد میں فرماکر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگرچہ اصل کے اعتبار سے حقوق اللہ سارے حقوق پر مقدم ہیں، لیکن دونوں میں ایک خاص فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بندوں پر لازم کیے ہیں ان سے نہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کو فائدہ متعلق ہے نہ خدائے تعالیٰ کو ان کی حاجت ہے، اور نہ ان کے ادا نہ کرنے سے اللہ کا کوئی نقصان ہے، اس کی ذات سب سے بےنیاز ہے، اس کی عبادت سے فائدہ خود عبادت کرنے والے کا ہے، پھر وہ رحیم الرحماء اور کریم الکرماء بھی ہے، اس کے حقوق میں بڑی سے بڑی کوتاہی اور غلطی کرنے والا انسان جس وقت بھی اپنے کئے ہوئے پر نادم ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور توبہ کرلے تو بارگاہ رحم و کرم سے اس کے سارے گناہ ایک دم میں معاف ہوسکتے ہیں، بخلاف حقوق العباد کے کہ انسان ان کا محتاج ہے، اور جس شخص کے حقوق کسی کے ذمہ لازم ہیں، اگر وہ ادا نہ کرے تو اس کا نقصان بھی ہے اور اپنے نقصان کو معاف کرنا بھی انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے حقوق العباد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نظام عالم کی درستی اور انسانی معاشرے کی اصلاح کا سب سے بڑا دار و مدار باہمی حقوق کی ادائیگی پر ہے، اس میں ذرا سی کوتاہی جنگ وجدال اور فساد کی راہیں کھول دیتی ہے، اور اخلاق فاضلہ اگر پید اکرلئے جائیں تو دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں، صدیوں کی لڑائیاں صلح و آشتی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اس لئے بھی ان صفات و علامات کو مقدم کیا گیا جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، ان صفات میں سب سے پہلی صفت یہ بتلائی گئی ہے(الذین ینفقون فی السراء والضراء، یعنی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے ایسے عادی اور خوگر ہیں کہ ان پر فراخی ہو یا تنگی ہر حال میں مقدور بھر خرچ کرتے رہتے ہیں، زیادہ میں سے زیادہ اور کم میں سے کم، اس میں ایک طرف تو یہ ہدایت ہے کہ غریب فقیر آدمی بھی اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بالکل فارغ نہ سمجھیں، اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت سے محروم نہ ہوں، کیونہ ہزار روپے میں سے ایک روپیہ خرچ کرنے کا جو درجہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہزار پیسے میں سے ایک پیسہ خرچ کرنے کا بھی ہے، اور عملی طور پر جس طرح ہزار روپے کے مالک کو ایک روپیہ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا کچھ مشکل نہیں اسی طرح ہزار پیسوں کے مالک کو ایک پیسہ خرچ کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی۔
دوسری طرف یہ ہدایت بھی ہے کہ تنگی کی حالت میں بھی بقدر حیثیت خرچ کرتے رہنے سے خرچ کرنے کی مبارک خصلت و عادت فنا نہیں ہوگی، اور شاید اللہ تعالیٰ اسی کی برکت سے فراغت اور فراخی بھی عطا فرمادیں۔ تیسری اہم چیز اس میں یہ ہے کہ جو شخص اس کا خوگر ہو کہ دوسرے انسانوں پر اپنا مال خرچ کر کے ان کو فائدہ پہنچا سکے، غریبوں، فقیروں کی امداد کرے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور ان کی مرضی کے خلاف ہضم کرنے کے پاس بھی نہ جائے گا، اس لئے اس پہلی صفت کا حاصل یہ ہوا کہ مومنین متقین اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچانے کی فکر میں رہا کرتے ہیں، خواہ ان پر فراخی ہو یا تنگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے ایک وقت صرف ایک انگور کا دانہ خیرات میں دیا، کیونکہ اس وقت ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا، بعض سلف سے منقول ہے کہ کسی وقت انہوں نے صرف ایک پیاز کا صدقہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے
(اتقوا النار ولو بشق تمرۃ و ردوا السائل ولو بظلف شاۃ) " یعنی تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ میں دے کر ہی ہو، اور سائل کو خالی واپس نہ کرو اور کچھ نہ ہو تو بکری کے پاؤں کی کھری ہی دیدو "۔
تفسیر کبیر میں امام رازی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو جن کے پاس سونا چاندی تھا انہوں نے وہ صدقہ میں دیدیا، ایک شخص کھجور کے چھلکے لایا، کہ میرے پاس اور کچھ نہیں، وہ ہی صدقہ کردیئے گئے، ایک اور شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی چیز صدقہ کرنے کے لئے نہیں ہے، البتہ میں اپنی قوم میں عزت دار سمجھا جاتا ہوں میں اپنی عزت کی خیرات کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی آدمی مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہونگا۔
رسول کریم ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے تعامل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف مالداروں اور اغنیاء ہی کا حصہ نہیں ہے، غریب، فقیر بھی اس صفت کے حامل ہوسکتے ہیں کہ اپنی اپنی مقدرت کے موافق اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے اس عظیم صفت کو حاصل کرلیں۔
انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ مال ہی خرچ کیا جائے
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ینفقون کا تو ذکر فرمایا کہ وہ لوگ تنگی اور فراخی ہر حال میں فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں، یہ متعین نہیں فرمایا کہ کیا خرچ کرتے ہیں، اس کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر خرچ کرنے کی چیز داخل ہے، مثلا جو شخص اپنا وقت، اپنی محنت اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ بھی اس انفاق کی صفت سے موصوف کیا جائے گا، جو حدیث بحوالہ تفسیر کبیر اوپر گزری ہے وہ اس پر شاہد ہے۔
تنگی اور فراخی کے ذکر میں ایک اور حکمت
یہ بھی ہے کہ یہی وہ حالتیں ہیں جن میں عادۃ انسان خدا کو بھولتا ہے جب مال و دولت کی فراوانی ہو تو عیش میں خدا کو بھول جاتا ہے اور جب تنگی اور مصیبت ہو تو بسا اوقات اسی کی فکر میں راہ کر خدا سے غافل ہوجاتا ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو نہ عیش میں خدا کو بھولتے ہیں نہ مصیبت و تکلیف میں، ظفر شاہ دہلوی کا کلام اس معنی میں خوب ہے ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا خواہ ہو کتنا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں خدا نہ رہے جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اس کے بعد ان کی ایک خاص صفت اور علامت یہ بتلائی گئی کہ اگر ان کو کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑے جو ان کو اذیت اور تکلیف پہنچائے تو وہ غصہ میں مشتعل اور مغلوب نہیں ہوجاتے، اور غصہ کے مقتضی پر عمل کر کے انتقام نہیں لیتے، پھر صرف یہی نہیں کہ انتقام نہ لیں بلکہ دل سے بھی معاف کردیتے ہیں، اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ تکلیف دینے والے کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے ہیں، اسی ایک صفت میں گویا تین صفتیں شامل ہیں، اپنے غصہ پر قابو پانا، تکلیف دینے والے کو معاف کرنا، پھر اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا، ان تینوں چیزوں کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین) یعنی وہ لوگ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کا قصور معاف کردیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
امام بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیدنا علی بن حسین ؓ کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ آپ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرا رہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت علی ابن حسین ؓ کے اوپر گرا، تمام کپڑے بھیگ گئے، غصہ آنا طبعی امر تھا، کنیز کو خطرہ ہوا، تو اس نے فورا یہ آیت پڑھی والکاظمین الغیظ، یہ سنتے ہی خاندان نبوت کے اس بزرگ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، بالکل خاموش ہوگئے، اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ والعافین عن الناس پڑھ دیا، تو فرمایا کہ میں نے تجھے دل سے بھی معاف کردیا، کنیز بھی ہوشیار تھی اس کے بعد اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا، واللہ یحب المحسنین جس میں احسان اور حسن سلوک کی ہدایت ہے، حضرت علی بن حسین نے یہ سن کر فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی) لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کردینا انسانی اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ثواب آخرت نہایت اعلی ہے، حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے " قیامت کے روز حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوگی کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق ہے وہ کھڑا ہوجائے، تو اس وقت وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کے ظلم و جور کو دنیا میں معاف کیا ہوگ "۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے
(من سرہ ان یشرف لہ البنیان وترفع لہ الدرجت فلیعف عن من ظلمہ ویعط من حرمہ ویصل من قطعہ) " جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہئے کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کردے اور جس نے اس کو کبھی کچھ نہ دیا ہو، اس کو بخشش و ہدیہ دیا کرے، اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے "۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا خلق عظیم سکھلایا، اور یہ بتلایا ہے کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں، ارشاد فرمایا(ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ (41: 34) " یعنی برائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کرو، تو جس کے ساتھ دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا "۔ حق تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی اخلاقی تربیت بھی اسی اعلی پیمانہ پر فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی یہ ہدایت دی کہ(صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک) " یعنی جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں، اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں، اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں "۔
رسول کریم ﷺ کی تو بڑی شان ہے آپ کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق و اوصاف آپ کے خدام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیے تھے جو اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہے، صحابہ وتابعین ؓ اور اسلاف امت کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظم کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دیں، حضرت امام اعظم نے غصہ کو ضبط فرمایا، اور اس کو کچھ نہیں کہا، اور گھر پر واپس آنے کے بعد ایک خوان میں کافی درہم و دینار رکھ کر اس شخص کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی، یہ شخص باہر آیا تو اشرفیوں کا یہ خوان اس کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش فرمایا کہ آج تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا، اپنی نیکیاں مجھے دیدیں، میں اس احسان کا بدلہ کرنے کے لئے یہ تحفہ پیش کر رہا ہوں، امام کے اس معاملہ کا اس کے قلب پر اثر ہونا ہی تھا، آئندہ کو اس بری خصلت سے ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا، حضرت امام سے معافی مانگی اور آپ کی خدمت اور صحبت میں علم حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں میں ایک بڑے عالم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہاں تک ان اوصاف کا بیان تھا جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں، اس کے بعد حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کا بیان اس طرح فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، اور کبھی بمقتضائے بشریت ان سے گناہ ہوجاتا ہے تو فورا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرتے ہیں، اور آئندہ اس گناہ سے باز آنے کا ارادہ پختہ کرلیتے ہیں،
Top