Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
وہ لوگ ایسے ہیں جو خوشحالی اور تنگ دستی دونوں حالتوں میں خیرات کرتے رہتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرنیوالے اور لوگوں سے در گذر کرنیوالے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیک لوگوں کو بہت پسند کرتا ہے۔2
2 اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جلدی جلدی چلو اور دوڑو جس کی وسعت اور پھیلائو ایسا ہے جیسے سب آسمان و زمین کا پھیلائو وہ جنت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے یہ خدا سے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو خوشحالی اور تنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور خیرات کیا کرتے ہیں خواہ عیش اور فارغ البالی کی حالت میں ہوں یا تنگ دستی اور پریشانی میں مبتلا ہوں اور وہ غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں کی تقصیرات سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ ایسے نیک کرداروں اور نیک روش اختیار کرنے والوں کو بہت پسند فرماتاے۔ اوپر کی آیتوں میں سود کھانے کی ممانعت فرمائی تھی پھر منہیات سے عموماً اور سود سے خصوصاً بچنے پر فلاح و کامیابی کی توقع دلائی۔ اس کے بعد آگ سے بچنے کی تاکید فرمائی جو کافروں کا مسکن ہے اور انہی کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بتایا کہ اگر سود کو حلال کہہ کر گھائو گیتو تم بھی کافروں کی طرح آگ میں ڈال دیئے جائو گے اور اگر حلال کہہ کر نہ کھائو گے تب بھی یہ خطرہ ہے کہ عذاب کئے جائو اگرچہ وہ عذاب دائمی نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا جو تمام آفات سے بچائو کا موجب ہے خواہ وہ اس عالم کی آفات ہوں یا عالم آخرت کی آفات ہوں اس کے بعد جنت اور مغفرت کی طرف دوڑنے اور تیز چلنے کا حکم دیا۔ یعنی ان اعمال کے بجا لانے میں جلدی کرو اور سبقت سے کام لو جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور جنت میں لے جانے کا ظاہری سبب ہیں اور جبکہ ہر شخص زمین و آسمان کی وسعت اور پھیلائو کو سمجھتا ہے اس لئے جنت کی چوڑائی کو سمجھانے کے لئے آسمان و زمین کے پھیلائو کا ذکر فرمایا اور جب چوڑائی اس قدر ہے تو اس کے طول کا کیا کہنا ہے کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہوتا ہے۔ پھر عرض کا بھی یہاں یہ مطلب نہیں کہ سب آسمان و زمین کے پھیلائو سے زیادہ نہ ہوگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کی چوڑائی اتنی تو ہے ہی باقی اس سے زیادہ کی نفی نہیں۔ پھر اس جنت کو اہل تقویٰ کا مسکن فرمایا اور یہ بتایا کہ یہ جنت اہل تقویٰ کے لئے تیار کی گئی ہے اور متقین کی تفسیر میں ہم بتا چکے ہیں کہ تقویٰ کے مختلف درجات ہیں کم سے کم تقویٰ کا درجہ یہ ہے کہ انسان شرک اور بدعت سے بچتا ہو اور تقویٰ کا اعلیٰ متربہ یہ ہے کہ ہر گناہ سے بچتا ہو اور نیکی بجا لاتا ہو۔ غرض تقوے کا اطلاق ایک گناہ گار مسلمان پر بھی ہوسکتا ہے جو شرک و بدعت سے احتراز کرتا ہو اور ایک نبی اور ولی پر بھی ہوسکتا ہے یہاں متقی کی دونوں قسموں کا ذکر ہے پہلے اعلیٰ مرتبہ کے اہل تقویٰ کا ذکر ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جن کی سخاوت کا یہ حال ہے کہ خوش حال ہوں جب بھی ان کا انفاق جاری رہتا ہے اور کبھی تنگدست ہوں تب بھی ان کی خیرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سراء اور ضراء کا مفہوم بہت وسیع ہے کیونکہ انسانی زندگی دو حال سے خالی نہیں یا راحت و عیش ہے یا مصیبت و فقر ہے اہل تقویٰ وہ لوگ ہیں کہ خواہ وہ کسی حالت میں ہوں ان کا ہاتھ برابر چلتا رہتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق مخلوق کی نفع رسانی میں مشغول رہتے ہیں آیت کے دوسرے حصہ میں ان کی تعریف ان الفاظ میں ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرلیتے ہیں اور لوگوں کی خطائوں کو معاف کردیا کرتے ہیں اور چونکہ یہ مرتبہ بہت بلند ہے کہ کسی شخص سے مخلوق کو نفع پہونچے اور مخلوق اس کے ضرر سے محفوظ رہے ۔ اس لئے ایسے احسان کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ احسان کی دو صورتیں ہیں ایک جلب منفعت اور دوسری دفع مضرت تو یہ اہل تقویٰ اس مرتبہ کے لوگ ہیں کہ ان سے کسی کو نقصان کا خطرہ نہیں اور ہر حال میں مخلوق کو ان سے فائدہ ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اور یہ لوگ چونکہ احسان میں کامل ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت بھی کامل ہے اور وہ ان محسنین سے بہت محبت کرتا ہے۔ بہت محبت ہم نے اسی غرض سے کہا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ جن متقیوں کی تعریف کی گئی ہے وہ کمال تقویٰ پر فائز ہیں۔ اہل تقویٰ کی دوسری قسم کا ذکر آگے آتا ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ جنت متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ کیونکہ اہل تقویٰ کے جو معنی ہم نے رض کئے ہیں اس سے ہر مسلمان کا متقی ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کوئی کم درجہ کا متقی ہے اور کوئی بڑے درجہ کا متقی ہے اسی طرح انفاق میں بھی عموم ہے مال سے نفع پنچانا یا علم سے نفع پہنچانا غرض خدا کی مخلوق کو نفع پہنچاتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے سخی اللہ تعالیٰ سے قریب ہے جنت سے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے جنت سے دور ہے۔ لوگوں سے دور ہے اور آگ سے قریب ہے۔ حدیث میں ہے جس شخص نے باوجود اس کے کہ وہ بدلہ لے سکتا تھا اپنے غصہ کو پی لیا اور غضہ ضبط کرلیا تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو امن اور ایمان سے بھر دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت میں ایک پکارنے والا آواز دے گا وہ لوگ کہاں ہیں جن کے ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں یہ آواز سن کر صرف وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کی تقصیرات کو معاف کیا ہوگا۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) کا قول ہے احسان کے بعد احسان کرنا مکافات ہے اور برائی کے بعد برائی کرنا مجازات ہے اور برائی کے جواب میں بھلائی کرنا کرم اور جو د ہے اور بھلائی کے جواب میں برائی کرنا کمینگی اور بدبختی ہے اور یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہرقل کے جواب میں لکھا تھا جب اس نے دریافت کیا تھا کہ جنت کا پھیلائو آسمان اور زمین کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہے آپ ﷺ نے لکھا تھا کہ بھلا تم دیکھتے ہو کہ جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے اور جب رات آتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے اس پر یہود نے کہا تھا آپ ﷺ نے یہ جواب ایسا ہی دیا جیسے تورات میں ہے۔ حضرت ابن عباس اور بعض دیگر صحابہ سے بھی ایسا ہی جواب منقول ہے۔ اس جواب کا یہ مطلب ہے کہ دن کی موجودگی میں رات کا نظر نہ آنا اس کو مستلزم نہیں کہ رات کہیں نہ ہو اسی طرح رات کی موجودگی میں دن کا نہ ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ دن کہیں بھی نہ ہو بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہاں رات اور دن موجود ہوتے ہیں اسیطرح دوزخ بھی جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہاں ہوتی ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب دن اس عالم کے ایک رخ کو ڈھانک لیتا ہے تو دوسرے رخ پر اس کے رات ہوتی ہے اور جب رات اس عالم کے ایک رخ پر چھا جاتی ہے تو دوسرے رخ پر دن ہوتا ہے یہی حالت جنت و دوزخ کی ہے کہ جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور جہنم اسفل سافلین میں ہے۔ بعض آثار الٰہیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم ! جب تجھ کو غصہ آئے تو مجھ کو یاد کر جس وقت مجھ کو غصہ آئے گا میں بھی تجھ کو یاد رکھوں گا اور تجھ کو ان لوگوں کے ہمراہ ہلاک نہ کروں گا جو ہلاک ہونے والے ہیں۔ ابن ابنی حاتم نے حضرت انس بن مالک سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جس نے اپنے غضب کو روکا اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روکے گا اور جس نے اپنی زبان کو روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائے گا اور جس شخص نے معذرت کی تو اللہ اس کی معذرت کو قبول کرلے گا۔ (ابویعلی) ابن کثیر نے کہا یہ حدیث غریب ہے ۔ ابوہریرہ کی روایت ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو پچھاڑتا پھرتا ہے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے کو قابو میں رکھتا ہے یہ مضمون بہت سی احادیث میں آیا ہے۔ حارثہ بن قدامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی نفع کی بات بتا دیجئے تاکہ میں اس کو یاد رکھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا غصہ نہ کیا کر حارثہ نے بار بار دریافت کیا اور آپ ﷺ یہی فرماتے رہے غصہ نہ کیا کر۔ (احمد) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے غصہ کا گھونٹ پی لینے سے بہتر کوئی گھونٹ نہیں ہے (ابن مردویہ مرفوعاً ) غصے کے ضبط کرنے اور لوگوں کی تقصیرات معاف کرنے کے باب میں بکثرت احادیث مروی ہیں اب آگے متقیوں کی دوسری قسم کا بیان ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top