Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو ہر حال میں مال خرچ کرتے ہیں ‘ خواہ بدحال ہوں یا خوش حال ‘ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ‘ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں
معرکہ حق و باطل کی اس فضا میں اس صفت کی طرف یہاں اشارہ ایک خاص مناسبت سے کیا گیا ہے ۔ اس معرکے کے دوران بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید کی جاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سرمایہ داروں پر بھی تنقید کی جاتی ہے جو انفاق فی سبیل اللہ سے کنی کتراتے ہیں ۔ اس نکتہ کی تفصیلات نصوص کی تفسیر کے دوران بیان ہوں گی۔ معرکہ حق و باطل کی اس فضا میں انفاق کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ اور یہاں اس کا بار بار ذکر اس لئے ہوا کہ انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں دعوت اسلامی کے بعض کارکنوں کا موقف اس کا متقاضی تھا۔ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ……………” جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ “ غرض اللہ خوفی اس میدان میں بھی اپنے ثرات دکھاتی ہے۔ بعینہ وہی اسباب اور وہی اثرات جو انفاق کے لئے تھے ‘ غصہ ایک ایسا بطعی انفعال ہے جس کے انسانی خون میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ گویا وہ انسان کے عام فطری رد عمل کی ایک قسم ہے بلکہ وہ انسان کی ایک طبعی ضرورت ہے ۔ اور اس فطری ردعمل کو انسان صرف اس روحانی قوت کے ذریعہ ہی قابو میں لاسکتا ہے جو نور تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔ یہ قوت غضبی اس وقت رام ہوتی ہے جب انسان روحانی قوت سے مسلح ہو اور اس کی نظریں ذاتی ضروریات اور ذاتی دفاع سے بلند ہوکر ایک اعلیٰ انسانی افق پر مرکوز ہوں۔ ہاں غصہ پی جانا تو پہلا مرحلہ ہے اور یہ کافی نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات انسان غصہ تو پی جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے دل میں کینہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں جوش انتقام ولولہ پیدا کرتا ہے ۔ ظاہری غصہ ٹھنڈ اہو کر خفیہ حسد کو جنم لیتا ہے ۔ اور گہری دشمنی پیدا ہوجاتی ہے اور اس صورت میں یہ غیض وغضب جو ظاہری ردعمل ہوتے ہیں ‘ بمقابلہ کینہ اور بغض نسبتاً زیادہ اچھے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعد میں فرماتے ہیں کہ غیظ وغضب کے نتیجے میں حس اور بغض پیدا نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کے بعد عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے اور غلطیوں کو معاف کردینا چاہئے ۔ غصہ کو اگر دل میں چھپالیا جائے تو اس سے دلوں میں پردے پڑجاتے ہیں بلکہ دلوں کے اندرکینہ کی آگ سلگنے لگتی ہے ۔ انسانی ضمیر دخان آلود ہوجاتا ہے ۔ جب انسان دل وجان سے معاف کردیتا ہے اور درگزر کردیتا ہے تو یہ پردہ دلوں سے ہٹ جاتا ہے اور انسان کی روح نور کی فضاؤں میں پرواز کرتی ہے ۔ دل ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور انسانی ضمیر کو امن و سکون نصیب ہوتا ہے ۔ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ……………” ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔ “ کیسے نیک لوگ ‘ وہ جو بدحالی اور خوشحالی میں اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ‘ وہ نیک ہیں ۔ جو لوگ غصہ پی جانے کے بعد لوگوں کو معف کردیتے اور درگزر کرتے ہیں وہ نیک لوگ ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ محبوب رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے لفظ محبت کا استعمال نہایت ہی خوبصورت ‘ دل لگتا اور ضوپاش ہے ۔ اور اس شریفانہ اور منور ماحول کے ساتھ خوب ہم آہنگ ہے ۔ نیکی اور نیکوکاروں کے ساتھ اس اعلان محبت سے ‘ اہل ایمان کے دلوں میں نیکی سے سرچشمے پھوٹتے ہیں ‘ اور یہ سوتے مومن سے مومن تک منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان دلوں میں نیکی کے لئے جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے ۔ غرض یہ صرف پرتاثیر ادا ہی نہیں ہے بلکہ یہ زور دار انداز تعبیر اپنے پیچھے ایک عظیم حقیقت بھی رکھتی ہے ۔ وہ جماعت جسے اللہ محبوب رکھتا ہے اور وہ اللہ کو محبوب رکھتی ہے جس کے اندر عفو و درگزر عام ہے۔ جس کے اندر کینہ اور حسد نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو دوسرے سے پیوستہ اور وابستہ ہے۔ اس کے افراد بھائی بھائی ہیں ۔ یہ قوی اور متین جماعت ہے ۔ اس لئے وہ اپنی اندرونی زندگی میں بھی متحد اور یکجا ہے اور میدان کارزار میں بھی بنیان مرصوص ہے ۔ اس لئے عفو و درگزر کا یہ مضمون بعنوان کارزار سے بھی ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔
Top