Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
(اے نبی ﷺ ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ہیں وہ مرد ہی تھے جن کی طرف ہم نے وحی بھیجی پس اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے معلوم کرلو۔
لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 50 نوحی ہم وحی کرتے ہیں۔ اسئلوا تم پوچھ لو۔ اھل الذکر یاد رکھنے والے، علم والے۔ البینت (البینۃ) کھلی نشانیاں۔ الزبر (زبور) لکھی ہوئی کتابیں، صحیفے۔ الذکر دھیان دینے کی چیز (قرآن کریم) نزل نازل کیا گیا۔ افامن کیا پھر وہ مطمئن ہوگئے۔ یخسف وہ دھنساتا ہے۔ تقلب چلنا، پھرنا، بھاگ دوڑ معجزین عاجز کرنے والے، بےبس کرنے والے۔ تخوف ڈرنا۔ یتقیوا (فی) ڈھلتے ہیں۔ ظلال (ضل) سائے ۔ الیمین داہنی جانب۔ الشمائل بائیں جانب۔ داخرون ذلیل ہونے والے، عاجزی کرنے والے۔ یسجد سجدہ کرتا ہے۔ دابۃ زمین پر رینگنے ، چلنے والے جان دار۔ لایستکبرون وہ بڑائی، تکبر نہیں کرتے ہیں۔ یخافون وہ خوف رکھتے ہیں۔ یفعلون وہ کرتے ہیں۔ یومرون حکم دیئے جاتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 43 تا 50 انبیاء کرام کی بشریت کا انکار یہ ایک ایسا عام مرض ہے جس کو قرآن کریم نے بار بار بیان فرمایا ہے۔ یوں تو کفار ہر طرح کے اعتراضات کرتے تھے لیکن ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اللہ کا نبی وہ کیسے ہو سکتا ہے جو ہماری طرح سے زندگی گذارتا ہو۔ نبی تو ایسا ہونا چاہئے تھا کہ جس کو زندگی کے معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو۔ فرشتے اس کے آگے پیچھے ہوں غیب کی خبریں بتاتا ہو۔ اس کے ساتھ ایسا خزانہ ہو جس کو وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے لٹاتا ہوا آئے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے اس اعتراض کے جواب میں ایک ہی بات ارشاد فرمائی ہے کہ جتن بھی نبی اور رسول بھیجے گئے ہیں وہ انسان ہی ہوتے ہیں کوئی اور مخلوق نہیں ہوتے اور ان کے ساتھ بشریت کے تمام تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو ان کی زندگی دوسرے ان جیسے انسانوں کے لئے قابل عمل ہوتی ہے۔ اگر کسی فرشتے کو بھیج دیا جاتا تو اس کی زندگی میں بسنے والے انسانوں کے لئے کوئی مثالی زندگی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر وہ شخص واقف ہے جسے گزشتہ کتابوں کا علم دیا گیا ہے کفار سے فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کو جاننا ہو تو ان اہل کتاب سے پوچھ لو جن پر تم بہت زیادہ اعتماد کرتے ہو جن کے انبیاء کرام کو معجزات اور کتابیں دی گئی تھیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف جس کلام کو نازل کیا ہے آپ اس کو کھول کھول کر بیان کردیں تاکہ وہ غور و فکر کرسکیں۔ فرمایا کہ اگر اس وضاحت سے وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف آجائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے ان ہی کے لئے فائدہ مند ہے۔ اللہ کسی کی عبادت و بندگی کا محتاج نہیں کیونکہ زمین و آسمان میں جو بھی مخلوق ہے آسمان پر جتنے بھی فرشتے ہیں اور زمین پر ہر طرح کے جان دار ہیں وہ اللہ کے فرماں بردار ہیں اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں جس طرح ان کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس کے سائے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف ڈھلتے جاتے ہیں وہ نہایت عاجزی اور اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو یہ ان کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن اگر انہوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہی طریقہ اختیار کیا اور وہ لوگ جو اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں ان کو اسی طرح ستاتے رہے تو ان پر گذشتہ قوموں کی طرح کوئی بھی عذاب آسکتا ہے۔ زمین میں دھنسا دیا جائے۔ آسمان سے آگ برسا دی جائے، تیز آندھی یا طوفان سے ہلاک کردیا جائے چلتے پھرتے ان پر عذاب آجائے یا زندگی بےسکون اور ویران ہو کر رہ جائے۔ فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان اور کرم کرنے والا ہے وہ کسی کو گناہ کرتے ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس کو مہلت دیتا چلا جاتا ہے تاکہ اس کو سنبھلنے کا پورا پورا موقع مل جائے۔ مہلت کے باوجود اگر کوئی بھی اپنی بری روش پر قائم رہتا ہے تو اس کو کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے تاکہ ان آیات کو سمجھنا آسان ہوجائے۔ 1) تمام انبیاء کرام بشر ہی ہیں لیکن ایسے بشر جن پر بشریت ناز کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو سب سے بڑی عظمت کا مقام عطا فرماتا ہے، ان کی طرف اللہ کے کلام کی وحی کی جاتی ہے اور وہ اللہ کے نمائندہ خصوصی ہوتے ہیں جن کا ہر فعل اور عمل قابل تقلید ہوتا ہے کیونکہ ان پر بشریت کے تمام تقاضے طاری کئے جاتے ہیں جس سے وہ دوسروں کے لئے قابل عمل مثال ہوتے ہیں۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ اس جگہ اگرچہ اہل کتاب کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جس قوم کے لئے معجزات اور کتابیں نازل کی گئی ہیں کہ ان سے تم پوچھ سکتے ہو کہ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں یا نہیں ؟ ان کا جواب یہی ہوگا۔ کہ وہ بشر ہی ہوتے ہیں۔ اس آیت میں بہت سادہ سا اصول بتایا گیا ہے جو بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص جس بات کو نہیں جانتا وہ جاننے والوں سے جان لے کسی چیز کے جاننے میں کوئی عیب نہیں ہے۔ بعض لوگ زندگی بھر چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں اسی لئے الجھے رہتے ہیں کہ وہ کسی سے پوچھنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں قرآن کریم سے یہ اصول بھی مل گیا کہ جس بات کو آدمی نہیں جانتا اس کو جاننے والوں سے جان لینا چاہئے جس مسئلہ کا اس کو علم نہ ہو اس کو کسی عالم سے پوچھ لینا کوئی عیب نہیں ہے۔ 3) چونکہ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اس لئے ان کی زندگی کے طریقوں کو اختیار کرنے میں نہ مشکل ہوتی ہے نہ دشواری کیونکہ ان پر زندگی کے معاملات کو جس طرح طاری کیا جاتا ہے اور وہ اس پر عمل کرتے ہیں وہی ان کے امتیوں کے لئے مثال ہوتے ہیں۔ 4) اللہ کا کلام جس رسول پر بھی نازل کیا جاتا ہے وہ اپنے عمل اور کردار سے اس کی وضاحت کرتا ہے۔ اللہ کے رسول اور نبی کی یہ شان نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کا کلام کسی کتابی شکل میں دے کر چلا جاتا ہو کہ میں نے یہ کتاب تم تک پہنچا دی ہے تم جس طرح چاہو اس کی تشریح کرلو اور جس طرح چاہے عمل کرلو۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے اس کتاب کو نازل کیا ہے اب اس کی وضاحت کرنا اور اس پر عمل کر کے دکھانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے تاکہ لوگ اس پر عمل کرسکیں۔ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بس قرآن کریم پہنچا گئے ہیں اب ہم اس قرآن کو لغت کے ذریعہ خود سمجھ لیں گے ہمیں اس کی وضاحت کے لئے رسول ﷺ کی احادیث کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نعوذ باللہ ان احادیث کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یقین کیجیے جب کوئی میرے سامنے یہ کہتا ہے کہ ہمیں قرآن کافی ہے احادیث رسول ﷺ کی ضرورت نہیں ہے۔ تو میں اس تصور سے کانپ اٹھتا ہوں کہ یہ کیسے گستاخ اور بےہودہ لوگ ہیں جن کے نزدیک ایک شاعر یا جھوٹے افسانے لکھنے والوں کی بےسروپا باتوں میں تو اس کا ایک ایک جملہ بھی جو اس کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس کے بیان کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اللہ کے جس نبی نے سال دو سال نہیں بلکہ پورے تئیس سال تک رات دن پوری محنت سے اللہ کا دین پہنچایا ہو ایک ایک آیت کو سکھایا اور اس کے عمل کی وضاحت فرمائی ہو نعوذ باللہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر قرآن کریم کی وضاحت کو لوگوں نے اپنی مرضی پر ڈھال لیا تو یہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے عظیم جذبے، آپ کے بےمثال عمل اور کردار کی توہین ہے بلکہ توہین قرآن اور توہین رسالت بھی ہے ایسے لوگ اللہ کے عذاب سے کیسے بچے رہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ محض اللہ کا حلم، برداشت اور اس کی مہربانی ہے ورنہ ایسے لوگ کسی معافی کے مستحق نہیں ہیں۔ نعوذ باللہ ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کریم نامکمل ہے اور حدیث رسول اس کو مکمل کرتی ہے۔ بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک کامل ترین کتاب ہے اس کو اور اس کے نور کو کوئی چیز مکمل نہیں کرتی۔ لیکن احادیث رسول قرآن کریم کے نور کو کھولنے والی اور اللہ کی مراد کی وضاحت کرنے والی ہیں۔ اگر احادیث رسول ﷺ کو نظر انداز کر کے کوئی تشریح کی جائے گی تو وہ اس تشریح کرنے والے کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا ہرگز نہیں ہو سکتی۔ جس طرح کسی آیت کی تشریح رسول ﷺ نے فرما دی ہے وہی تشریح ایک سچائی ہے اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حدیث رسول ﷺ کی عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 5) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑنے والے ہیں ان پر عذاب کی چار شکلیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ٭… اللہ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے۔ زمین پھٹ جائے اور یہ اس میں سما جائیں۔ جس طرح قارون کو اس کی تمام دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا گیا تھا اور زمین نے اس کو اور اس کے خزانوں کو نگل لیا تھا۔ ٭… اچانک کوئی عذاب یا آفت آجائے۔ آسمان سے آگ، پتھر یا اولے برسنے لگیں تیز آندھی یا شدید بارش سے سرکش ہلاک کردیئے جائیں۔ ٭… جب یہ لوگ اپنے کاروبار زندگی میں لگے ہوئے ہوں، بازاروں میں چل پھر رہے ہوں اور ان پر اچانک عذاب آجائے۔ ٭… یہ بھی عذاب ہے کہ مرنے سے پہلے ان پر ایسی بےچینی، بےسکونی اور ویرانی طاری ہوجائے، قحط سالی، وبا، بیماریاں اور دشمن کا غلبہ ہوجائے کہ اس سے وہ ہلاک ہوجائیں۔ بہرحال اللہ کا عذاب آنے کی کوئی ایک شکل نہیں ہے بلکہ وہ جب اور جہاں اور جیسے چاہے نافرمانوں پر عذاب نازل کرسکتا ہے۔ لیکن وہ رؤف و رحیم ہے اس لئے ان کو مہلت اور ڈھیل دیئے ہوئے ہے جس سے ان کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ 6) اللہ تعالیٰ کسی کی عبادت و بندگی کا محتاج نہیں ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز اس کی اطاعت میں اس کے سامنے سرنگوں ہے۔ انسان اگر عبادت و بندگی کرتا ہے تو یہ اس کی سعادت کی بات ہے۔ وہ اللہ کسی کی نیکی اور عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ اگر دنیا کے سارے انسان اللہ کی نافرمانی کرنے لگیں یا سب مل کر اس کی عبادت و بندگی کریں اللہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ چاند، سورج، ستارے، ہوائیں، فضائیں، تمام جاندار اور ہر چیز کے سائے اس کو ہر وقت سجدے کرتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ساری کائنات اس کے ایک اشارے کی منتظر ہے۔ جب وہ کن کہتا ہے تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ وہ نہ انسانوں کی کسی نیکی کا محتاج ہے اور نہ دنیاوی اسباب کا ۔
Top