Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو ساتھ لے کر راتوں رات چلے جاؤ بلاشبہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا
بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے ہجرت کرنے کا حکم 1۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ نکل جاءٰں اور فرمایا آیت ” ان اسر بعبادی لیلا “ (الدخان آیت (23) یعنی میرے بندوں کو رات کو لے کر چل دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو نکلنے کا حکم فرمایا اور ان کو حکم فرمایا کہ قبط یعنی فرعون کے خاندان والوں عاریتا زبور لے لیں اور حکم فرمایا کوئی بھی اپنے ساتھی کو آواز نہ دے اور صبح تک اپنے گھروں میں چراغ جلائے رکھیں اور جو آدمی ان میں سے نکلے تو اپنے دروازے کے آگے خون لگادے یہاں تک کہ وہ جان لیا جائے کہ وہ نکل چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ان تمام بچوں کو بنی اسرائیل کی طرف نکال دیا جو قبطیوں کے گھروں میں بنی اسرائیل کے پیدا ہوئے تھے اور قبطیوں کے ان تمام بچوں کو قبطیوں کی طرف نکال دیا جو قبطیوں کے بنی اسرائیل کی عورتوں سے پیدا ہوئے تھے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت نکل کھڑے ہوئے جبکہ قبطیوں کو علم نہ تھا اللہ تعالیٰ نے قبطیوں پر موت طاری کردی خاندان میں سے نوجوان مرنے لگا۔ وہ ان کو دفن کرنے لگے اور ان کی تلاش سے غافل ہوگئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) چھ لاکھ بیس ہزار کو لے کر نکلے بیس سال والوں کو ان کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے شمار نہیں کیا گیا اور نہ ساٹھ سال والوں کو ان کی بڑی عمر ہونے کی وجہ سے شمار کیا ان کے درمیان عمرو الوں کو شمار کیا گیا بچوں کے علاوہ فرعون ان کے پیچھے لگا ان کے اگلے حصے پر ہامان امیر تھا دس لاکھ کی فوج میں سات لاکھ گھوڑے تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو پالتو ہو۔ اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت ’ ’ فارسل فرعون فی المدائن حشرین، ان ہئلاء لشر ذمہ قلیلون “ اور موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساقہ پر تھے اور ہارون (علیہ السلام) ان کے آگے آگے جار رہے تھے ایک مومن نے موسیٰ سے کہا آپ کو کہاں کا حکم دیا گیا ہے آپ نے فرمایا سمندر کا اس نے اس میں گھسنے کا ارادہ کیا تو موسیٰ نے اس کو روک دیا بنی اسرائیل نے فرعون کی طرف دیکھا کہ وہ ان کے پیچھے آرہا ہے تو انہوں نے کہا اے موسیٰ آیت ” انا لمدرکون “ یعنی ہم تو پکڑے گئے موسیٰ نے فرمایا آیت ’ ’ ان معی ربی سیہدین “ یعنی میرا رب مجھ کو ضرور راستہ دکھائے گا۔ یعنی عنقریب وہ کافی ہوں گے دشمن کی طرف سے۔ ہارون آگے بڑھے اور سمندر میں لاٹھی ماری تو سمندر نے راستہ دینے سے انکار کردیا اور کہا وہ کون جبار ہے جو مجھ کو مار رہا ہے۔ یہاں تک کہ موسیٰ اس کے پاس آئے سمندر کے ابو خالد کی کنیت دی۔ پھر انہوں نے ضرب لگائی۔ آیت ” فانفلق فکان کل فرق کا الطود العظیم “ یعنی سمندر پھٹ گیا پڑے پہاڑ کی طرح بنواسرائیل داخل ہوئے اور سمندر میں بارہ راستے تھے اور ہر راستے میں ایک قبیلہ تھا اور جب راستے دیواروں کے ساتھ جدا ہوگئے اور ہر فرقے نے کہا کہ ہمارے ساتھ مارے گئے جب موسیٰ نے یہ سنا تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ان راستوں کو ان کے لیے پل بنادئیے جو طبقات کی طرح تھے ان کا آخر آدمی ان کے پہلے آدمی کو دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ سب پار نکل گئے پھر فرعون اور اس کے ساتھی سمندر سے قریب ہوئے۔ جب فرعون نے سندر کی طرف دیکھا کہ وہ پھٹ گیا ہے کہا تم سمندر کی طرف نہیں دیکھتے ہو کہ وہ پھٹ چکا ہے مجھ سے ڈر گیا ہے یہ میرے لیے کھول دیا گیا یہاں تک کہ میں اپنے دشمنوں کو پالوں گا تو ان کو قتل کردوں گا جب فرعون کے لشکر راستوں کے منہ پر پہنچے تو ان کے گھوڑوں نے سمندر میں گھسنے سے انکار کردیا تو جبرائیل (علیہ السلام) گھوڑی پر سوار ہو کر نیچے اتر گھوڑوں نے گھوڑی کی بو کو سونگھا پھر اس گھوڑی کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے سمندر میں داخل ہوگئے یہاں کہ جب پہلے فوجی نے سمندر سے نکلنے کا ارادہ کیا کہ وہ نکل جائیں اور ان کا آخری آدمی داخل ہو اتو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ ان کو پکڑ لیں تو سمندر ان پر مل گیا جبرئیل (علیہ السلام) اکیلے کافی ہوئے فرعون کے لیے اور فرعون کو سمندر کی تہہ میں غوطہ دینے لگے اس کے منہ کوئی چیز ٹھونس رہے تھے۔ 2۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ان ہؤ لاء لشر ذمۃ قلیلون “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو بتایا گیا کہ بنی اسرائیل جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ دریا کو پار کیا وہ چھ لاکھ جنگجو اور بیس ہزار سے کچھ اوپر اور تھے فرعون ان کے پیچھے لگا دس لاکھ فوج دو لاکھ گھوڑوں کے ساتھ۔ 3۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ان ہؤلاء لشر ذمۃ قلیلون “ سے مراد ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی۔ 4۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر (رح) نے ابو عبیدہ ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ 50۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان ہؤلاء لشرذمۃ قلیولن “ سے مراد ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لشرذمہ “ ‘ سے مراد ہے کہ ایک ٹکڑا یعنی تھوڑی تعداد۔ 7۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لشرذمۃ “ سے مراد ہے لوگوں کی ایک جماعت۔ 8۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی جنہوں نے دریا کو پار کیا تھا بارہ قبیلے تھے اور ہر راستے میں یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بارہ ہزار افراد تھے۔ 9۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) نے فرمایا کہ آیت ” ان ہؤلاء لشرذمۃ قلیلون “ سے مراد ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اس دن چھ لاکھ تھی اور فرعون کی تعداد کا شمار ہی نہ تھا۔ 10۔ ابن مردویہ نے ضعیف سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرعون اللہ کا دشمن تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھیوں کو ستر قائدین کے ساتھ دفن کردیا جب اللہ تعالیٰ نے ان کو غرق کیا ہر قائد کے ساتھ ستر ہزار لشکر تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ستر ہزار تھے جب انہوں نے دریا کو پار کیا۔ 11۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل کے ہر چار گھروں کو ایک گھر میں جمع کرو پھر بھیڑ کے بچوں کو ذبح کرو پھر اس کے خون ہر دروازہ پر لگاؤعنقریب میں فرشتوں کو حکم دینے والا ہوں کہ جس گھر کے دروازہ پر خون ہو اس میں داخل نہ ہو اور عنقریب فرشتوں سے حکم کروں گا کہ فرعون کے نوجوان کو مارڈالیں جو ان کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں پھر تازہ روٹی پکاؤ کیونکہ وہ جلدی تیار ہوجائے گی تمہارے لیے پھر جاپڑو یہاں تک کہ سمندر پر پنچو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ تیرے پاس میرا حکم آجائے جب فرعون نے صبح کی تو کہا یہ عمل ہے موسیٰ اور اس کی قوم کا کہ انہوں نے ہمارے نوجوانوں کو قتل کردیا ہے۔ 12۔ ابن اسحاق وابن المنذر نے یحییٰ بن عروہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ بنی اسرائیل کو لے کر چلو اور موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو اس وقت لے کر چلیں گے جب چاند طلوع ہوگا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس پر طلوع کو موخر کردیں یہاں تک کہ لوگ کام کاج سے فارغ ہوجائیں جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو فرعون نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ یہ چھوٹی سی جماعت ہے آیت ” ان ہؤلاء لشرذمۃ قلیلون “ یہ ایک تھوڑی سی جماعت ہے۔ 13۔ ابن المنذر نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو ان کے ساتھ چھ لاکھ بنی اسرائیل تھے ان میں بیس سال سے کم کو اور چالیس سال سے زیادہ کو شمار نہیں کرتے تھے فرعون نے کہا آیت ” ان ہؤلاء لشرذمۃ قلیلون “ یعنی یہ تھوڑی سی جماعت ہے اور فرعون سیاہ رنگ کے گھوڑے پر نکلا اور اس کے ساتھ آٹھ لاکھ کا لشکر سیاہ گھوڑوں پر سوار تھا دوسرے رنگوں کے گھوڑے اس کے علاوہ تھے اور جبرئیل (علیہ السلام) ایک مادہ گھوڑے پر سوار تھے فرعون کا گھوڑا اس کے پیچھے ہوگیا اور میکائیل (علیہ السلام) ان کے پیچھے تھے اور وہ فرماتے تھے کہ اپنے ساتھیوں کو ملا لو یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی بھی دریا میں داخل ہوجائے اور ان کے اول آدمی نے سمندر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو سمندر ان پر مل گیا۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ بنی اسرائیلکو مصر سے لے جائین تو یہ بات فرعون کو پہنچ گئی اس نے کہا ان لوگوں کو مہت دو یہاں تک کہ جب مرغا بانگ دے وہ اس کے پاس آئے مگر اس رات مرغے نے بانگ ہی نہیں دی موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر چلے گئے جب فرعون نے صبح کی تو ایک بکری لانے کا حکم کیا اس کے پاس لائی گئی اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا پھر کہا اس کی کھال کھنیچنے سے پہلے میرے پاس پانچ لاکھ گھوڑے جمع ہوجائیں انہوں نے اس کی طرف جمع کردئیے تو فرعون ان کے پیچھے لگا جب موسیٰ (علیہ السلام) سمندر پر پہنچے ان کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کو کہاں کا حکم دیا گیا ہے فرمایا یہاں سمندر میں۔ 15۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا فرعونکے لشکر کا ہر اوال دستہ جن کو اس نے بنی اسرائیل کے پیچھے بھیجا تھا ان کی تعداد چھ لاکھ تھی وہ سب سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ 16۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فرعون کے گھوڑے کی نشانی یہ تھی کہ اس کی کنپٹیوں میں سفید پٹی تھی اور گھڑ سواروں کا دستہ ایک لاکھ گھوڑوں پر مشتمل تھا۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ آل یعقوب یوسف کی طرف جمع ہوئے اور ان کی تعداد چھیاسی تھی ان کے مرد اور عورتیں تھیں اور جس دن موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو نکالا تو وہ چھ لاکھ سے زائد تھے فرعون ان کی تلاش میں ایک سیاہ گھوڑے پر نکلا آٹھ لاکھ سیاہ گھوڑے کے ساتھ دوسرے رنگوں کے گھوڑے بھی تھے جبکہ شمال کی جانب سے ہوا چلی اور جبرئیل (علیہ السلام) ایک خاکستری گھوڑے پور سوار تھے اور میکائیل (علیہ السلام) ان کو یعنی فرعون کے لشکر کو پیچھے سے دھکیل رہے تھے ان میں سے کوئی لشکر سے الگ ہوتا تھا تو اس کو ملادیتے تھے قوم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم فرعون سے ذلت اور رسوائی اٹھایا کرتے تھے اب کیسے ہوگا اگر ہم نے ایسا کیا جو ہم کو پناہ کی جگہ پر ملے گی۔ اللہ کے رسول نے فرمایا پناہ کی جگہ دریا ہے۔ 18۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وان الجمیع حذرون “ سے مراد ہے قوی اور مضبوط۔ 19۔ الفریابی وعبد بن حمید وابنجریر وابن ابی حاتم نے اسود بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو پڑھا اور فرمایا آیت ” وان الجمیع حذرون “ سے مراد ہے قوی اور مضبوط 20۔ عبد بن حمید نے اسود (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت پر آیت ” وانا لجمیع حذرون “ کو پڑھا اور فرمایا اس کا معنی ہے دشمن کو بھگانے والا اور مستعد۔ 21۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے آیت ”’ وانا لجمیع حذرون “ اور فرماتے تھے کہ اس کا معنی ہے کہ ہم بہت زیادہ ہتھیار والے ہیں۔ 22۔ عبد بن حمید نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ عبید نے اس طرح پڑھا آیت ” وانا لجمیع حذرون “ 23۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وان الجمیع حذرون “ سے مراد ہے ہتھیار بند۔ 24۔ عبد بن حمید نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وان لمیع حذرون “ سے مراد ہے کہ ہم خفیہ تدبیر کرنے والے اور اسلحہ اور گھوڑوں میں قوی ہیں۔ 25۔ عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت ” وانا لجمیع حذرون “ 26۔ ابن الانباری فی الوقف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” وانا لجمیع حذرون میں حاذرون سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا مکمل ہتھیار والے۔ اس میں نجاشی نے کہا لمر ابی اتانی حیثا امسی لقد تاذت لہ بہ ابناء بکر ترجمہ : میرے باپ کی قسم وہ میرے پاس آیا جب شام ہوچکی تھی اس کی وجہ سے بکر کے بیٹے اذیت میں مبتلا ہوئے خفیفہ فی کتاب حاذرات یقودہم ابو شبل ہزبر ترجہ : مکمل اسلحہ جمع کرنے میں ہلکے پھلکے ہیں ان کی قیادت ابو شبل ہزر کرتا ہے۔ 27۔ عبد بن حید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فاخرجنہم من جنت وعیون، وکنوز مقام کریم “ یعنی دنیا میں وہ جن نعمتوں میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نعمتوں سے نکالا اور بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیا۔ 28۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ومقام کریم “ سے مراد ہے منبر۔ 29۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا آیت ” فاتبعوہم مشرقین “ سے مراد ہے کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کے پیچھے لگا جب سورج طلوع ہو۔ آیت ” قال اصحاب موسیٰ انا لمدرکون “ موسیٰ نے فرمایا اور وہ ان سے اللہ کے بارے میں زیادہ جاننے والے تے۔ فرمایا آیت ” کلا ان معی ربی سیہدین۔ ہرگز نہیں میرا رب مجھ کو ضرور راستہ دکھائے گا۔ 30۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اسی طرح پڑھا آیت ” فاتبعوہم مشرقین “ مہموز اور الف قطعی کے ساتھ۔ 31۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فاتبعوہم مشرقین “ سے مراد ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رات کو نکلے رات کو چاند گرہن تھا اور زمین پر تاریکی چھاگئی ان کے ساتھیوں نے کہا کہ یوسف ہم کو خبر دیتے تھے کہ ہم عنقریب فرعون سے نجات پائیں گے اور آپ نے ہم سے عہد لیا تھا کہ ہم آپ کی ہڈیاں نکال کر ساتھ لے جائیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس رات آپ کی قبر کے بارے میں پوچھنے لگے۔ آپ نے ایک بڑھیا کو پایا اور اس سے یوسف (علیہ السلام) کی قبر کے بارے میں پوچھا اس بڑھیا نے ایک شر کے ساتھ ہڈیاں نکال دیں اپنے حکم کے ساتھ اس کی شرط یہ تھی کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ مجھ کو سوار کر کے اپنے ساتھ نکال کرلے جاؤ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کو ایک چادر میں رکھ دیا پھر اس بڑھیا کو اس چادر پر اٹھا لیا اور اس کو اپنی گردن پر رکھ لیا اور فرعون کا گھوڑا ایک جماعت میں تھا ان کی لگامیں ان کی نظر میں سبز تھیں۔ فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں سے غافل رہا یہاں تک کہ وہ سب نکل گئے۔ 32۔ ابن ابی حاتم نے خالد بن عبد اللہ قشیری (رح) سے روایت کیا کہ آل فرعون کا مومن قوم سے آگے تھا اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! آپ کو کہاں کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا تیرے سامنے عرض کیا میرے سامنے تو سمندر ہے فرمایا اللہ کی قسم نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ میرے ساتھ جھوٹ بولا گیا پھ رکچھ دیر چلا پھر اسی طرح کہا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اسی طرح جواب دیا جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) قوم سے زیادہ جاننے والے تھے اللہ کے بارے میں۔ فرمایا۔ آیت ” کلا ان معی ربی سیہدین “۔ ہرگز فرعون ہم کو نہیں پائے گا بلاشبہ میرا رب میرے ساتھ ہے عنقریب مجھے راستہ دکھائے گا۔
Top