Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے وحی نازل کی موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف کہ رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر نکل جائو ۔ بیشک تمہارا پیچھا کیا جائے گا
ربط آیات جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ حق کا آغاز کیا تو فرعون نے آپ پر جادوگری کا الزام لگایا اور آپ سے مقابلہ کے لیے ملک بھر کے جادوگروں کو اکٹھا کیا ۔ فرعونیوں کے قومی میلے کے دن سب لوگ ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے ۔ جہاں جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنا تھا۔ جادوگروں نے پہل کی اور کچھ رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں جو دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگیں ۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گئی اور جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گئی ۔ یہ معجزہ دیکھ کر جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون اور اس کے حواری اپنی ضد پر اپڑے رہے۔ فرعون نے جادوگروں کے ایمان لانے کا بھی بہت برا منایا اور ان کو سخت سزا دینے کی دھمکی بھی دی ۔ مگر ان کو اللہ نے ایمان پر استقامت بخشی اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ انہیں اب کچھ خوف نہیں ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف ہی پلٹ کر جانے والے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً چالیس سال تک موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں مقیم رہ کر اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے اور فرعون کو درس توحید دیتے رہے آپ اس سے اسرائیلیوں کی آزادی کا مطالبہ بھی کرتے رہے تا کہ وہ اپنے اصل دشمن شام و فلسطین جاسکیں مگر فرعون نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے اسرائیلوں کو مزید تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ بنی اسرائیل نے فرعون کے مظالم سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ( الاعراف : 921) کہ آپ کے دین سے واپسی سے پہلے بھی ہم تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہمارے مصائب میں کمی نہیں آئی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم صبر کرو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ زمین کا وارث بناتا ہے۔ والعاقبۃ للمتین ( الاعراف : 721) اور آخری کامیابی متقین ہی کے حصے میں آتی ہے۔ سورة یونس میں اس مضمون کو مزید درد ناک انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ فرعونی لوگ بنی اسرائیلیوں کو کھلے بندوں نماز بھی نہیں پڑھتے دیتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ مصر ہی میں اپنے گھروں میں رہو واجعلوابیوتکم قبلۃ واقیمو الصلوٰۃ ( آیت 71) اپنے گھروں میں قبلہ رخ نماز ادا کرتے رہو ۔ اس دوران فرعونی بنی اسرائیل کو قتل کرتے رہے ان سے سخت مشقت کے کام لیتے ہے اور وہ بیچارے ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ بعض اوقات جب فرعونیوں پر قحط سالی یا کوئی دوسری مصیبت آتی تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست بھی کرتے اور ساتھ وعدہ بھی کرتے کہ اگر یہ تکلیف دور ہوگئی تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد بھی کردیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ان سے وہ تکلیف دور کردیتا تو وہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ۔ یہ سارے واقعات سورة یونس میں مذکور ہیں۔ بنی اسرائیل کا خروج اس مقام پر ان درمیانی واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ بلکہ جادوگروں کے مقابلہ کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے مصر سے خروج اور فرعونیوں کی ہلاکت کا واقعہ بیان کیا گیا ۔ ارشاد ہوتا ہے واوحینا الیٰ موسیٰ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی ان اسر بعبادی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائو ۔ دوسری رات کے سفر کو کہتے ہیں جیسا کہ واقعہ معراج بھی بیان کیا گیا ۔ سبحان الذی سوی بعبدہ ( بنی اسرائیل : 1) پاک ہے وہ خدا تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا ۔ تو یہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو رات کے وقت سفر کرنے کا حکم دیا گیا ۔ بنی اسرائیل کے خروج کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ بنی اسرائیل ہر سال شہر سے باہر کھلے میدان میں چند دن کے لیے کوئی تقریب منایا کرتے تھے ۔ اس مرتبہ بھی جب وہ دن قریب آئے تو انہوں نے جشن منانے کی تیاری شروع کی ۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ انہوں نے تقریب کے موقع پر پہننے کے لیے بعض قبطیوں سے کچھ زیورات بھی سقار لیے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو سمجھا دیا تھا کہ دوران سفر استعمال کے لیے خوراک کا مختصر ذخیرہ بھی ہمراہ لے لیں ۔ ادھر کسی وبائی مرض کی وجہ سے قبطیوں کے گھروں میں کچھ نوجوان اموات بھی واقع ہوگئیں جس کی وجہ سے وہ لوگ زیادہ تر ادھر مصروف ہوگئے۔ ادھر بنی اسرائیل کو راتوں رات نکلے کا حکم مل گیا ۔ فرعونی لوگوں نے اس بات کا زیادہ نوٹس نہ لیا وہ جانتے تھے کہ بنی اسرائیل ہر سال چند دن کے لیے جشن منانے کے لیے جایا ہی کرتے ہیں ۔ بہر حال بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ رات کے وقت نکل چلو اور ساتھ اس بات سے بھی آگاہ کردیا انکم متبون کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۔ مگر گھبرانا نہیں ، اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرے گا ۔ فرعون کی منصوبہ بندی بنی اسرائیل کے خروج کے تین دن بعد فرعونیوں کو خیال آیا کہ اس مرتبہ سارے کے سارے بنی اسرائیل میلے میں چلے گئے ہیں اور ان کا ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہا ، آخر بات کیا ہے ؟ انہیں بنی اسرائیل کے فرار کا شبہ پیدا ہونے لگا چناچہ فرعون نے فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کر کے معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں گئے ہیں فارسل فرعون فی المدائن حشرین پس بھیجا فرعون نے مختلف شہروں میں اکٹھا کرنے والوں کو منصوبہ یہ تھا کہ تمام فوجی جوان اور سرکردہ قبطی اکٹھے ہو کر بنی اسرائیل کا تعاقب کریں ۔ آجکل کی اصطلاح کے مطابق پورے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ۔ تمام سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوجانے کا حکم دے دیا گیا ۔ بہت سے تیز رفتار گھوڑ سواروں کے ذریعے فوجیوں سرکردہ عہدیداروں اور دیگر اہم لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ۔ اس وقت مصر میں ایک ہزار بڑے بڑے شہر اور بہت سی چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں ۔ سب میں آدمی بھیج کر لشکر جمع کیا گیا ۔ ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ ڈھارس بھی بندھائی گئی کہ اس مہم سے گھبرانا نہیں ان ھولاء لشرذمۃ قلیلون یہ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے جسے ہم نے پکڑنا ہے اور ہماری کثرت تعداد کے پیش نظر یہ ایک معمولی سا کام ہے ، نیز اپنے لوگوں کو ابھارنے کے لیے یہ بھی کہا وانھم لنا لغائظون اور بیشک ہم سب ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی دفعہ بحث مباحثہ ہوچکا تھا اور آپ نے ہر دفعہ فرعونیوں کو لا جواب کیا حتیٰ کہ فرعون کے بعد سے بڑے جادوگر بھی آپ پر ایمان لا چکے تھے ۔ لہٰذا فرعون پوری اسرائیلی قوم کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا تھا کہ یہ کسی بھی وقت اس کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ مفسرین کرام حذرون کا معنی یہ بھی کرتے ہیں کہ ہم مسلح ہیں ۔ جیسا کہ جہاد کے ضمن میں آتا ہے کہ نماز پڑھتے وقت بھی خذو حذر کم ( النسائ 41) اپنے ضروری ہتھیار اپنے پاس رکھو کہ کہیں دشمن دوران نماز ہی حملہ نہ کر دے۔ اس لحاظ سے یہ معنی بھی درست ہے کیونکر فرعون کی پوری فوج ہتھیار بند تھی جب کہ اسرائیل قوم غیر مسلح اور بےسرو سامان تھی۔ فرعون کی طرف سے تعاقب فرعونی لشکر کو جمع ہوتے ہوئے کئی دن گزر گئے اور اس اثناء میں بنی اسرائیل بحر قلزم کے کنارے پر پہنچ گئے ۔ فرعونیوں کا بارہ تیرہ لاکھ کا لشکر اسرائیلوں کے تعاقب میں چل پڑا ۔ اسی واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاخرجنھم من جنت وعیون ہم نے نکالا ان کو باغات اور چشموں سے مصر بڑا سر سبز ملک تھا اس میں ڈیم اور نہریں بنی ہوئی تھیں ۔ دریائے نیل سارا سال بہتا تھا۔ زمین سیراب ہوتی تھی جس سے فصل اور باغات پیدا ہوتے تھے اس لیے اس کو باغات اور چشموں کی سر زمین کہا گیا ہے کہ ہم نے فبطیوں کو ایسی جگہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ وہ اپنے ڈیم نہریں اور چشمے ، فصل سے بھر پور کھیت اور پھل سے لدے باغات کو چھوڑ کر اسرائیلوں کے تعاقب میں چل کھڑے ہوئے وکنوز و مقام کریم ہم نے انہیں خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا ۔ ظاہر ہے کہ خوشحال ملک کے باشندوں کے پاس مال و دولت اور خزانے بھی وافر ہوں گے اور ان کی رہائش گاہیں بھی اعلیٰ درجے کی ہوں گی ، جن میں ہر قسم کی آرام و آسائش ہوگی ۔ تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں ایسی جگہوں سے نکال کر بحر قلزم کی لہروں کے سپرد کردیا اور پھر وہ لوٹ کر اپنے باغات اور گھروں میں واپس نہ آسکے۔ فرمایا کذلک ہم نے ان کو اسی طرح نکالا جس کا نقشہ سورة ہود میں کھینچا گیا ہے۔ یقدم قومہ یوم القیمۃاور دھم النار ( آیت : 89) کہ آگے آگے فرعون تھا اور اس کے پیچھے پیچھے سارا لشکر اور موالی درباری تھی فرمایا قیامت والے دن بھی ایسا ہی ہوگا کہ فرعون آگے آگے چل رہا ہوگا ۔ اس کا سارا لشکر اس کے پیچھے پیچھے ہوگا ، جنہیں لے کر وہ دوزخ میں پہنچ جائے گا ۔ بنی اسرائیل بحیثیت ورثائے مصر فرمایا ہم نے فرعونیوں کو ان کے باغات ، چشموں ، خزانوں اور عمدہ ٹھکانوں سے نکالا واورثنھا بنی اسرائیل اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا ۔ مفسرین کے نزدیک یہ حصہ آیت اس لحاظ سے اشکال پیدا کرنے والا ہے کہ فرعونیوں کی بحر قلزم میں غرقابی کے بعد بنی اسرائیل تو ان کی املاک کے وارث نہیں بنے مگر یہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو وارث بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل بحر قلزم کو معجزاتی راستوں کے ذریعے عبور کرگئے تو پھر وہ واپس مصر نہیں آئے بلکہ آگے صحرائے سینا پہنچ گئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اربعین سنۃ یلیھون فی الارض (المائدہ : 62) چالیس سال تک وہیں بھٹکتے رہے ان کے لیے حکم یہ تھا کہ ارض مقدس میں واپس کے لیے وہاں کے قابضین سے جہاد کریں مگر انہوں نے پس و پیش کیا اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑو ، ہم تو یہیں بیٹھیں گے ۔ اسی دوران موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) فوت ہوگئے۔ پھر نئی نسل آئی اور انہوں نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کی سرگردگی میں جہاڈ کیا اور ارض مقدس شام و فلسطین پر دوبارہ قابض ہوئے۔ اس ضمن میں مفسر قرآن حضرت قتادہ (رح) کے قول سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ممکن ہے بنی اسرائیل صحرائے سینا کی قید کے بعد دوبارہ مصر گئے ہوں اور انہوں نے فرعونیوں کی املاک پر قبضہ بھی کیا ہو جس کا ذکر اس آیت میں اللہ نے کیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب فرعون غرق ہوگیا ۔ اور اس کے ساتھ اس کا بارہ تیرا لاکھ کا لشکر بھی لقمہ اجل بن گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کچھ اسرائیلوں کو واپس مصر بھیج دیا تھا تا کہ جا کر وہاں کا نظم سنبھال لیں کیونکہ فرعونیوں کی اکثریت اور ان کے سرکردہ لوگ تو ختم ہوچکے تھے اور مصر میں نظم و نسق کا خلاء پیدا ہوگیا تھا ۔ مگر ان میں سے کوئی بھی روایت پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ بنی اسرائیل اس وقت واپس مصر نہیں گئے۔ بلکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں انہیں مصر پر دوبارہ اقتدار حاصل ہوا جو کہ بہت عرصہ بعد کی بات ہے ۔ تاریخی لحاظ سے بھی فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر پر قبطیوں کو ہی اقتدار حاصل رہا ۔ حتیٰ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر دوبارہ آپ کے زیر نگیں آیا۔ اندریں حالات مفسرین کرام اس آیت کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو باغات چشموں اور محلات و خزائن کا وارث مصر میں نہیں بلکہ شام و فلسطین میں بنایا تھا۔ یہ سر زمین بھی بڑی زرخیز ہے جہاں دریا ، نہریں اور چشمے جاری ہیں ۔ اناج پھل اور پھول ہوتے ہیں ۔ لوگ خوشحال ہیں ۔ خزانوں اور عمدہ رہائش گاہوں کے مالک ہیں ۔ تو اس وراثت سے مراد ارض مقدس کی وارثت ہے نہ کہ مصر کی ، چناچہ سورة الدخان میں آتا ہے واورثنھا قوما اخرین ( آیت : 82) وہاں پر باغات ، چشموں ، کھیتی باڑی اور محلات کا ذکر ہے کہ ہم نے دوسروں کو اس کا وارث بنایا۔ دوسروں میں میں اسرائیلوں کا ذکر نہیں ہے ، البتہ نہ نعمتیں انہیں ملک و شام میں جا کر حاصل ہوئیں ۔ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء معبوث ہوئے ۔ بڑے بڑے بادشاہ اور جرنیل پیدا ہوئے۔ پھر حضرت ، دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا دور آیا ۔ مختلف اقوام سے مقابلہ ہوا ۔ اس کے بعد بخت نصر نے پھر ان پر غلبہ حاصل کرلیا ۔ اور انہوں نے سو سال تک غلامی کی زندگی بسر کی ۔ اس کے بعد اللہ نے پھر انہیں اس غلامی سے رہائی دلائی اور ان نعمتوں کا وارث بنایا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اس حصہ آیت کا یہی معنی راجح ہے۔
Top