Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ
: اور ہم نے وحی کی
اِلٰى
: طرف
مُوْسٰٓي
: موسیٰ
اَنْ اَسْرِ
: کہ راتوں رات لے نکل
بِعِبَادِيْٓ
: میرے بندوں کو
اِنَّكُمْ
: بیشک تم
مُّتَّبَعُوْنَ
: پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے وحی نازل کی موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف کہ رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر نکل جائو ۔ بیشک تمہارا پیچھا کیا جائے گا
ربط آیات جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ حق کا آغاز کیا تو فرعون نے آپ پر جادوگری کا الزام لگایا اور آپ سے مقابلہ کے لیے ملک بھر کے جادوگروں کو اکٹھا کیا ۔ فرعونیوں کے قومی میلے کے دن سب لوگ ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے ۔ جہاں جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنا تھا۔ جادوگروں نے پہل کی اور کچھ رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں جو دوڑتے ہوئے سانپ نظر آنے لگیں ۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گئی اور جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گئی ۔ یہ معجزہ دیکھ کر جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون اور اس کے حواری اپنی ضد پر اپڑے رہے۔ فرعون نے جادوگروں کے ایمان لانے کا بھی بہت برا منایا اور ان کو سخت سزا دینے کی دھمکی بھی دی ۔ مگر ان کو اللہ نے ایمان پر استقامت بخشی اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ انہیں اب کچھ خوف نہیں ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف ہی پلٹ کر جانے والے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد تقریباً چالیس سال تک موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں مقیم رہ کر اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے اور فرعون کو درس توحید دیتے رہے آپ اس سے اسرائیلیوں کی آزادی کا مطالبہ بھی کرتے رہے تا کہ وہ اپنے اصل دشمن شام و فلسطین جاسکیں مگر فرعون نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے اسرائیلوں کو مزید تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ بنی اسرائیل نے فرعون کے مظالم سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ( الاعراف : 921) کہ آپ کے دین سے واپسی سے پہلے بھی ہم تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہمارے مصائب میں کمی نہیں آئی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم صبر کرو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ زمین کا وارث بناتا ہے۔ والعاقبۃ للمتین ( الاعراف : 721) اور آخری کامیابی متقین ہی کے حصے میں آتی ہے۔ سورة یونس میں اس مضمون کو مزید درد ناک انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ فرعونی لوگ بنی اسرائیلیوں کو کھلے بندوں نماز بھی نہیں پڑھتے دیتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ مصر ہی میں اپنے گھروں میں رہو واجعلوابیوتکم قبلۃ واقیمو الصلوٰۃ ( آیت 71) اپنے گھروں میں قبلہ رخ نماز ادا کرتے رہو ۔ اس دوران فرعونی بنی اسرائیل کو قتل کرتے رہے ان سے سخت مشقت کے کام لیتے ہے اور وہ بیچارے ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ بعض اوقات جب فرعونیوں پر قحط سالی یا کوئی دوسری مصیبت آتی تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست بھی کرتے اور ساتھ وعدہ بھی کرتے کہ اگر یہ تکلیف دور ہوگئی تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد بھی کردیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ان سے وہ تکلیف دور کردیتا تو وہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ۔ یہ سارے واقعات سورة یونس میں مذکور ہیں۔ بنی اسرائیل کا خروج اس مقام پر ان درمیانی واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ بلکہ جادوگروں کے مقابلہ کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے مصر سے خروج اور فرعونیوں کی ہلاکت کا واقعہ بیان کیا گیا ۔ ارشاد ہوتا ہے واوحینا الیٰ موسیٰ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی ان اسر بعبادی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائو ۔ دوسری رات کے سفر کو کہتے ہیں جیسا کہ واقعہ معراج بھی بیان کیا گیا ۔ سبحان الذی سوی بعبدہ ( بنی اسرائیل : 1) پاک ہے وہ خدا تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا ۔ تو یہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو رات کے وقت سفر کرنے کا حکم دیا گیا ۔ بنی اسرائیل کے خروج کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ بنی اسرائیل ہر سال شہر سے باہر کھلے میدان میں چند دن کے لیے کوئی تقریب منایا کرتے تھے ۔ اس مرتبہ بھی جب وہ دن قریب آئے تو انہوں نے جشن منانے کی تیاری شروع کی ۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ انہوں نے تقریب کے موقع پر پہننے کے لیے بعض قبطیوں سے کچھ زیورات بھی سقار لیے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو سمجھا دیا تھا کہ دوران سفر استعمال کے لیے خوراک کا مختصر ذخیرہ بھی ہمراہ لے لیں ۔ ادھر کسی وبائی مرض کی وجہ سے قبطیوں کے گھروں میں کچھ نوجوان اموات بھی واقع ہوگئیں جس کی وجہ سے وہ لوگ زیادہ تر ادھر مصروف ہوگئے۔ ادھر بنی اسرائیل کو راتوں رات نکلے کا حکم مل گیا ۔ فرعونی لوگوں نے اس بات کا زیادہ نوٹس نہ لیا وہ جانتے تھے کہ بنی اسرائیل ہر سال چند دن کے لیے جشن منانے کے لیے جایا ہی کرتے ہیں ۔ بہر حال بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ رات کے وقت نکل چلو اور ساتھ اس بات سے بھی آگاہ کردیا انکم متبون کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۔ مگر گھبرانا نہیں ، اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرے گا ۔ فرعون کی منصوبہ بندی بنی اسرائیل کے خروج کے تین دن بعد فرعونیوں کو خیال آیا کہ اس مرتبہ سارے کے سارے بنی اسرائیل میلے میں چلے گئے ہیں اور ان کا ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہا ، آخر بات کیا ہے ؟ انہیں بنی اسرائیل کے فرار کا شبہ پیدا ہونے لگا چناچہ فرعون نے فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کر کے معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں گئے ہیں فارسل فرعون فی المدائن حشرین پس بھیجا فرعون نے مختلف شہروں میں اکٹھا کرنے والوں کو منصوبہ یہ تھا کہ تمام فوجی جوان اور سرکردہ قبطی اکٹھے ہو کر بنی اسرائیل کا تعاقب کریں ۔ آجکل کی اصطلاح کے مطابق پورے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ۔ تمام سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوجانے کا حکم دے دیا گیا ۔ بہت سے تیز رفتار گھوڑ سواروں کے ذریعے فوجیوں سرکردہ عہدیداروں اور دیگر اہم لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ۔ اس وقت مصر میں ایک ہزار بڑے بڑے شہر اور بہت سی چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں ۔ سب میں آدمی بھیج کر لشکر جمع کیا گیا ۔ ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ ڈھارس بھی بندھائی گئی کہ اس مہم سے گھبرانا نہیں ان ھولاء لشرذمۃ قلیلون یہ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے جسے ہم نے پکڑنا ہے اور ہماری کثرت تعداد کے پیش نظر یہ ایک معمولی سا کام ہے ، نیز اپنے لوگوں کو ابھارنے کے لیے یہ بھی کہا وانھم لنا لغائظون اور بیشک ہم سب ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی دفعہ بحث مباحثہ ہوچکا تھا اور آپ نے ہر دفعہ فرعونیوں کو لا جواب کیا حتیٰ کہ فرعون کے بعد سے بڑے جادوگر بھی آپ پر ایمان لا چکے تھے ۔ لہٰذا فرعون پوری اسرائیلی قوم کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا تھا کہ یہ کسی بھی وقت اس کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ مفسرین کرام حذرون کا معنی یہ بھی کرتے ہیں کہ ہم مسلح ہیں ۔ جیسا کہ جہاد کے ضمن میں آتا ہے کہ نماز پڑھتے وقت بھی خذو حذر کم ( النسائ 41) اپنے ضروری ہتھیار اپنے پاس رکھو کہ کہیں دشمن دوران نماز ہی حملہ نہ کر دے۔ اس لحاظ سے یہ معنی بھی درست ہے کیونکر فرعون کی پوری فوج ہتھیار بند تھی جب کہ اسرائیل قوم غیر مسلح اور بےسرو سامان تھی۔ فرعون کی طرف سے تعاقب فرعونی لشکر کو جمع ہوتے ہوئے کئی دن گزر گئے اور اس اثناء میں بنی اسرائیل بحر قلزم کے کنارے پر پہنچ گئے ۔ فرعونیوں کا بارہ تیرہ لاکھ کا لشکر اسرائیلوں کے تعاقب میں چل پڑا ۔ اسی واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاخرجنھم من جنت وعیون ہم نے نکالا ان کو باغات اور چشموں سے مصر بڑا سر سبز ملک تھا اس میں ڈیم اور نہریں بنی ہوئی تھیں ۔ دریائے نیل سارا سال بہتا تھا۔ زمین سیراب ہوتی تھی جس سے فصل اور باغات پیدا ہوتے تھے اس لیے اس کو باغات اور چشموں کی سر زمین کہا گیا ہے کہ ہم نے فبطیوں کو ایسی جگہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ وہ اپنے ڈیم نہریں اور چشمے ، فصل سے بھر پور کھیت اور پھل سے لدے باغات کو چھوڑ کر اسرائیلوں کے تعاقب میں چل کھڑے ہوئے وکنوز و مقام کریم ہم نے انہیں خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا ۔ ظاہر ہے کہ خوشحال ملک کے باشندوں کے پاس مال و دولت اور خزانے بھی وافر ہوں گے اور ان کی رہائش گاہیں بھی اعلیٰ درجے کی ہوں گی ، جن میں ہر قسم کی آرام و آسائش ہوگی ۔ تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں ایسی جگہوں سے نکال کر بحر قلزم کی لہروں کے سپرد کردیا اور پھر وہ لوٹ کر اپنے باغات اور گھروں میں واپس نہ آسکے۔ فرمایا کذلک ہم نے ان کو اسی طرح نکالا جس کا نقشہ سورة ہود میں کھینچا گیا ہے۔ یقدم قومہ یوم القیمۃاور دھم النار ( آیت : 89) کہ آگے آگے فرعون تھا اور اس کے پیچھے پیچھے سارا لشکر اور موالی درباری تھی فرمایا قیامت والے دن بھی ایسا ہی ہوگا کہ فرعون آگے آگے چل رہا ہوگا ۔ اس کا سارا لشکر اس کے پیچھے پیچھے ہوگا ، جنہیں لے کر وہ دوزخ میں پہنچ جائے گا ۔ بنی اسرائیل بحیثیت ورثائے مصر فرمایا ہم نے فرعونیوں کو ان کے باغات ، چشموں ، خزانوں اور عمدہ ٹھکانوں سے نکالا واورثنھا بنی اسرائیل اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا ۔ مفسرین کے نزدیک یہ حصہ آیت اس لحاظ سے اشکال پیدا کرنے والا ہے کہ فرعونیوں کی بحر قلزم میں غرقابی کے بعد بنی اسرائیل تو ان کی املاک کے وارث نہیں بنے مگر یہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو وارث بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل بحر قلزم کو معجزاتی راستوں کے ذریعے عبور کرگئے تو پھر وہ واپس مصر نہیں آئے بلکہ آگے صحرائے سینا پہنچ گئے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اربعین سنۃ یلیھون فی الارض (المائدہ : 62) چالیس سال تک وہیں بھٹکتے رہے ان کے لیے حکم یہ تھا کہ ارض مقدس میں واپس کے لیے وہاں کے قابضین سے جہاد کریں مگر انہوں نے پس و پیش کیا اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑو ، ہم تو یہیں بیٹھیں گے ۔ اسی دوران موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) فوت ہوگئے۔ پھر نئی نسل آئی اور انہوں نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کی سرگردگی میں جہاڈ کیا اور ارض مقدس شام و فلسطین پر دوبارہ قابض ہوئے۔ اس ضمن میں مفسر قرآن حضرت قتادہ (رح) کے قول سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ممکن ہے بنی اسرائیل صحرائے سینا کی قید کے بعد دوبارہ مصر گئے ہوں اور انہوں نے فرعونیوں کی املاک پر قبضہ بھی کیا ہو جس کا ذکر اس آیت میں اللہ نے کیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب فرعون غرق ہوگیا ۔ اور اس کے ساتھ اس کا بارہ تیرا لاکھ کا لشکر بھی لقمہ اجل بن گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کچھ اسرائیلوں کو واپس مصر بھیج دیا تھا تا کہ جا کر وہاں کا نظم سنبھال لیں کیونکہ فرعونیوں کی اکثریت اور ان کے سرکردہ لوگ تو ختم ہوچکے تھے اور مصر میں نظم و نسق کا خلاء پیدا ہوگیا تھا ۔ مگر ان میں سے کوئی بھی روایت پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ بنی اسرائیل اس وقت واپس مصر نہیں گئے۔ بلکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں انہیں مصر پر دوبارہ اقتدار حاصل ہوا جو کہ بہت عرصہ بعد کی بات ہے ۔ تاریخی لحاظ سے بھی فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر پر قبطیوں کو ہی اقتدار حاصل رہا ۔ حتیٰ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر دوبارہ آپ کے زیر نگیں آیا۔ اندریں حالات مفسرین کرام اس آیت کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو باغات چشموں اور محلات و خزائن کا وارث مصر میں نہیں بلکہ شام و فلسطین میں بنایا تھا۔ یہ سر زمین بھی بڑی زرخیز ہے جہاں دریا ، نہریں اور چشمے جاری ہیں ۔ اناج پھل اور پھول ہوتے ہیں ۔ لوگ خوشحال ہیں ۔ خزانوں اور عمدہ رہائش گاہوں کے مالک ہیں ۔ تو اس وراثت سے مراد ارض مقدس کی وارثت ہے نہ کہ مصر کی ، چناچہ سورة الدخان میں آتا ہے واورثنھا قوما اخرین ( آیت : 82) وہاں پر باغات ، چشموں ، کھیتی باڑی اور محلات کا ذکر ہے کہ ہم نے دوسروں کو اس کا وارث بنایا۔ دوسروں میں میں اسرائیلوں کا ذکر نہیں ہے ، البتہ نہ نعمتیں انہیں ملک و شام میں جا کر حاصل ہوئیں ۔ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء معبوث ہوئے ۔ بڑے بڑے بادشاہ اور جرنیل پیدا ہوئے۔ پھر حضرت ، دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا دور آیا ۔ مختلف اقوام سے مقابلہ ہوا ۔ اس کے بعد بخت نصر نے پھر ان پر غلبہ حاصل کرلیا ۔ اور انہوں نے سو سال تک غلامی کی زندگی بسر کی ۔ اس کے بعد اللہ نے پھر انہیں اس غلامی سے رہائی دلائی اور ان نعمتوں کا وارث بنایا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اس حصہ آیت کا یہی معنی راجح ہے۔
Top