Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 58
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے نکلو کہ (فرعون کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا
ذکر کرشمہ قدرت خداوند جلیل ورنجات بنی اسرائیل و غرقابی فرعون و دریائے نیل قال اللہ تعالیٰ و اوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی الیٰ و ان ربک لھو العزیز الرحیم۔ (ربط) مقابلہ میں جب موسیٰ (علیہ السلام) غالب آگئے اور اللہ کی حجت اور برہان سب پر قائم ہوگئی مگر باوجود اس کے فرعون اور اسکی قوم عناد پر قائم رہی اور ایمان لانے والوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تو اب اتمام حجت کے بعد سوائے وبال و نکال اور عذاب و عقاب کے کچھ باقی نہ رہا تو مشیت ایزدی یہ ہوئی کہ اس ظالم سے انتقام لیا جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ رات کے وقت بنی اسرائیل کو نکال لے جائیں اور بتلا دیا کہ تمہارے خروج کے بعد فرعون کا لشکر تمہارا تعاقب کریگا۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ تھا کہ اہل ایمان خاص عزت و کرامت کے ساتھ نکل جائیں اور ان کے بعد جب فرعون کا لشکردریا میں داخل ہو تو اسکو غرق کردیا جائے اس طرح سے اسکو ملک سے نکال باہر کیا جائے اس لیے ان آیات میں بنی اسرائیل کی عجیب طرح نجات کی کیفیت اور عجیب طرح سے فرعون کی ہلاکت کا حال بیان کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس طرح کامیابی اور اس طرح کی غرقابی کرشمہ قدرت تھا جو رب العالمین کی ربوبیت کی دلیل تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا جو انکی صداقت اور رسالت کی دلیل تھا۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا تیسرا معجزہ تھا۔ اس کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر طوفان اور خون وغیرہ کی بلائیں مسلط کی گئیں جن کا سورة اعراف میں ذکر ہوچکا ہے۔ ابتدا میں قوم پر یہ بلائیں اور آفتیں مسلط کی گئیں تاکہ ہوش میں آجائیں۔ لیکن کوئی نصیحت کارگر نہ ہوئی۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جب فرعون کو اس واقعہ سے بھی ہدایت نہ ہوئی اور نہ دیگر مصائب سے عبرت ہوئی نہ بنی اسرائیل کے ظلم و ستم سے وہ دست کش ہوا بلکہ جو ساحر ایمان لے آئے تھے انکو قتل کر کے پھانسی پر لٹکا دیا تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حکم بھیجا کہ تم رات کے وقت بنی اسرائیل کو لیکر مصر سے چلے جاؤ اور یہ بھی بتلا دیا کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا یعنی جب فرعون کو تمہارے نکل جانے کی خبر ہوگی تو وہ تمہارا تعاقب کرے گا چناچہ حسب حکم موسیٰ (علیہ السلام) راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر چل دیے جب صبح ہوئی تو یہ خبر مشہور ہوئی اور فرعون کو اسکا علم ہوا تو فرعون نے انکے تعاقب کا ارادہ کیا۔ جس کی تدبیر یہ کی کہ ملک کے مختلف شہروں میں لشکر جمع کرنے کے لیے آدمی بھیج دیئے جب جمع ہوگئے تو یہ منادی کرائی کہ تحقیق یہ لوگ یعنی بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ شمار کے اعتبار سے بھی قلیل ہے اور سازوسامان کے لحاظ سے بےسروسامان ہے جن کو ہماری فوج سے کوئی نسبت نہیں اور انہوں نے ہماری مخالفت کر کے ہم کو غصہ دلایا ہے اور بیشک ہم سب بڑے سلاح پوش اور ہتھیار بند لوگ ہیں یہ لوگ ہماری گرفت سے نہیں نکل سکتے۔ غرض یہ کہ دو تین روز میں سامان کر کے ان کے تعاقب میں نکلے اور یہ خبر نہ تھی کہ اب اسکو مصر لوٹنا نصیب نہ ہوگا۔ پس ہم نے ان بدکاروں کو ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکال دیا۔ یعنی ہم نے انکے دل میں نکلنے کا داعیہ پیدا کردیا کہ خود بخود اپنے باغوں اور محلوں سے نکل کھڑے ہوئے دیکھ لو کہ خدا کا نکالنا ایسا ہوتا ہے کہ خود انکے دل میں نکلنے کا پختہ ارادہ پیدا کردیا کہ سب چیزوں کو چھوڑ کر خود بخود نکل کھڑے ہوئے اور بعد چندے ہم نے ان محلوں اور باغوں کا وارث اور مالک بنی اسرائیل کو بنا دیا اور چند دنوں کے بعد وہ ان تمام اموال اور املاک پر قابض ہوگئے۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا اب آگے باقی حصہ کا بیان ہے پس فرعون کے لشکر نے سورج نکلنے کے وقت بنی اسرائیل کا پیچھا کیا اور پیچھے سے انکو جا پکڑا یعنی ان کے قریب پہنچ گئے اور یہ وقت اشراق کا تھا۔ پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ لوگ تو ہمارے سر پر پہنچ گئے اب تو ہم پکڑ لیے گئے۔ یعنی اب فرعون ہمیں پکڑے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہرگز نہیں یعنی وہ تمہیں ہرگز نہیں پکڑ سکتے۔ اس لیے کہ تحقیق میرا پروردگار میرے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو اسے کوئی نہیں پکڑ سکتا جیسا کہ ہجرت کے قصہ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابوبکر سے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ وہ عنقریب مجھے اس مخمصہ سے خلاصی کی راہ بتائے گا تم گھبراؤ نہیں چونکہ دریا کے کنارے پر پہنچ چکے تھے۔ آگے دریا تھا اور پیچھے دشمن تھا اس لیے اصحاب موسیٰ (علیہ السلام) مضطرب تھے۔ آخر اب جانا کہاں ہے پس اس اضطراب اور پریشانی کے وقت میں ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا اس دریا پر مارو چناچہ انہوں نے حکم خداوندی اپنا عصا اس پر مارا۔ پس فوراً وہ دریا پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی کئی جگہ سے ادھر ادھر ہوگیا جس سے بارہ سڑکیں پیدا ہوگئیں۔ سو پانی کا ہر ایک ٹکڑا مثل ایک بڑے پہاڑ کے کھڑا ہوگیا اور بنی اسرائیل کے بارہ اسباط کے لیے بارہ راستے ہوگئے جو بحکم خداوندی سب خشک تھے کیچڑ نہ رہا اور اطمینان کے ساتھ ان راستوں سے گزر کر دریا سے پار ہوگئے۔ کما قال تعالیٰ فاضرب لھم طریقا فی البحر یبسا لا تخاف درکا ولا تخشی۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ دریا کو اسی طرح خشک چھوڑدو۔ واترک البحر وھوا انھم جند مغرقون۔ جو خدا خشی میں راستے بنا سکتا ہے وہ تیری میں بھی بنا سکتا ہے۔ اسکی قدرت کے اعتبار سے بر اور بحر سب برابر ہیں۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) تو ان دریائی راستوں کو خشک چھوڑ کر پار ہوگئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور بعد ازاں ہم نے دوسرے لوگوں کو یعنی فرعونیوں کو اس جگہ کے قریب پہنچا دیا۔ چناچہ فرعونیوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے لئے خشک راستے کھلے ہوئے ہیں تو شاداں وفرحاں ان میں گھس پڑے۔ پانی بحکم خداوندی رواں ہوگیا اور سارا لشکر اندر غرق ہوگیا اور یہ تمام رب العالمین کی قدرت کا کرشمہ تھا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور صحیح سالم ان کو دریا سے پار کردیا۔ پھر انکے پار ہوجانے کے بعد دوسروں کو دریا میں غرق کردیا کہ جب فرعون اپنی قوم سمیت دریا میں داخل ہوا تو دریا کے یمام ٹکڑے آپس میں مل گئے اور سب غرق ہوگئے جو لوگ کواکب اور نجوام کی تاثیر کے قائل تھے غرق میں سب شریک ہوئے۔ حالانکہ ان کے طالع مختلف تھے۔ فرعون کو دریائے نیل اور مصر کی نہروں پر فخر تھا اور بطور فخر یہ کہا کرتا تھا الیس ملک مصر وھذہ الانھار تجری من تحتی۔ اس لیے من جانب اللہ اس کے قابل فخر دریا اور نہر میں اس کو غرق کیا گیا کہ دیکھ لے کہ وہ قابل فخر نہر یہ ہے اور بیشک اس واقعہ میں اللہ رب العالمین کی قدرت کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت نبوت کی اور اہل ایمان کی نصرت و حفاظت کی، اور متکبرین اور کافروں کی ہلاکت کی بہت بڑی نشانی ہے اور باوجود ان روشن نشانیوں کے قوم فرعون میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ ہوئے بیشک تیرا پروردگار جو ہے وہی غالب ہے اور بڑا مہربان ہے اسی انفلاق بحر کے واقعہ سے اسکی شان عزت و غلبہ اور شان رحمت ظاہر ہوگئی کہ اہل ایمان کو نجات دی اور اہل کفر وتکبر کو غرق کیا۔ لطائف ومعارف حق جل شانہ نے ان آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے تین معجزوں کا ذکر فرمایا۔ معجزہ عصا، اور معجزہ یدبیضاء اور معجزہ انفلاق بحر۔ فلاسفہ اور ملاحدہ اس قسم کے خوارق عادات معجزات اور کرامات کے منکر ہیں اور ان کو محال بتلاتے ہیں اور موجودہ زمانے کے نئے چہرے یہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں قانون فطرت کے خلاف ہیں۔ جواب : سو جاننا چاہئے کہ فلاسفہ کا یہ دعویٰ کہ اس قسم کے معجزات کا وقوع عقلا محال ہے۔ دعویٰ بلا دلیل ہے آج تک کوئی دلیل ان کے محال ہونے پر قائم نہ ہوسکی۔ جمادات اور نباتات کے اندر حیوانات کا پیدا ہوجانا اور زمین میں حشرات الارض کا پیدا ہونا روزمرہ کا مشاہدہ ہے پس اگر ایک نباتاتی چیز (یعنی عصا) بحکم خداوندی حیوان بن جائے تو عقلا ممکن ہے بسا اوقات لکڑی کے اندر کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور کسی جسم کا روشن ہوجانا عقلا محال نہیں۔ آفتاب اور ماہتاب خدا کے پیدا کردہ جسم ہیں ان میں جو روشنی ہے وہ بھی خدا کی پیدا کردہ ہے آفتاب اور ماہتاب خود بخود اپنی طبیعت اور اپنے ارادہ اور مشیت سے روشن نہیں ہوگئے پس جس خدا نے آفتاب اور ماہتاب کو روشنی بخشی وہی خدا اپنے کلیم (علیہ السلام) کے ہاتھ کو بھی روشنی بخش سکتا ہے نفس جسمیت کے لحاظ سے آفتاب اور موسیٰ (علیہ السلام) کا ہاتھ برابر ہیں اور قدرت خداوندی کے اعتبار سے بھی سب یکساں ہیں اور علی ہذا انفلاق بحر بھی عقلا محال نہیں کیونکہ پانی بھی عام اجسام کی طرح بہت سے اجزاء سے مرکب ہے اور قابل انقسام ہے اور اس کے اجزاء میں باہمی اتصال اور انفلاق کی پوری صلاحیت اور استعداد موجود ہے جیسے موسم سرما میں بڑے بڑے دریا منجمہ ہوجاتے ہیں اور حیوانات ان پر سے گزرتے رہتے ہیں معلوم ہوا کہ پانی کا اتصال اور اس کا انفلاق اور انفصال پانی کی نفس ماہیت کا ذاتی اور طبعی اقتضاء نہیں کہ جو ناقابل تغیر و تبدل ہو سب قدرت خداوندی سے ہے پس اگر قدرت خداوندی سے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے دریا کا پانی تھوڑی دیر کے لیے پھٹ جائے اور تھم جائے اور پھر ان کے گزرجانے کے بعد فورا بہنے لگے تو یہ بات عقلا محال نہیں البتہ خارق عادت ہون کی وجہ سے عجیب و غریب ضرور ہے اگر یہ کوئی امر عجیب نہ ہوتا تو پھر معجزہ ہی کیوں کہلاتا۔ پس جو کہ کرشمہ قدرت خدا کے کسی برگزیدہ بندہ کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ اس نبی کا معجزہ کہلاتا ہے جو اس نبی کی صداقت اور حقانیت کی دلیل اور روشن علامت ہوتا ہے پس یہ واقعہ چند حیثیت سے معجزہ ہوگیا۔ (1) محض عصا کے مارنے سے دریا کا پھٹ جانا (2) اور پھر اس میں بنی اسرائیل کے بارہ اسباط کے مطابق بارہ سڑکیں پیدا ہوجانا (3) پھر بنی اسرائیل کے گزر جانے کے بعد دریا کا رواں ہوجانا۔
Top