Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
41 ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ”راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاوٴ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔“ 42
سورة الشُّعَرَآء 41 اوپر کے واقعات کے بعد ہجرت کا ذکر شروع ہوجانے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے بعد بس فوراً ہی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کے احکام دے دیے گئے۔ دراصل یہاں کئی سال کی تاریخ بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے جسے سورة عراف رکوع 15۔ 16، اور سورة یونس رکوع 9 میں بیان کیا جا چکا ہے، اور جس کا ایک حصہ آگے سورة مومن رکوع 2۔ 5 اور الزُّخرف رکوع 5 میں آ رہا ہے۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا۔ اور جس دعوت کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت تھی وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی، اس لیے فرعون اور حضرت موسیٰ کی کشمکش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کرنے کے بعد اب قصہ مختصر کر کے اس کا آخری منظر دکھایا جا رہا ہے۔ سورة الشُّعَرَآء 42 واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف (Memphis) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا (ملاحظہ ہو " نقشہ خروج بنی اسرائیل "، تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ 76)۔ لہٰذا حضرت موسیٰ کو جب حکم دیا گیا ہوگا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہوجائیں، اور ایک خاص رات مقرر کردی ہوگی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں۔ یہ ارشاد کہ " تمہارا پیچھا کیا جائے گا " اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کرلو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو۔
Top