Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جائو بیشک تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 52 تا 68 : اوحینا (ہم نے وحی کی) ‘ اسر (راتوں رات نکل جا) متبعون ( پیچھا کئے جانے والے) ‘ ارسل ( بھیج دے) ‘ مدائن (مدینۃ) شہروں ‘ شرذمۃ (جماعت۔ گروہ) غائظون (غصہ دلانے والے) حذورن (احتیاط کرنے والے۔ بچنے والے) ‘ عیون (عین) چشمے ‘ کنوز (کنز) خزانے ‘ مقام کریم (عمدہ پاکیزہ ٹھکانے) اور ثنا (ہم نے وارث (مالک) بنادیا ‘ مشرقین (سورج نکلنے (والے ) کی جگہ ‘ مدرکون (پکڑے جانے والے) ‘ انفلق (پھٹ پڑا) ‘ کل فرق (ہرحصہ) طودالعظیم (پہاڑ کی طرح بڑا حصہ) ‘ ازلفنا (ہم نے قریب کردیا) ‘ ثم (اسی جگہ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 52 تا 68 : جب نبی کریم ﷺ نے مکہ میں دین اسلام پھیلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو کفار مکہ نے ہر طرح مذاق اڑایا۔ ایمان لانیوالوں کو طرح طرح سے ستایا اور دین کی سچائیں سے دور بھاگنے اور بےعملی کی زندگی گذارنے کے لئے ایسی ایسی باتیں پھیلانے کی کوششیں کی گئیں جن سے نبی کریم ﷺ اور دین اسلام کی روشنی پھیکی پڑجائے۔ علاوہ اور کوششوں کے ایک کوشش یہ تھی کہ کفار مکہ ہر روز نئے نئے معجزات دکھانے کی فرمائشیں کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دو جوابات عنایت فرمائے ایک تو یہ کہ نبی کریم ﷺ کی یہ آخری امت ہے۔ اگر ان کفار کی فرمائشوں پر کوئی معجزہ دکھا دیا گیا اور دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کے دستور کے مطابق تمام منکرین کو تہس نہیس کردیا جائے گا اور ان پر شدید عذاب آجائے گا جو اللہ کی مصلحت اور اصول کیخلاف ہوگا۔ کیونکہ اللہ آخری نبی کی آخری امت کو قیامت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جو انشاء اللہ قیامت تک رہنمائی و رہبری کا فرض سرانجام دیتی رہے گی۔ معجزات دکھانے کے سلسلہ میں دوسرا جواب یہ یہ عنایت فرمایا ہے کہ جس کو ایمان لاکر عمل صالح اختیار کرنا ہے اس کو کسی ظاہری معجزہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس کو ایمان اور عمل صالح سے فرار اختیار کرنا ہے وہ معجزات دیکھ کر بھی ایمان قبول نہیں کرتا ۔ سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ اپنا فضل وکرم فرمادیں۔ چنانچہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ کو ایک مرتبہ پھر ارشاد فرمایا ہے۔ فرعون جو اپنے اقتدار حکومت و سلطنت اور ذاتی مفادات سے چمٹا ہوا تھا جب بھرے دربار میں اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ درباریوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن ایسا ہی رہنے دیاجائے اور پورے ملک سے ماہر جادو گروں کو جمع کیا جائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو سب کے سامنے ذلت ہوگی تو ہمارا مسئلہ حل جائے گا۔ چناچہ قبطیوں کے قومی دن کے میلے میں مقابلہ طے ہوا مگر وہاں فرعون اور اس کے ساتھیوں کو جس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اس پر وہ اور بھی پریشان ہوگئے۔ اس سے بڑی شکست اور کیا ہوگی کہ جن جادوگروں کی مہارت پر ناز تھا وہ سب کے سب ایمان قبول کرکے فرعون ‘ اس کی طاقت و قوت اور دھمکیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے جس سے پورے ملک میں ایک ہنگامہ بپا ہوگیا تھا۔ اور لوگوں کے سامنے سچائی کھل کر آگئی تھی۔ فرعون نے پورے ملک کے کونے کونے میں اپنے نمائندے اور ہر کارے بھیج کر اعلان کرادیا کہ موجودہ حالات میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے موسیٰ اور اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت تھوڑی سی ہے جو ہماری طاقت و قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی بہت جلد ان پر ہما قہر نازل ہونے والا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ نہایت خاموشی سے راتوں رات پورے بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف نکل جائیں۔ فرعونی اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے مگر اس کی پروانہ کرنا کیونکہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فرعون اور اس کے ماننے ولوں کو ان کے لہلہاتے باغوں ‘ بہتے چشموں ‘ خزانوں اور بلند وبالا محلات سے محروم کرکے بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل رات کے آخری حصے میں نہایت خاموشی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فلسطین جانے کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب صبح ہوئی اور حکمران طبقے کے قبطیوں نے دیکھا کہ وپرامیدان صاف ہے تو اصل حقیقت جان کر پوری قوت و طاقت لے کر فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے اس طرف روانہ ہوگیا جس طرف بنی اسرائیل جارہے تھے۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ پوری فوج اور قوت کے ساتھ فرعون نہایت تیزی سے ان کی طرف آرہا ہے تو سارے بنی اسرائیل بوکھلا اٹھے اور کہنے لگے کہ پیچھے فرعون اور اس کا لشکر ہے اور آگے سمندر ہے ہم تو بری طرح مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنے عصا کو پانی پر ماریں اور ہماری قدرت کا تماشہ دیکھیں۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پانی پر مارا تو وہ پانی پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا جس میں بارہ راستے بن گئے۔ چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے لہٰذا وہ نہایت نظم و ضبط سے ہر راستے سے گذر کر دوسری طرف کنارے پر پہنچ گئے۔ جب فرعون اور اس کے ساتھی سمندر کے کنارے پہنچے تو انہوں نے بھی اپنیگھوڑے اور سواروں کو سمندر کے ان راستوں میں اتار دیا۔ ابھی وہ پانی کے درمیان ہی میں تھے کہ اللہ نے پانی کو پھر سے آپس میں مل جانے کا حکم دیا اور اس طرح فرعون اور اس کے تمام ساتھی اس سمندر میں ڈوب کر ہلاک و برباد ہوگئے۔ اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم اور حکومت و سلطنت سے نجات مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ فرعون کے اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو ہیں مگر ان کو دیکھ کر بھی بہت سے لوگ ایمان قبول نہیں کرتے اور اپنی روش زندگی کو درست سمجھتے ہیں اور بدنصیبی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نییہ فرمادیا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ان سچائیوں کو دیکھ کر بھی جو ایمان نہیں لائے ان کو ہلاک و برباد کردیتا لیکن وہ ہر طرح کی قدرت و طاقت کے باوجودنہایت مہربان ہے اور وہ ان کو مہلت پر مہلت دیئے جارہا ہے تاکہ وہ سنبھل کر اور سمجھ کر اللہ کے دین کی سچائیوں کو قبول کرلیں۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اگر انہوں نے گذشتہ قوموں جیسا طریقہ اختیار کیا اور سیدھی سچی راہ کو نہ اپنا یا تو ان کا انجام بھی گذری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ پھر یہ ان کی دولت بڑے بڑے محل ‘ مال و دولت اور سرداریاں ان کے کام نہ آسکیں گی۔ ا ان آیات میں نبی کریم ﷺ اور جان نثار صحابہ کرام ؓ کو بھی تسلی دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ حالات سے رنجیدہ اور پریشان نہ ہوں کیونکہ اس طرح کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ بہت جلد اسلام کا بول بالا ہو کررہے گا۔ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی اور کفار و مشرکین کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہیں گی۔
Top