Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جائو، بیشک آپ کا تعاقب کیا جائے گا
وَاَوْحَیْنَـآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْٓ اِنَّـکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ ۔ (الشعرآء : 52) (اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، بیشک آپ کا تعاقب کیا جائے گا۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کا دوسرا باب، آپ ( علیہ السلام) کی ہجرت گزشتہ رکوع کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ جادوگروں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مقابلے میں جب جادو معجزے کے سامنے بری طرح ناکام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ہاتھ پر حق کو فتح عطا فرمائی تو فرعون نے لوگوں کو یہ تأثر دینے کے لیے کہ یہ باطل پر حق کی فتح نہیں بلکہ حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ جادوگروں کو ڈرایا دھمکایا اور انھیں سولی پر لٹکانے کی دھمکیاں دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ ان پر حق کو روشن کردیا تھا، وہ بےسروسامان اور کمزور ہوتے ہوئے بھی فرعون کے جاہ و جلال کے سامنے ڈٹ گئے اور حق کی علامت بن گئے۔ اب اس سرگزشت کا دوسرا حصہ شروع ہورہا ہے اور درمیان میں قصے کے بہت سے اجزاء کو چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم اپنی عادت و روایت کے مطابق کسی تاریخی واقعہ کے ان اجزاء کا ذکر کرتا ہے جو سلسلہ کلام کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ چناچہ جادوگروں کی ناکامی اور پھر ان کے ایمان لانے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حق کی علامت اور اس کے پیغمبر بن کر تشریف لائے ہیں۔ حق و باطل کی اس کشمکش کے ایک حصے کو جادوگروں کی ناکامی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فتح کو حق و باطل کے درمیان کشمکش کے ایک باب کے طور پر مکمل کرنے کے بعد اب اس دوسرے رکوع سے حق و باطل میں کشمکش کی سرگزشت کے آخری باب کو بیان کرنے کی ابتداء کی جارہی ہے اور درمیان میں مصر میں رہتے ہوئے جتنے واقعات پیش آئے ہیں وہ قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں چونکہ صرف حق و باطل کی کشمکش کو نمایاں کرنا مقصود ہے اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جادوگروں سے مقابلے اور پھر براہ راست فرعون کی قوتوں سے تصادم کے نتیجے میں جس طرح فیصلہ کن کامیابی اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی صرف اس کا ذکر کرنا پیش نظر ہے۔ یہ واضح رہے کہ جادوگروں سے مقابلے میں کامیابی کے بعد مصر میں رہتے ہوئے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں جن کا دوسری سورتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر واقعہ حق کی فتح کی علامت اور باطل کی شکست کا عنوان رکھتا ہے اور اس پوری سرگزشت میں ہم بار بار دیکھتے ہیں کہ باطل سرنگوں ہوتا اور ایمان کی امید دلا کر اس مصیبت سے نجات حاصل کرتا ہے لیکن پھر اپنے عہد سے منحرف ہوجاتا ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشوں میں فرعون اور اہل مصر اس حد تک بےبس ہوجاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ چناچہ پیش نظر آیات میں کہانی کا یہ دوسرا منظر بیان کیا جارہا ہے۔ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ آباد نہ تھی بلکہ ملک کے مختلف شہروں اور مختلف دیہات میں بٹی ہوئی تھی۔ البتہ مصر میں منف سے رعمسیس تک کے علاقے میں ان کی بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ اسی علاقے کو جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ چنانحہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جیسے ہی فرعون کی طرف سے اجازت ملی کہ بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیں تو آپ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے تمام علاقوں میں ہدایات بھیج دیں۔ تاریخ مقرر کردی گئی، رات کا وقت ٹھہرا اور ہر علاقے کے رہنے والوں کو اپنی علاقے سے نکل کر جس مخصوص جگہ پہنچنا تھا اس کا تعین کردیا گیا۔ اور پھر سب کے کمانڈر مقرر کرنے کے بعد حکم دے دیا گیا کہ تمام گروہ ایک خاص جگہ تک پہنچ جائیں تاکہ وہاں سے بحرقلزم کا رخ کیا جائے اور یہ بھی پیش نظر آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتادیا گیا تھا کہ فرعون نے اگرچہ آپ ( علیہ السلام) کو شہر سے نکلنے کی اجازت دے دی ہے لیکن وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہے گا، وہ آپ ( علیہ السلام) کے تعاقب کی کوشش کرے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ دن کے اجالے میں آپ کا تعاقب کرے، آپ رات ہی رات میں اس کی دسترس سے دور نکل جائیں۔
Top