Tafseer-e-Haqqani - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور موسیٰ کو ہم نے حکم بھیجا کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے نکل جاؤ کیونکہ تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔
تفسیر : واوحینا الی موسیٰ باقی تمام قصہ کو حذف کر کے جو موسیٰ کی سرگزشت مصر سے تعلق رکھتا تھا صرف بنی اسرائیل کے مصر سے جانے کا تذکرہ شروع فرمایا کیونکہ نشانی قدرت کاملہ اور ان کے کفرو انکار کا نتیجہ ظاہر کرنا مقصود مقام تھا۔ موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ میرے بندوں کو یعنی بنی اسرائیل کو رات میں لے نکل۔ چناچہ موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو مع زن و فرزند کسی عید کے بہانہ سے باجازت فرعون لے نکلے اور اسرائیلیوں نے فرعونیوں سے عید کے بہانہ سے زیورات بھی مستعار لیے تھے جب یہ سب نکل گئے تو فرعون کو خبر ملی کہ وہ نکل کر ملک شام میں جاتے ہیں۔ فرعون نے جابجا ہر کارے بھیج دیے کہ لوگ کمک کو آویں اور کچھ خوف نہ کریں کیونکہ ان ھؤلاء لشرذمۃ قلیلون یہ تھوڑے لوگ ہیں اور انہوں نے ہم کو ناخوش کیا ہے ایک تو ہماری حکومت سے نکلے جاتے ہیں دوسرے ہمارے زیورات لے گئے۔ محض بنظر احتیاط تم کو کہلا بھیجا ہے کہ مدد کو آؤ وانالجمیع حذرون کہ ہم کو ان سے خطرہ ہے۔ پس فرعون اور اس کے ساتھ بہت سے لوگ ان کے تعاقب میں نکلے اور صبح دن نکلتے ہوئے اسرائیلیوں کو دریائے قلزم کے قریب آلیا۔ بنی اسرائیل ان کو دیکھ کر ڈر گئے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے تسلی دی کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ خدا نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم دیا کہ دریا پر اپنا عصا مار اس کے مارنے سے دریا پھٹ گیا اور پانی کی باڑ پھاڑ کی طرح سے دونوں طرف کھڑی ہوگئی۔ بنی اسرائیل خشک زمین پر سلامت نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے اسی راستہ سے جب وہ یہاں آئے تو دریا باہم مل گیا وہ سب ڈوب کر مرگئے۔ یہ ایک اللہ کی طرف کی بڑی نشانی ہے لیکن وہ اکثر نہیں مانتے۔ کذلک واورثناھا بنی اسرائیل اس مقام پر اکثر لوگوں کو دھوکا ہوگیا ہے کہ اور ثناھا بنی اسرائیل ہا کی ضمیر کو فرعونیوں کے خاص جنات وعیون و کنوزومقام کریم کی طرف پھر ایا ہے اور اس کی تفسیر میں کہہ دیا ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان کے باغوں اور عمدہ مقامات کے بنی اسرائیل پھر لوٹ کر آکر مالک ہوگئے تھے۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہوئی کس لیے کہ تمام اہل تاریخ اس پر متفق ہیں کہ دریائے قلزم کو عبور کر کے بنی اسرائیل چالیس برس تک تیہ میں ٹکراتے پھرے ‘ مصر میں واپس نہ آئے اور نیز اس فرعون کے بعد دوسرا فرعون تخت مصر پر بیٹھا ہے۔ ان کی سلطنت کا خاتمہ بابل کے بادشاہ کے ہاتھ سے سینکڑوں برس بعد ہوا۔ صحیح توجیہ جیسا کہ بیضاوی فرماتے ہیں یہ ہے اومثل ولک المقام الذی کان لھم علی انہ صفتہ مقام اس تقدیر پر معنی صاف ہوگئے کہ ایسے مقامات کا ہم نے بنی اسرائیل کو وارث یعنی مالک کردیا یعنی ملک شام اور فلسطین میں ان کو بھی ہم نے ویسے ہی عمدہ مقامات اور باغ اور چشمے اور خزانے عطا کئے جیسا کہ فرعونیوں کے پاس تھے اور ان سے نکال کر ہم نے ان کو دریائے قلزم میں غرق کیا۔ خلاصہ یہ کہ ان عمدہ مقامات سے ان کو نکالا اور ایسے عمدہ مقامات بنی اسرائیل کو عطا کئے اور سورة دخان میں بھی ایسا ہی آیا ہے کم ترکوا من جنات وعیون وزروع و مقام کریم و نعمۃ کانوا فیہا فاکہین کذلک و اور ثناھا قومًا آخرین۔
Top