Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ
: اور ہم نے وحی کی
اِلٰى
: طرف
مُوْسٰٓي
: موسیٰ
اَنْ اَسْرِ
: کہ راتوں رات لے نکل
بِعِبَادِيْٓ
: میرے بندوں کو
اِنَّكُمْ
: بیشک تم
مُّتَّبَعُوْنَ
: پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے نکلو کہ (فرعون کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا
(واوحینا الی موسیٰ ان۔۔۔۔۔ ) واوحینا الی موسیٰ ان اسربعبادی انکم متبعون جب اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو نجات عطاء فرماتا ہے جو اس کے اولیاء میں سے تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں اور اس کے رسولوں اور انبیاء کی تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کافروں کو ہلاک فرماتا ہے جو اس کے دشمنوں میں سے جھٹلانے والے ہوتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو رات کے وقت نکالے۔ انہیں اپنے بندوں ہونے کا نام دیا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے انکم متبعون کا معنی ہے فرعون اور اس کی قوم تمہارا پیچھاکرے گی تاکہ تمہیں واپس لے جائیں۔ اس کلام کے ضمن میں ان کی تعریف ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نجات عطاء فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو سحری کے وقت لے کر نکلے شام کی طرف جانے والا راستہ اپنے بائیں ہاتھ رکھا اور سمندر کی طرف منہ کیا بنی اسرائیل کا کوئی شخص آپ کو راستہ چھوڑنے کا کہتا تو آپ فرماتے : اسی طرح مجھے حکم دیا گیا۔ جب فرعون نے صبح کی اور اسے علم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو رات کے وقت لے کر چلے گئے ہیں تو وہ ان کے پیچھے چلا۔ اس نے مصر کے شہروں کی طرف پیغام بھیجا کہ لشکر اس سے آ ملیں۔ یہ روایت بیان کی گئی کہ وہ پیچھے سے آ کر ملا جب کہ اس کے ساتھ ایک لاکھ سیاہ گھوڑوں پر لشکر تھا اس کے علاوہ ہر قسم کی فوج تھی۔ یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی۔ اللہ تعالیٰ صحیح جانتا ہے۔ اس آیت سے جو بات لازم آتی ہے اور جو بات قطعی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی عظیم جمعیت کے ساتھ نکلے اور فرعون نے ان سے کئی گنا لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : فرعون کے ساتھ ایک ہزار جابر حکمران تھے سب کے سر پر تاج تھا اور ہر ایک گھڑ سوار لشکر کا امیر تھا (
1
) لشر ذمۃ سے مراد لوگوں میں سے ایک طائفہ اور شے کا قطعہ ہے۔ ثوب شر اذم کپڑے کے ٹکڑے۔ ثعلبی نے راجز کے شعر کا ذکر کیا : جاء الثناء وثیابی اخلاق شراذم یضحک منھا التواق موسم سرما آگیا اور میرے کپڑے بوسیدہ ٹکڑے ٹکڑے ہیں ان سے نواق ہنستا ہے۔ (
1
؎۔ المحرر الوجیز، جلد
4
، صفحہ
232
) لوگوں میں نواق انہیں کہتے ہیں جو امور کا جائزہ لیتا ہے اور انہیں درست کرتا ہے، یہ صحاح میں کہا ہے۔ لشرذمۃ میں لام تاکید یہ ہے کہ اکثر یہ ان کی خبر پر داخل ہوتا ہے مگر کو فی ان زید السوف یقوم کو جائز نہیں سمجھتے اس کے جائز ہونے پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : فلسوف تعلمون یہ لام تاکید ہے جو سوف پر داخل ہوا ہے، یہ نحاس نے قول کیا ہے۔ وانھم لنا لغا ئظون وہ ہمارے دشمن ہیں کیونکہ وہ ہمارے دین کے مخالف ہیں اور ہمارے وہ امول لے کر بھاگ جانے والے ہیں جو انہوں نے ہم سے ادھار لیے تھے۔ جس طرح یہ بات پہلے گزر چکی ہے اس رات ان کے نوجوان مر گئے ہے اسی سے تغیظ اور اغتیاظ ہے بغیر اجازت کے نکل کر انہوں نے ہمیں غضب ناک کردیا ہے۔ (
1
) وانا لجیع حذرون ہم سب مجتمع اور مستعد ہیں ہم نے اپنا اسلحہ لے لیا ہے۔ اسے حاذرون بھی پڑھا گیا ہے اس کا معنی بھی حذرون ہے یعنی خوف زدہ ہیں۔ جوہری نے کہا : وانا لجمیع حاذرون وحذرون وحذرون۔ یعنی ذال کے ضمہ کے ساتھ : اسے اخفش نے بیان کیا ہے۔ حاذرون کا معنی ہے ہم تیاری کرنے والے ہیں۔ حذرون کا معنی ہے ڈرانے والے ہیں۔ نحاس نے کہا : حذرون مدینہ طیبہ کے قراء اور ابو عمر کی قرأت ہے اہل کوفہ کی قرأت حاذرون ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس ؓ سے معروف ہے حادرون دال بےنقطہ، یہ ادبی عباد کی قرأت ہے۔ مہدی نے یہ ابن ابی عمار سے بیان کی ہے ماوردی اور ثعلبی نے سمیط بن عجلان سے نقل کی ہے۔ نحاس نے کہا : ابو عبیدہ اس طرف گئے ہیں کہ حذرون اور حاذرون کا معنی ایک ہی ہے : یہ سیبویہ کا قول ہے اور اس کو جائز قراردیا ھو حذر زیدا جس طرح کہا جاتا ہے : حاذرزیدا شہ شعر پڑھا : حذر امورا لا تغیرو آمن ما لیس منجیہ من الاقدار وہ ایسے امور سے ڈرنے والا ہے جو نقصان نہیں دیتے اور ایسی اقدار سے بےخوف ہے جو نجات دینے والی نہیں ہے۔ ابو عمر جرمی نے گمان کیا کہ یہ جملہ کہنا جائز ہے۔ ھو حذر زیدا یہاں سے من حذف ہے اکثر نحوی حذر اور حاذر میں فرق کرتے ہیں : ان میں کسائی، فراء اور محمد بن زید ہے : وہ اس طرف گئے ہیں کہ حذر کا معنی فی خلقتہ الحذر ہے وہ یدا اور متنبہ ہے جب اس طرح ہے تو وہ متعدی نہیں ہوتا۔ حاذر کا معنی مستعد ہے مقتدمین سے یہی تفسیر آئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وانا لجمیع حذرون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : ہم سب کے پاس اسلحہ ہے اور گھوڑے ہیں۔ یہ بھی وہی معنی ہے جو معقو ون کا معنی ہے ان کے پاس اسلحہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے ہمارے پاس اسلحہ ہے جب کہ بنی اسرائیل کے پاس اسلحہ نہیں جو انہیں قتال پر برانگیختہ کرے جہاں تک حادرون کا تعلق ہے یہ ان کے قول عین حدرۃ سے مشتق ہے یعنی چشمہ بھرا ہوا ہے یعنی ہم ان پر غصہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسی معنی میں یہ قول ہے : (
1
؎۔ تفسیر بغوی) ۔ وعین لھا حدرۃ بدرۃ شقت ما قیھما من اخر اہل لغت نے حکایت بیان کی ہے کہ یہ جملہ کہا جاتا ہے : رجل حادر جب وہ بھرے گوشت والا ہو یہ بھی جائز ہے کہ اس کا معنی ہوا سلحہ سے بھرا ہوا۔ مہدوی نے کہا : حادر سے مراد قوی اور شدید ہے۔ فاخر جہنم من جنت وعیون مراد مصر کا علاقہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نیل کے دونوں کناروں پر اسوامی سے رشید تک باغات تھے اور باغات کے درمیان کھیتاں تھیں نیل سات خلیجیں (ندیاں) تھیں، خلیج اسکندریہ، خلیج سخا، خلیج دمیاط، خلیج سردوس، خلیج منف، خلیج قیوم، خلیج المنہی (
1
) یہ سب متصل تھیں ان میں سے کوئی دوسرے سے منقطع نہ تھیں کھتیاں سب خلیجوں کے درمیان تھیں۔ مصر کی تمام زمین سولہ ہاتھ ( بلند پانی) سے سیراب ہوجاتی تھیں جو انہوں نے بڑے، چھوٹے پلوں اور ندیوں کے ذریعے تدبیر کی تھی اور انہوں نے جو اندازہ لگایا تھا اسی وجہ سے جب نیل کو سولہ ہاتھ پر بند کیا جاتا تو اسے نیل سلطان کا نام دیا جاتا اور اسے ابن ابی رداد کے اندازے پر چھوڑا جاتا یہ حالت آج تک جاری ہے۔ اسے نیل سلطان کا نام اس لیے دیاکیون کہ اس وقت لوگوں پر خراج واجب ہوتا جب نیل کی سطح سترہ ہاتھ ہوجاتی تو مصر کی تمام زمین ایک انگلی بھر سطح سے سیراب ہوجاتی جب نیل کا پانی سترہ ہاتھ پر بند کیا جاتا اور اٹھارویں ہاتھ سے ایک انگلی بلند ہوتا تو خراج میں دس لاکھ دینار کا اضافہ ہوجاتا اور جب وہ اس حد سے نکلتا اور انیس ہاتھ سے بڑھ جاتا تو اس کا اخراج دس لاکھ دینار کم ہوجاتا اس کی وجہ یہ ہوتی کہ وہ خراج مصالح، ندیوں، پلوں اور ان کی تعمیر میں خرچ ہوجاتا۔ جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو اکثر زمین سیراب نہیں کی جاتی یہاں تک کہ مصر کے پیمانہ کے مطابق پانی انیسویں ہاتھ کی انگلی برابر پانی بلند ہو۔ جہاں تک صعید اعلیٰ کے علاقے ہیں تو ان کی سیراب اس وقت تک نہیں ہوتی یہاں تک کہ پانی بائیس ہاتھ نہ ہوجائے۔ میں کہتا ہوں : مصر کی زمین اس وقت سیراب ہوتی ہے جب پانی بیس ہاتھ اور کچھ انگلیاں اوپر ہوجائے، کیونکہ زمین اونچی ہوگئی ہے اور پلوں وغیرہ کی تعمیر کا اہتمام نہیں۔ یہ دنیا کے عجائبات میں سے ہے یہ تعجب اور بڑھ جاتا ہے جب تمام علاقہ میں پانی بہتا ہے یہاں تک کہ مصر کے تمام علاقہ میں سیلاب ہوتا ہے تو شہر پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں جن تک کشتیوں کے ذریعے ہی پہنچا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے مروی ہے : مصرکا نیل تمام دریائوں کا سردار ہے اللہ تعالیٰ نے مشرق و مغرب میں ہر دریا اس کے لیے مسخر کردیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نہروں کو مسخر کردیا ہے جب اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ مصر کے نیل کو جاری کرے تو دریا کہ حکم دیتا ہے کہ اس کی مدد کرے تو دریا اپنے پانیوں کے ساتھ اس کی مدد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے لیے چشموں کو کھول دیتا ہے جب وہ اس انتہاء کو پہنچ جاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر پانی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ قیس بن حجاج نے کہا : جب مصر فتح ہوگیا تو اس کے مکین حضرت عمرو بن عاص کی خدمت میں حاضر ہوئے جب قبطیوں (
1
؎۔ المحرر الوجیز، جلد
4
، صفحہ
232
) کے مہینوں میں سے جو نہ داخل ہوا، انہوں نے حضرت عمرو بن عاص سے عرض کی : اے امیر ! ہمارے اس نیل کی ایک سنت ہے وہ اس کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ حضرت عمرو بن عاص نے اس سے پوچھا : وہ سنت کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کی : جب اس ماہ کی بارہویں رات گزر جاتی ہے تو ہم ایک دو شیزہ کا قصد کرتے ہیں ہم اس کے والدین کو راضی کرتے ہیں، ہم اسے بہترین زیورات اور بہترین کپڑے پہناتے ہیں پھر ہم اسے اس نیل میں پھینک دیتے ہیں۔ حضرت عمرو نے فرمایا : اسلام میں یہ جائز نہیں اسلام پرانے دور کی رسومات کو مٹانے والا ہے۔ وہ لوگ وہاں رہے نہ نیل زیادہ چلتا نہ کم، ان لوگوں نے جلا وطنی کا ارادہ کرلیا۔ جب حضر عمروبن عاص نے یہ دیکھا تو حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف خط لکھا اور تمام واقعہ سے آگاہ کیا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے انہیں خط لکھا جو کچھ تو نے کہا ہے وہ درست ہے اسلام ما قبل کی رسومات کو ختم کرنے والا ہے اور اب یہ نہیں ہوگا اور خط کے اندر ایک رقعہ بھیجا اور حضرت عمر ؓ کو لکھا میں نے خط کے اندر ایک رقعہ بھیجا ہے جب میرا خط تم تک پہنچے تو اسے نیل میں پھینک دینا۔ جب حضرت عمر ؓ کا خط حضر عمرو بن عاص کو پہنچا تو انہوں نے وہ رقعہ لیا اور اسے کھولا تو اس میں یہ تحریر تھی : اللہ کے بندے امیر المومنین عمر کی جانب سے نیل کے نام امابعد ! اگر تو اپنی جانب سے چلتا ہے تو نہ چل اگر اللہ تعالیٰ تجھے چلاتا ہے تو اللہ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تمہیں چلائے، کہا : حضرت عمرو بن عاص نے صلیب سے ایک دن پہلے وہ رقعہ نیل میں پھینک دیا جب کہ اہل مصر نے جلا وطنی اور وہاں سے نکل جانے کی تیاری کرلی تھی کیونکہ ان کے مصالح نیل سے ہی وابستہ تھے۔ جب حضرت عمرو بن عاص نے وہ رقعہ نیل میں پھینکا صلیب کے دن ان لوگوں نے صحیح کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں اسے سولہ ہاتھ بڑھا دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سال سے اہل مصر سے اس طریقہ کو ختم کردیا۔ کعب الاحبار نے کہا : چار دیریا جنتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے جنہیں دنیا میں جاری فرمایا ہے سبحان، جیحان، نیل اور فرات، سیحان جنت میں پانی کا دریا ہے، جیحان جنت میں دودھ کا دریا ہے، نیل جنت میں شہد کا دریا ہے اور فرات جنت میں شراب کا دریا ہے۔ ابن لہیعہ نے کہا : دجلہ جنت میں دودھ کا دریا ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح میں جو حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” سبحان، جیحان، نیل اور فرات تمام جنت کی نہریں ہیں “۔ الفاظ مسلم کے ہیں۔ حدیث اسراء میں حضرت انس بن مالک، مالک بن صعصعہ جو انہیں کے قوم کے افراد میں تھے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی نے بیان کیا کہ آپ نے چادر دریا دیکھے ان کی اصل سے دو ظاہر دریا نکلتے ہیں اور دو باطنی دریا نکلتے ہیں۔ میں نے عرض کی : اے جبریل ! یہ دریا کون سے ہیں ؟ فرمایا : جہاں تک دو باطنی دریائوں کا تعلق ہے تو دو دریا جنت میں ہیں جہاں تک دو ظاہری دریائوں کا تعلق ہے وہ نیل اور فرات ہیں “۔ الفاظ مسلم کے ہیں۔ امام بخاری نے شریک کی سند سے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے :” پس وہ آسمان دنیا میں دو دریا ہیں جو جاری ہوتے ہیں پوچھا : اے جبریل ! یہ کون سے دریا ہیں ؟ عرض کی : یہ نیل اور فرات ہے، پھر آپ آسمان میں تشریف لے گئے تو آپ ایک دریا پر تھے جس پر موتیوں اور زبر جد کا محل تھا آپ نے اپنا ہاتھ مارا تو وہ مرکب کستوری تھی۔ پوچھا : اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ عرض کی : یہ وہی کوثر ہے جو تیرے رب نے تیرے لیے چھپا رکھی ہے “۔ حدیث کو ذکر کیا۔ جمہور علماء کی یہ رائے ہے کہ عیون سے مراد پانی کے چشمے ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا : اس سے مراد نہار ہیں، اس سے اعتراض کی گنجائش ہے کیونکہ چشمے ان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ و مقام کریم حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد نے کہا : مقام کریم سے مراد منبر ہے۔ ہزار منبر ہزار جابر حکمرانوں کے لیے تھی جن پر بیٹھ کر وہ فرعون اور اس کی بادشاہت کی عظمت بیان کرتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ مرادرئوسا اور امراء کی مجالس ہیں : اسے ابن عیسیٰ نے بیان کیا ہے، یہ پہلے قول کے قریب ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : مراد اچھے مسکن ہیں۔ ابن لہیعہ نے کہا : میں نے سنا ہے کہ مقام کریم سے مراد فیوم ہیں (
1
) ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کی مجالس میں سے ایک مجلس پر لکھا تھا لا الہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ان کا نام کریمہ رکھا۔ ایک قول کیا گیا ہے : مراد گھوڑوں کے تھان ( اصطبل) ہیں کیونکہ زعماء انہیں سامان جنگ اور زینت کے طور پر باندھتے ہیں اس وجہ سے ان کا مقام سب سے معزز جگہ بن گئی : ماوردی نے اس کا ذکر کیا۔ اظہر یہ ہے کہ مراد اچھے مسکن ہیں جن کے سبب سے کرامت کا اظہا کیا جاتا تھا۔ لغت میں مقام سے مراد موضع ہے : یہ مصدر ہے۔ نحاس نے کہا : لغت میں مقام سے مراد موضع ہے یہ تیرے قول قام یقوم سے مآخوذ ہے اسی طرح مقامات کا واحد ماقم ہے جس طرح شاعر نے کہا : وفیھم مقامات حسان و جو ھم اندیۃ ینتابھا القول والفعل ان میں مقامات ہیں ان کے چہرے حسین ہیں اور مجلسیں ہیں جن میں قول اور فعل باری باری ہوتا ہے۔ مقام بھی مصدر ہے یہ مقام یقوم کا مصدر ہے مقام ضمہ کے ساتھ اقام سے اسم ظرف ہے اس سے مصدر بھی اسی وزن پر آتا ہے۔ کذلک و اور ثنھا بنی اسرائیل مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن جنات، عیون، کنوز اور مقام کریم کا ذکر کیا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ورثہ کے طور پر دیا ہے۔ حضرت حسن بصری اور دوسرے علماء نے کہا : بنی اسرائیل فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے بعد مصر کی طرف لوٹے۔ (
2
) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں وراثت سے مراد وہ ہے جو بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آل فرعون سے زیورات ادھار لیے تھے۔ میں کہتا ہوں : دونوں امور انہیں حاصل ہوئے۔ الحمد للہ۔
1
؎۔ الحرء الوجیز جلد
4
ص
232
2
؎۔ ایضاء مفہوم فاتبعوھم مشرقین فرعون اور اس کی قوم نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ سدی نے کہا : جب سورج روشن ہوا۔ قتادہ نے کہا : جب زمین روشن ہوگئی۔ زجاج نے کہا : یہ جملہ بو لا جاتا ہے شرقت الشمس جب وہ طلوع ہوا الشرقت جب وہ روشن ہوجائے۔ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے میں کوئی دیری کی اس میں دو قول ہیں (
1
) اس رات جو ان کے نوجوان فوت ہوگئے ان کو دفن کرنے میں مشغول ہوگئے تھے کیونکہ اس رات ان میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ مشرقین یہ قوم فرعون سے حاصل ہے (
2
) بادل اور تاریکی ان پر سایہ فگن ہوگئی تھی انہوں نے کہا : ابھی رات ہے تاریکی : ان سے نہ چھٹی یہاں تک کہ انہوں نے صبح کی۔ ابو عبیدہ نے کہا : فاتبعوھم مشرقین کا معنی ہے مشرق کی جانب ان کا پیچھا کیا۔ حضرت حسن بصری اور عمرو بن میمون نے کہا : فاتبعوھم مشرقین تشدید اور الف فاصل کے ساتھ، یعنی مشرق کی جانب، یہ عربوں کے اس قول سے مآخوذ ہے شرق و غرب۔ جب وہ مشرق اور مغرب کی طرف چلے۔ کلام کا یہ معنی ہوگا ہم نے مقدر کیا کہ بنی اسرائیل ان کے وارث بنیں تو قوم فرعون نے بنی اسرائیل کا مشرق کی جانب پیچھا کیا تو وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اور بنی اسرائیل ان کے ملکوں کو وارث بن گئے۔ فلما تراء الجمعن دونوں جمعیتیں بالمقابل ہوئیں یہ فریق اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔ یہ رویۃ سے تفاعل کا وزن ہے قال اصحب موسیٰ انا المدر کون دشمن ہمارے قریب آگیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں۔ جماعت کی قرأت لمدرکون ہے یہ ادرک سے مشتق ہے، اسی سے حعی اذا ادراکہ الغرق (یونس :
90
) ہے۔ عبدی بن عمر، اعرج اور زہری نے کہا : المدر کون دال مشدد ہے یہ ادرک سے مشتق ہے۔ فراء نے کہا : حفر اور احتفر ایک ہی معنی میں ہیں اسی طرح نمدر کون اور المدر کون ایک معنی میں ہیں۔ نحاس نے کہا : نحوی جو خدا ق ہیں کہتے ہیں وہ اسی طرح نہیں ہے۔ مدرکون کہتے ہیں جن کو پیچھے سے آ کر ملا جائے۔ مدزکون جن کو ملنے کی کوشش کی جائے، جس طرح یہ جملہ بولا جاتا ہے کسبت یہ اصبت اور ظفرت کے معنی میں ہے اکتسبت یہ اجتھدت اور طلعت کے معنی میں ہے، یہ سیبویہ کے قول کا معنی ہے۔ قال کلا ان معی ربی سیھدین جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جمعیت کو جا ملا اور ان کے قریب ہوگیا بنی اسرائیل نے مضبوط دشمن اور اپنے سامنے سمندر دیکھا تو ان کے گمانات خراب ہوگئے۔ انہوں نے توبیخ اور جفا کے اندر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کی : انا المدر کون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے قول کو رد کردیا، انہیں جھڑکا اور اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور کامیابی کا جو وعدہ کیا تھا وہ انہیں یاد دلایا۔ کلا یعنی وہ تمہیں نہیں پکڑ سکتے۔ ان معی ربی دشمن کے خلاف مدد کرنے میں میرا رب میرے ساتھ ہے۔ سیھدین وہ نجات کے راستہ کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔ جب بنی اسرائیل پر آزمائش عظیم ہوگئی اور انہوں نے ایسے لشکر دیکھے جن کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ سمندر پر اپنا عصا مارے اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ آیت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ متصل ہوا اور جو فعل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کریں اس کے ساتھ متعلق ہو ورنہ عصا کا مارنا سمندر کو پڑھانے والا نہیں اور نہ ہی بالذات اس میں مددگار ہے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اختراع اس کے ساتھ ملی۔ سمندر کا یہ قصد سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ جب سمندر پھٹا تو بنی اسرائیل کے قبائل کے برابر اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی بڑے بڑے پہاڑوں کی شکل میں رک گیا۔ طور سے مراد پہاڑ ہے۔ اسی معنی میں امراء نفیس کا قول ہے۔ فبینا المرء فی الاحیاء ملود رماہ الناس عن کثب فمالا آدمی قبائل میں پہاڑ تھا۔ اسود بن یعفر نے کہا : حلوا بانقرۃ یسیل علیھم ماء الفرات یجی من اطواد وہ انقرہ میں اترے ان پر فرات کا پانی بہتا جو پہاڑوں سے آتا۔ الطواد یہ طور کی جمع ہے جس کا معنی پہاڑ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کے لیے سمندر میں خشک راستہ بن گیا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب نکل گئے اور فرعون کے ساتھی سارے کے سارے اس میں داخل ہوگئے جس طرح سورة یٰسین میں گزرا ہے تو پانی رواں ہوگیا اور فرعون غرق ہوگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک ساتھی نے کہا : فرعون جونہی غرق ہوا تو اس کو سمندر کے کنارے پھینک دیا گیا یہاں تک کہ انہوں نے اسے دیکھا۔ ابن قاسم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے تاجروں میں سے دو آدمی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف نکلے جب وہ سمندر تک پہنچے دونوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کی : اللہ تعالیٰ نے تجھے کیسے حکم دیا ؟ فرمایا : مجھے حکم دیا گیا کہ میں سمندر پر اپنا عصا ماروں تو وہ پھٹ جائے گا۔ دونوں نے عرض کی۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے جو حکم دیا اس طرح کیجئے اللہ تعالیٰ تجھ سے وعدہ خلافی نہیں فرمائے گا۔ پھر ان دونوں نے تصدیق کی خاطر اپنے آپ کو سمندر میں پھینک دیا سمندر اسی طرح رہا یہاں تک کہ فرعون اور اس کے ساتھ اس میں داخل ہوگئے، پھر وہ سمندر اسی طرح ہوگیا جس طرح وہ تھا سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے، یہ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء نے کہا۔ شاعر نے کہا : وکل یوم مضی او لیلۃ سلفت فیھا النفوس الی الاجال تزدلف ہر دن یا رات جو گزر گئے ہیں ان میں نفوس اپنی آجال تک جمع ہوتے رہیں گے۔ ابو عبیدہ نے کہا از لفنا ہم کو جمع کیا۔ اسی وجہ سے مزدلفہ کی رات کو لیلۃ جمع کہتے ہیں۔ ابو عبداللہ بن حرث، ابی بن کعب اور حضرت ابن عباس ؓ نے قرأت کی وازلقنا یعنی یہ قاف کے ساتھ ہے معنی ہے ہم نے انہیں ہلاک کردیا (
1
) ۔ اسی سے یہ جملے بولے جاتے ہیں ازلقت الناقۃ، ازلقت الغرس فھی مزلق۔ جب وہ اپنے بچے کو پھینک دے۔ وانجینا موسیٰ ومن معہ اجمعین۔ ثم اغرقنا الاخرین، آخرین سے مراد اور اس کی قوم ہے۔ ان فی ذلک لایۃ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر علامت ہے۔ وما کان اکثرھم مومنین کیونکہ قوم فرعون میں سے آل فرعون کے مومن کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا تھا اس کا نام حز قیل تھا اس کی بیٹی حضرت آسیہ تھی جو فرعون کی بیوی تھی اور اس کی بیٹی مریم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور کی وہ بوڑھی۔
1
؎۔ المحرر الوجیز جلد
4
ص
233
عورت تھی جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر پر آگاہ کیا تھا اس کا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو چاند ان پر تاریک ہوگیا۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا : یہ کیا ہوا ؟ ان کے علماء نے بتایا : جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا تو آپ نے ہم سے پختہ وعدہ لیا کہ ہم مصر سے نہ نکلیں یہاں تک کہ ہم آپ کی ہڈیاں یہاں سے اپنے ساتھ منتقل کریں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تم میں سے کون ان کی قبر کو جانتا ہے ؟ بتایا بنی اسرائیل کی ایک بوڑھی کے سوا اسے کوئی نہیں جانتا۔ آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا فرمایا : مجھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کے بارے میں بتائو۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ایسا نہ کروں گی یہاں تک کہ تو میری بات مانے۔ فرمایا : تیرا حکم و بات کیا ہے ؟ اس نے عرض کی : میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں جنت میں تیرے ساتھ رہوں۔ یہ امر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ناگوار ہوا۔ آپ سے عرض کی گئی : اس کے فیصلہ کو مان لو۔ اس بوڑھی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر پر ان کی رہنمائی کردی لوگوں نے اس کی قبر کو کھودا، اس کی ہڈیاں نکالیں جب ان ہڈیوں کو اٹھا لیا تو راستہ یوں ہوگیا جس طرح روشن دن ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کی کہ اس کو وعدہ دے دیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ کرلیا وہ عورت بنی اسرائیل کو بحیرہ پر لے آئے۔ اس عورت نے لوگوں کو کہا : یہ پانی خشک کرو، انہوں نے پانی خشک کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیاں نکال لیں، تو ان کے لیے راستہ دن کی طرح روشن ہوگیا۔ یہ بحث سورة یوسف میں گزر چکی ہے۔ ابو بردہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک اعرابی کے پاس فروکش ہوئے اس نے آپ کی تکریم کی رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ” کوئی خدمت ؟ “ اس نے عرض کی : ایک اونٹنی جس پر میں سواری کروں اور ایک بکری جسے میں دو ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تو بنی اسرائیل کی بوڑھی کی مثل ہونے سے کیوں عاجز آگیا ؟ “۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے عرض کی : بنی اسرائیل کی بوڑھیا کا کیا معاملہ ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس بوڑھی عورت کا ذکر کیا جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پختہ وعدہ لیا کہ جنت میں وہ انکے ساتھ ہوگی۔ (
1
)
Top