Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے نکلو کہ (فرعون کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا
آیت نمبر 52 تا 68 ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا بعد اس کے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے درمیان سالہا سال مقیم رہے (اور) اللہ کی آیات کے ذریعہ دعوت حق دیتے رہے مگر ان کی سرکشی ہی میں اضافہ ہوتا رہا، کہ میرے بندوں بنی اسرائیل کو راتوں رات نکال لیجا، اور ایک قرأت میں نون کے کسرہ اور اَسْرِ کے ہمزہ وصل کے ساتھ ہے اَسْرٰی میں ایک لغت مَسرَیٰ بھی ہے، یعنی راتوں رات ان کو بحر (قلزم) کی طرف لے جا، یقیناً تمہارا تعاقب کیا جائے گا یعنی فرعون اور اس کا لشکر تمہارا تعاقب کرے گا چناچہ وہ تمہارے پیچھے دریا میں داخل ہوجائیں گے سو میں تم کو نجات دوں گا اور ان کو غرق کر دوں گا جس وقت فرعون کو بنی اسرائیل کے رات کو چلے جانے کی خبر دی گئی تو فرعون نے شہروں میں لشکر کو جمع کرنے والے بھیج دئیے بیان کیا گیا ہے کہ اس کے زیر تسلط ایک ہزار شہر اور بارہ ہزار دیہات تھے، یہ کہتے ہوئے کہ ان لوگوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے کہا گیا ہے ان کی تعداد چھ لاکھ اور ستر ہزار تھی، اور اس کے مقد الجیش کی تعداد سات لاکھ تھی، اپنے لشکر کی کثرت کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کو قلیل قرار دیا (ورنہ توفی نفسہٖ وہ کثیر تھے) اور یہ کہ ان لوگوں نے ہم کو غصہ دلایا ہے یعنی ایسی حرکت کی ہے جس نے ہم کو غضبناک کردیا ہے بلاشبہ ہم سب چوکنے ہیں یعنی بیدار مغز ہیں (غافل نہیں ہیں) اور ایک قرأۃ حاذرونَ ہے یعنی مستعد ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا چناچہ ان کو یعنی فرعون اور اس کے لشکر کو مصر کے باغوں سے جو کہ (دریائے) نیل کے دونوں کناروں پر تھے اور چشموں سے یعنی ان نہروں سے جو نیل سے ان کے گھروں میں جاری تھیں، اور خزانوں سے یعنی سونے چاندی کے اموال ظاہرہ سے اور کنز کو کنز اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کیا گیا اور امراء اور وزراء کی عمدہ مجلسوں سے کہ جن مجلسوں کو ان کے خدام گھیرے ہوئے تھے نکال لائے، بیان کردہ طریقہ کے مطابق ہمارا نکالنا ہوا، فرعون اور اس کی قوم کے غرق ہونے کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو ان تمام چیزوں کا وارث بنادیا چناچہ قبطی طلوع شمس کے وقت اسرائیلیوں سے جا ملے، پس جب دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کہنے لگے ہم تو پکڑے گئے یعنی فرعون کے لشکر نے ہم کو پکڑ لیا اور ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہرگز نہیں یعنی وہ ہم کو ہرگز نہیں پکڑ سکتے (اس لئے) کہ یقین مانو میرے رب کی نصرت میرے ساتھ ہے، وہ عنقریب مجھ کو نجات کا راستہ بتادے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا پر ماریں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری، اسی وقت دریا بارہ حصوں میں منقسم ہوگیا ہر حصہ عظیم پہاڑ کے مانند تھا اور ان بارہ حصوں کے درمیان راستے تھے جن میں وہ چلتے تھے اور بارہ قبیلوں میں سے نہ کسی سوار کے گھوڑے کی رین تر ہوئی اور نہ نمدہ، اور ہم نے دوسروں یعنی فرعون اور اس کی قوم کو اس موقعہ کے قریب پہنچا دیا حتی کہ وہ بھی ان کے راستوں میں داخل ہوگئے اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے تمام ساتھیوں کو ہیئت مذکورہ کے ساتھ دریا سے نکال کر نجات دیدی، بعد ازاں دوسروں کو غرق کردیا یعنی فرعون اور اس کی قوم کو جب دریا میں ان کا دخول اور اسرائیلیوں کا دریا سے خروج مکمل ہوگیا تو ان پر دریا کو ملا کر غرق کردیا بلاشبہ اس میں یعنی فرعون اور اس کی قوم کے غرق کرنے میں بعد والوں کے لئے عبرت کی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے یعنی فرعون کی بیوی آسیہ اور آل فرعون کا ایک فرد جز قیل اور مریم بنت ناموسیٰ جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کی نشاندہی کی تھی، کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا اور بلاشبہ آپ کا رب غالب ہے چناچہ کافروں سے ان کو غرق کرکے انتقام لے لیا اور مومنین پر بڑا مہربان ہے چناچہ ان کو غرق سے بچا لیا۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : شِرْذَمۃ چھوٹی جماعت (جمع) شِرَاذِم لشرذمۃ قلیلون قیاس کا تقاضہ یہ تھا کہ لشرذمۃ قلیلۃ ہوتا، اس لئے کہ قلیلۃ شرذمۃ کی صفت ہے مگر چونکہ شرذمۃ اسباط پر مشتمل تھا اور ہر سبط ان میں سے قلیل تھا اس لئے جمع کو مذکر جمع لایا گیا۔ (روح المعانی) اور قلیلون، اِنّ کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : لجمیعٌ بمعنی جمعٌ ای جماعۃ یہ کلمہ الفاظ تاکید میں سے نہیں ہے کہ یہ اعتراض ہو سکے کہ حرف تاکید تابع ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے اور یہاں تابع ہو کر استعمال نہیں ہوا۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ کلمات تاکید میں سے نہیں بلکہ جماعت کے معنی میں ہیں لہٰذا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قولہ : وفی قرأۃ حاذرون ابو عبید نے کہا ہے حذِرُون اور حَاذرُون دونوں کے ایک ہی معنی ہیں ہوشیار، بیدار مغز، چوکنا، بعض حضرات نے یہ فرق بیان کیا ہے کہ حَذِرُون اس مخلوق کو کہتے ہیں جو پیدائشی طور پر چوکنے ہوتے ہیں جیسے کوا، اور حاذر اس کو کہتے ہیں کہ جو پیدائشی طور پر تو چوکنا نہ ہو مگر بعد میں چالاک و ہوشیار ہوگیا ہو۔ قولہ : مقام کریم مقام کریم سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات نے عمدہ مکانات مراد لئے ہیں، اور بعض نے امراء و رؤساء کی مجالس مراد لی ہیں، جیسا کہ علامہ محلی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ قولہ : کذٰلک محل نصب میں بھی ہوسکتا ہے تقدیر یہ ہوگی اخر جناھم مثل ذٰلک الاخراج الذی وصفنا اور مقام کریم کی صفت ہونے کی وجہ سے محل جر میں بھی ہوسکتا ہے ای مقام کریم مثلٌ ذٰلک المقام الذی کان لھم اور مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع بھی ہوسکتا ہے ای الامر کذٰلک۔ قولہ : واَوْرَثناھا کا عطف فاخرجنا پر ہے۔ قولہ : وَمَا کان اکثرھم مومنین اکثرھم ان لوگوں کا اکثر مراد نہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں گئے تھے اس لئے کہ وہ تو سب کے سب غرق کر دئیے گئے بلکہ اکثر سے وہ لوگ مراد ہیں جو فرعون کے مسلک اور اس کے عقیدہ پر تھے اور فرعون کی طرف منسوب تھے، ان میں سے بعض لوگ ایمان بھی لائے تھے، جیسا کہ حز قیل اور فرعون کی بیٹی، اس کی بیوی آسیہ اور بنت ناموسیٰ جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کی نشاندہی کی تھی اور سیویہ نے کان کو زائدہ کہا ہے۔ تفسیر و تشریح وَاَوْحَیْنَا اِلیٰ مُوْسٰی جب بلاد مصر میں موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام طویل ہوگیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کردی لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انہیں عذاب و نکال سے دو چار کرکے سامان عبرت بنادیا جائے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو یہاں سے لیکر نکل جائیں اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا گھبرانا نہیں۔ اسرائیلیوں کو فرعون نے شِرْذَمَۃٌ قلیلونَ تحقیر کے لئے کہا تھا ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ سے بھی زیادہ تھی وَاِنَّھُمْ لنا غَائِظُوْنَ ، لَنا کی تقدیم حصر اور رعایت فواصل کیلئے ہے، اصل میں انھم غائظون لنا ہے، یعنی اول تو یہ میری اجازت کے بغیر چلے گئے، دوسری بات یہ ہے کہ قبطیوں کے زیورات دھوکے سے لے گئے یہ دونوں حرکتیں ایسی ہیں کہ جس نے ہم کو غیض و غضب میں مبتلا کردیا ہے فاخرجناھم من جنّٰتٍ وعیون یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا کہ پھر پلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا ہی نصیب نہ ہوا، یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مشیئت سے انہیں تمام نعمتوں سے محروم کرکے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا، بعض حضرات نے اَوْرَثْنٰھَا بنِی اِسْرَائِیْلَ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ہم نے مصر جیسا اقتدار اور دنیوی جاہ و جلال بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا، کیونکہ بنی اسرائیل مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے نیز سورة دخان میں فرمایا گیا ہے وَاَوْثْنٰھَا قوماً آخرین کہ ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنادیا (ایسر التفاسیر) بعض اہل علم یہ کہتے ہے کہ قومًا آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں یعنی سورة شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت موجود ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی، مگر قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لئے یہ داخلہ مؤخر کرکے میدان تیہ میں بٹھکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے، اس لئے صحیح معنی یہی ہیں کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعمتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں، لیکن مصر میں نہیں فلسطین میں۔ (واللہ اعلم بالصواب) جب صبح کو فرعون کو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل یہاں سے رواتوں رات نکل گئے ہیں تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا، جب فرعونی لشکر بالکل قریب آگیا تو پوری قوم بنی اسرائیل چلا ٹھی انا لمدرکون ہم تو یقیناً پکڑے گئے اور پکڑے جانے میں شبہ ہی کیا تھا آگے سمندر ہے اور پیچھے لشکر فرعون اور یہ صورت حال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی پوشیدہ نہیں تھی مگر وہ کوہ استقامت اللہ کے وعدہ پر یقین کئے ہوئے تھے اس وقت بڑی خود اعتمادی کے ساتھ فرمایا کَلاَّ ہرگز ہم پکڑے نہیں جاسکتے، اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ اِنّ معیَ رَبِّی سیھدیِن میرے ساتھ میرا پروردگار ہے جو مجھے عنقریب راستہ دے گا، ایمان کا امتحان ایسے ہی موقعوں میں ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ذرا بھی خوف وہر اس نہیں تھا وہ گویا کہ بچنے کا راستہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، بعینہٖ اسی طرح کا واقعہ ہجرت کے وقت غار ثور میں چھپنے کے وقت رسول کریم ﷺ کو پیش آیا تھا کہ دشمن جو آپ کے تعاقب میں تھے اس غار کے دہانے پر آکھڑے ہوئے ذرا نیچے نظریں کریں تو آپ پر ان کی نظریں پڑجائیں، اس وقت ابوبکر صدیق کو گھبراہٹ ہوئی تو آپ نے بعینہٖ یہی جواب دیا لاَتَحْزَنْ اِنّ اللہَ مَعَنَا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہی ان دونوں واقعات میں ایک خاص بات یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دینے کے لئے اِنّ مَعِیَ رَبِّی فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے اِنّ اللہَ معَنَا فرمایا، یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے افراد بھی اپنے رسول کے ساتھ معیت الٰہیہ سے سرفراز ہیں۔ چناچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح رہنمائی فرمائی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو حضرت موسیٰ علیہ نے لاٹھی ماری تو پانی دونوں طرف رک گیا اور ان دونوں کے بیچ میں بارہ قبیلوں کے اعتبار سے بارہ راستے بن گئے، غرضیکہ فرعون معنہ اپنے لشکر کے غرق دریا ہوگیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مع اپنی قوم کے نجات پاگئے، یہ سب کچھ تائید الٰہی سے ہوا تائید الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا، اس واقعہ میں یقیناً بڑی عبرت ہے مگر پھر بھی اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔
Top