Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 5
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
کیا ہم نصیحت کو تم سے اس وجہ سے ہٹالیں گے کہ تم حد سے بڑھ جانے والے ہو
1:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افنضرب عنکم الذکر صفحا “ (کیا ہم اس نصیحت نامے کو ہٹالیں گے) یعنی کیا تم گمان کرتے ہو کہ ہم تم سے درگزر کریں گے اور وہ تم نے نہیں کیا ان کاموں کو جن کا تم کو حکم دیا گیا تھا ؟ 2:۔ فریابی (رح) وعبد بن حمید وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افنضرب عنکم الذکر صفحا “ سے مراد ہے کہ تم قرآن کو جھٹلاؤ پھر تم کو اس پر سزا بھی نہ دی جائے۔ 3:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” افنضرب عنکم الذکر صفحا “ یعنی اللہ کی قسم اس امت کے لوگوں نے اس قرآن کو رد کیا اگر اللہ تعالیٰ اس قرآن کو اٹھا لیتا تو سب لوگ ہلاک ہوجاتے لیکن اللہ نے اپنی رحمت اور مہربانی اس امت پر دوبارہ کی اور ان کو اس کی طرف بلایا۔ کتاب اللہ کا نزول اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے : 4:۔ محمد بن نصر نے کتاب الصلاۃ میں حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس پر کتاب کو اتارا اگر اس کی قوم نے اس کو قبول کیا (تو ٹھیک) ورنہ اس کو اٹھالیا گیا، اسی کو فرمایا (آیت ) ” افنضرب عنکم الذکر صفحا ان کنتم قوما مسرفین “ (کیا ہم تم سے اس نصیحت نامہ کو اس بات پر ہٹالیں گے کہ تم کفر میں حد سے آگے بڑھنے والے لوگ ہو) یعنی تم اس کو قبول نہیں کرتے اور اس کے نبی کا دل اسے تلقین کرتا ہے انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اس کو قبول کیا اے ہمارے رب ہم نے اس کو قبول کیا اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو (کتاب کو) اٹھالیا جاتا اور اس میں سے کوئی چیز زمین پر نہ چھوڑی جاتی۔
Top