Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 5
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
کیا ہم تمہیں درس نصیحت دینے سے اس لیے صرف نظر کرلیں کہ تم حدود سے تجاوز کر جانے والے لوگ ہو
اَفَنَضْرِبُ عَنْـکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ ۔ (الزخرف : 5) (کیا ہم تمہیں درس نصیحت دینے سے اس لیے صرف نظر کرلیں کہ تم حدود سے تجاوز کر جانے والے لوگ ہو۔ ) صَفْحًا، مفعول لَـہٗکے مفہوم میں ہے۔ اس کا معنی ہے روک دینا، چشم پوشی کرنا۔ ضَرَبَ عَنْـہُکے معنی ہوں گے اس سے اس چیز کو ہٹا دیا۔ آیت کا پس منظر اس ایک فقرے سے وہ صورتحال کھل کر سامنے آجاتی ہے جس میں اس آیت کا نزول ہوا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے عرب قوم صدیوں سے سخت جہالت، پستی اور بدحالی میں مبتلا تھی۔ وہ ایسی دھات کی مانند تھی جو کسی کان میں مٹی یا پتھر کی طرح اپنی ابتدائی حالت میں پڑی ہوئی ہو، جسے حالی نے اس طرح تعبیر کیا ہے : پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی طبیعت میں جو اس کے جوہر تھے اصلی ہوئے سب تھے مل کر وہ مٹی میں مٹی یہ تھا ثبت علم قضا و قدر میں کہ بن جائے کی وہ طلا اک نظر میں نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری نے اس دھات کو کان سے باہر نکالا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر پڑی، اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکلنے کے بعد جب علم کی شعاعیں اس پر پڑیں اور وحی الٰہی کی تجلیات اس پر برسنے لگیں تو جن لوگوں میں ابھی تک طلا کی کچھ رمق باقی تھی وہ طلائے صافی بن کر چمکنے لگے۔ اور جن لوگوں نے اپنے جو ہراصلی کو مٹی میں ملا دیا تھا انھوں نے نہ صرف اپنی محرومیوں کی دلدل سے نکلنے سے انکار کردیا بلکہ خم ٹھونک کر میدان میں مقابلے کے لیے آکھڑے ہوئے۔ روز بروز ان کی عداوت بڑھتی چلی گئی، حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے قتل کے منصوبے باندھنے شروع کردیئے۔ ایسی صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وحی کا نزول روک لیا جاتا، اور اللہ تعالیٰ کا رسول ان کی حرکتوں سے مایوس ہو کر اپنی تبلیغی کاوشیں بند کردیتا۔ اگر آنحضرت ﷺ کی دعوت اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نہ ہوتی اور آپ کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہ ہوتا اور آپ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرض کو انجام دینے کے پابند نہ ہوتے تو یقینا آپ ایسا کرتے۔ لیکن اس دین کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اور پیغمبر کو ہر طرح کے حالات میں اصلاحِ خلق کا پابند ٹھہرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اس آیت کریمہ میں بیان کیا جارہا ہے کہ تمہارے تمرد اور سرکشی نے جو صورتحال پیدا کردی ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام اصلاحی کاوشوں کو روک دیا جائے اور ہم اس درس نصیحت کو روک کر تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو، لیکن ہماری رحمت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تمہاری اس روش سے کیا نتیجہ پیدا ہوگا۔ تمہاری نہ صرف دنیا تباہ ہوگی بلکہ آخرت بھی خسران کا شکار ہوجائے گی۔ اس لیے تمہاری تمام تر جہالت کے باوجود ہم تمہیں اس خیر سے محروم نہیں کرنا چاہتے جو اللہ تعالیٰ نازل فرما رہا ہے۔ تم شرک کی آلودگیوں میں لتھڑے ہوئے ہو، تمہاری حالت بدترین مریض جیسی ہے، تو مریض سے ہمدردی کا تقاضا یہ نہیں کہ اسے بیماری کے حوالے کردیا جائے بلکہ جامِ شفا اور دوا کے اصل مستحق تو مریض ہی ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ تم پر سے اپنی رحمت ہٹانا نہیں چاہتا۔
Top