Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 5
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ
اَفَنَضْرِبُ : کیا بھلا ہم چھوڑ دیں عَنْكُمُ الذِّكْرَ : تم سے ذکر کرنا صَفْحًا : درگزر کرتے ہوئے۔ اعراض کرنے کی وجہ سے اَنْ كُنْتُمْ : کہ ہو تم قَوْمًا : ایک قوم مُّسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والی
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے
افنضرب عنکم الذکر صفحا ان کنتم قوما مسرفین۔ ” کیا ہم روک لیں گے تم سے اس ذکر کو ناراض ہو کر اس وجہ سے کہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو “۔ افنضرب عنکم الذکر ذکر سے مراد قرآن ہے ؛ یہ ضحاک اور دیگر سے مروی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ذکر سے مراد عذاب ہو یعنی کیا ہم تم سے عذاب کو روک لیں گے اور تمہارے اسراف اور کفر پر تمہیں سزا نہ دیں گے ؛ یہ مجاہد، ابو صالح اور سدی کا قول ہے (3) ۔ عوفی نے یہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ؛ معنی ہے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم تم سے عذاب کو روک لیں گے جبکہ تم نے وہ کچھ نہیں کیا جس کا تمہیں حکم دیا گیا تھا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ معنی ہے کیا تم قرآن کو جھٹلاتے ہو اور تمہیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ سدی نے یہ بھی کہا : معنی ہے کیا ہم تمہیں فضول چھوڑ دیں گے اور یم تمہیں حکم نہیں دیں گے اور ہم تمہیں نہیں روکیں گے۔ قتادہ نے کہا : معنی ہے کیا ہم تمہیں ہلاک کردیں گے اور تمہیں حکم نہیں دیں گے اور تمہیں نہیں روکیں گے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ کیا ہم قرآن نازل کرنے سے رک جائیں گے قبل اس کے کہ تم اس پر ایمان نہیں لائے ہو گے اور تم پر اسے نازل کریں گے ؛ یہ ابن زید کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر اس قرآن کو اٹھالیا جاتا جب اس امت کے لوگوں نے اس کا رد کیا تھا تو وہ ہلاک ہوجاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ اسے لوٹا یا اور بار بار نازل کیا۔ کسائی نے کہا : ہم تم سے ذکر کو لپیٹ دیں گے نہ تمہیں نصیحت کی جائے گی اور نہ ہی تمہیں حکم دیا جائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد تذکیر ہے گویا فرمایا : کیا تمہیں نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے کیونکہ تم فضول خرچ قوم ہو۔ یہ تعبیر اس کے نزدیک ہے جس نے ان کے ہمزہ کو فتحہ دیا ہے، جس نے اسے کسرہ دیا ہے اس نے اسے شرط کے لیے بنایا ہے اور اس کا ماقبل اس کا جواب ہے کیونکہ یہ لفظوں میں عمل نہیں کرتا اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وذرواما بقی من الزبوا ان کنتم مومنین۔ (البقرۃ) ایک قول یہ کیا گیا ہے : جواب مخدوف ہے اس پر ما قبل کلام دلالت کرتی ہے جس طرح تو کہتا ہے : انت ظالم ان فعلت زجاج کے نزدیک ہمزہ کے کسرہ کی صورت میں حال کا معنی ہوگا کیونکہ کلام میں تقریر اور تو بیخ کا معنی پایا جارہا ہے صفحا کا معنی اعراض کرنا ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے صفحت عن فلان جب تو نے اس کے گناہ سے درگذر کیا قد ضربت عنہ صفحا جب تو نے اس سے اعراض کیا اور اس کو ترک کردیا۔ اس کا اصل معنی گردن کا پہلو ہے یہ کہا جاتا ہے : اعرضت عنہ یعنی میں نے اس سے اپنی گردن کا پہلو پھیرلیا۔ شاعر نے کہا : صفوحا فما تلقاک الا بخیلتہ فمن مل منھاذلک الوصل ملت (1) وہ گردن کا پہلو پھیر نے والی ہے وہ تجھے بخیل کی حیثیت سے ہی ملے گی جو اس وصل سے اس سے اکتا جائے وہ اکتا جاتی ہے۔ صفحا مفعول مطلق کی حیثیت سے منصوب ہے کیونکہ افنضرب کا معنی ہے افنصفح ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یوں ہے افنضرب عنکم الذکر صافحین جس طرح یہ جملہ کہا جاتا ہے : جاء فلان مشیاً ۔ مسرفین کا معنی ہے مشرکین۔ ابو عبیدہ نے ان میں ہمزہ کے فتحہ کو اختیار کیا ہے ؛ یہ ابن کثیر، ابو عمرو، عاصم اور ابن عامر کی قراءت ہے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں اس امر پر عتاب کیا جو ان سے واقع ہوا اور ان کے عمل سے پہلے اسے جان لیا۔
Top