Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ اسے پانے والا بھی ہے کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے رکھا ہے، پھر وہ قیامت کے دن (کٹہرے میں) حاضر کیے جانے والوں میں سے ہے
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰـہُ وَعْدًا حَسَنًا فَھُوَلاَ قِـیْـہِ کَمَنْ مَّتَّعْنٰـہُ مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ ھُوَ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ۔ (القصص : 61) (بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ اسے پانے والا بھی ہے کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے رکھا ہے، پھر وہ قیامت کے دن (کٹہرے میں) حاضر کیے جانے والوں میں سے ہے۔ ) الْمُحْضَرِیْنَ … احضار سے ہے۔ اس کا مفہوم ہے مجرموں کی طرح پکڑ کر حاضر کرنا۔ اس لحاظ سے اس میں ذلت کا معنی پایا جاتا ہے۔ تو مراد اس سے وہ لوگ ہوں گے جو اپنے شرک کے باعث ذلت کے ساتھ میدانِ حشر میں حاضر کیے جائیں گے۔ کافر اور مومن کی ذہنیت کا مقابلہ قریش کے لیے ہدایت قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خوشحالی اور دنیوی جاہ و منزلت ہے، جس کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے قبول کرنے کے نتیجے میں یہ سب کچھ ختم ہو کر رہ جائے گا۔ ان کے ان باطل تصورات پر پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے، اب اسی کے ازالے میں ان کے غور و فکر کے لیے مزید کچھ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اسلام تمہیں آخرت کی طرف بلاتا ہے اور ایک ایسے نظام زندگی پر کاربند ہونے کی دعوت دیتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں تم آسودہ زندگی گزارو گے، باہمی رشتوں کے احترام کے باعث گھر سے لے کر ریاست کے ایوانوں تک ہر معاملے کی چول سیدھی ہوجائے گی۔ اور ایک ایسی پرسکون زندگی وجود میں آئے گی جس میں محبت، مروت، مؤدت، ہمدردی و غمگساری کی اقدار جنم لیں گی اور انسان صحیح انسانی زندگی سے آشنا ہوجائے گا۔ اور مرنے کے بعد آخرت میں وہ خوبصورت زندگی نصیب ہوگی جس کی نعمتوں پر کبھی زوال نہیں آئے گا، کہیں کوئی خدشہ جنم نہیں لے گا، ہر طرف خوشیاں اور مسرتیں ہوں گی اور انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے سائے میں ابدی زندگی اور سکون سے ہمکنار ہوجائے گا۔ تم اس کی بجائے اس زندگی پر اصرار کررہے ہو جو چند روزہ ہے، جس میں چند انسان خوش عیشی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بیشتر انسان دکھوں کے سائے میں رہتے ہیں جہاں طاقتور طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں کی محرومیوں پر اپنی کامیابیوں کی عمارت استوار کرتا ہے۔ جہاں امیروں کے کتے مخمل کا لباس پہنتے اور غریبوں کے بچے موسموں کی شدت کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جہاں ہر راحت اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی تکلیف کا پہلو لیے ہوئے ہے اور ہر آسودگی کے اندر ابتری اور ناہمواری مضمر ہے اور جہاں کی بڑی سے بڑی دولت متاع غرور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی مختصر، ناپائیدار اور موہوم زندگی پر اصرار کے نتیجے میں اس زندگی سے منہ موڑ رہے ہو جو ہمیشہ رہنے والی اور مسرتوں و شادمانیوں سے عبارت ہے۔ اور پھر یہ بھی بھول جاتے ہو کہ تم جن لوگوں کا مذاق اڑاتے ہو وہ اس ابدی زندگی کے وارث بننے والے ہیں۔ اور تمہاری یہ چند روزہ زندگی ہمیشہ کی ذلتوں و رسوائیوں اور مصیبتوں میں تبدیل ہونے والی ہے۔ اگر تم اس تقابل کو سمجھ سکتے اور تمہارے اندر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی تو تم کبھی روزحشر کی رسوائیاں اور ذلتیں قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ آج بھی تمہارے لیے یہ موقع ہے کہ تم ان دونوں زندگیوں میں تقابل کرکے آخرت کی زندگی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرو، ورنہ وہ دن ٹلنے والا نہیں جب سب غلط لوگوں کو بروزحشر جزاء و سزا کے کٹہرے میں زبردستی لاکھڑا کیا جائے گا۔
Top