Tafseer-e-Haqqani - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
پھر کیا وہ شخص کہ جس کو ہم نے (جنت کا) وعدہ دیا ہو، سو وہ اس کو پانے والا بھی ہو، اس کے برابر ہوسکتا ہے کہ جس کو ہم نے دنیا کی چند روزہ زندگی کے اسباب سے بہرہ مند کیا، پھر وہ قیامت کے دن پکڑا ہوا آئے۔
ترکیب : ھولاء مبتداء، موصوف الذی صلہ موصول صفت اغوینہم خبر کما غوینا صفت ویمکن ھولاء مبتداء الذین الخ خبر اغوینہم جملہ مستانفہ لو انہم کلمہ تسحر۔ اگر شرط ہو تو بارا دہ جواب محذوف۔ تفسیر : پھر دنیا کی نعمت اور آخرت کی مصیبت والے کا اس سے مقابلہ کرکے دکھاتا ہے کہ جس کے لیے حیات جاودانی اور سرور ابدی تیار رکھا ہے، اس کے جانے ہی کی دیر ہے، بقولہ افمن وعدًنہ وعد احسنا فہولا قیہ الخ کہ کیا دونوں شخص برابر ہوگئے ؟ ہرگز نہیں، بھلا کہاں وہ کہ اس کے لیے اس عالم میں بیشمار نعمتیں تیار کر رکھی ہوں اور وہ اس کو ملنے والی ہیں، اس کے برابر ہے کہ جس کو دنیا کی زندگانی کا اسباب عطا ہوا، لیکن قیامت کے روز اس کے لیے عذاب تیار ہے۔ ابن جریر نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ اور ابی جہل کے بارے میں ہے اور دوسرے طریق سے منقول ہے کہ اس میں حمزہ ؓ اور ابوجہل کی طرف اشارہ ہے، افمن وعدنہ سے حمزہ ؓ کمن متعنہ سے ابوجہل۔ چونکہ تمثیل کے طور پر آخرت کا ذکر آیا تھا، اس لیے مسئلہ نبوت کو تمام کرکے مسئلہ آخرت ذکر فرمایا کہ وہاں مشرکوں سے یوں سوال ہوگا، من المفلحین تک۔ ویوم ینادیہم اب یہاں سے وہ قیامت کی بازپرس شروع کرتا ہے کہ ان سے کہا جائے گا بتاؤ کہاں ہیں وہ کہ جن کو تم نے میرا شریک سمجھ رکھا تھا ؟ اس کا جواب ان سے کچھ نہ بن آئے گا مگر وہ لوگ کہ جن کے گمراہ کرنے سے یہ بہکے تھے اور اس عدالت میں ان پر جرم ثابت ہو کر سزائے جہنم کا حکم ہوچکے گا اپنی برأت کے لیے یوں کہیں گے۔ یہ لوگ ان کو ہم نے گمراہ کیا، ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، جس طرح باتوں باتوں میں پہلوں نے ہم کو بہکایا تھا، اسی طرح ویسی ہی باتیں ان سے ہم نے بھی کیں، یہ آپ بہک گئے، ہم ان سے بری ہیں۔ یہ لوگ ہرگز ہم کو نہیں پوجتے تھے۔ قال الذین حق علیہم القول سے لے کر ماکانوا ایا نایعبدون تک کے یہی معنی ہیں۔ غرض یہ کہ جن کی تقلید کرکے آج یہ ان کو پوجتے ہیں، کل میدان قیامت میں ان کا ساتھ دینا تو درکنار ان سے بیزاری ظاہر کریں گے۔ وقیل ادعو شرکاء کم الخ یہاں سے ایک دوسرے عتاب کا بیان ہے کہ ان سے کہا جاوے گا اپنے معبودوں کو بلاؤ کہ وہ تمہاری فریاد رسی کریں، پھر وہ ان کے معبود انہیں، کچھ جواب نہ دیں گے۔ کقولہ تعالیٰ وقیل ادعوا شرکائکم فدعوھم فلم یستجیبوا لہم یہ اس لیے کہ ان کو اپنے معبودوں کی بےقدرتی اور بیزاری ثابت ہو کہ جن کو یہ آج پوج رہے ہیں، یعنی برے وقت وہ کچھ کام نہ آئیں گے، بلکہ وہ مصیبت دیکھیں گے۔ وراؤ ا العذاب پھر حسرت کریں گے۔ لو انھم کانوا یہتدون کہ کاش ہدایت پر ہوتے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں لو شرطیہ ہے اور اس کا جواب محذوف ہے۔ ضحاک و مقاتل کہتے ہیں، یعنی المتبوع، والتابع یرون العذاب ولو انہم کانوا یھتدون فی الدنیا ما ابصر وہ فی الآخرۃ یہ تو ان پر توحید اختیار نہ کرنے سے الزام قائم ہوگا کہ جس کو رسولوں بغیر عقل سلیم بھی منواتی تھی، باقی دیگر احکام حلال و حرام جو رسولوں کے ذریعہ سے پہنچتے ہیں۔ ان پر عمل نہ کرنے پر خاص رسولوں کی بابت سوال ہوگا کہ تم نے ان کو کیا جواب دیا تھا۔ ویوم ینادیہم الخ یعنی ہمارے ایلچیوں کو کیوں نہیں مانا، فعمیت علیہم الانباء ان کو کچھ بھی جواب نہ آئے گا۔ فہم لایتساء لون کہ آپس میں پوچھ بھی نہ سکیں گے کہ پوچھ کر بتادیں، سخت ہیبت اور دہشت ہوگی۔ فاما من تاب الخ یہاں سے حشر کا فیصلہ بیان فرماتا ہے کہ جس نے کفر و شرک اور بدکاری سے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے ان کو فلاح اور نجات ہوگی۔ کلمہ عسٰی امید دلانے کے لیے ہے، حشر کا حال بیان کرکے مناسب ہوا کہ کفار کے اس شبہ کا بھی جواب دے کہ جو ان کو آنحضرت ﷺ کی نبوت میں تھا اس لیے کہ ابھی حشر میں انبیاء کے ماننے کی بابت سوال ہونے کا ذکر تھا جس کا یہ مطلب کہ آج تم نبوت میں یہ شبہ کرتے ہو، کل میدان حشر میں تمہارا نبوت کے نہ ماننے پر یہ حال ہوگا۔ شبہ یہ تھا کہ یہ قرآن کسی بڑے سردار پر کیوں نہ اترا ایسے غریب آدمی کو کیوں نبی کیا۔ لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم، اس کا جواب دیتا ہے۔ و ربک یخلق 1 ؎ مایشاء ویختار کہ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے پیدا کرے، جس کو چاہے برگزیدہ کرے، ان کا کچھ اختیار نہیں اور نہ ان کے معبودوں کا کہ جن کو وہ خدائی میں شریک کرتے ہیں۔ اللہ ان کے شریک کرنے سے پاک ہے وہ سب کچھ جانتا ہے، ظاہر کی باتیں بھی ‘ دل کے خیالات بھی، جب وہ علام الغیوب ہے تو اس مصلحت کو بھی وہی جانتا ہے کہ فلاں کو کیوں نبی کیا ؟ 1 ؎ 1 ؎ اور ممکن ہے کہ یہ جملہ وربک یخلق الخ ایک جدی دلیل ہو وہ شرک کے لیے کہ تیرا رب قادرہ عالم و متصرف ہے بہ خلاف ان کے معبودوں کے کہ وہ نہ اختیار رکھتے ہیں نہ قدرت نہ علم حشر میں خود ہوں گے اور کا کیا بھلا کرسکیں گے اور ربک بہ تعریض بھی ہے کہ تیرا رب ایسا ہے بہ خلاف ان کے معبودوں کے اور اس وہم کے دفع کی طرف بھی اشارہ ہے کہ خدا نے کسی کو نبی کسی کو کافر کسی کو جنتی کسی کو دوزخی کیوں بنایا۔ حشر کے ذکر پہ یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا اس کا جواب دیا کہ وہ قادرو خالق وعلیم ہے۔ 12 منہ
Top