Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
کیا پس وہ شخص جس سے ہم نے ایک اچھا وعدہ کیا پھر وہ شخص اس وعدہ کو پانے والا ہے کیا اس کے برابر ہے جس کو ہم نے دنیاوی زندگی کا کچھ فائدہ دے دیا ہے ؟ پھر قیامت کے روز وہ ان لوگوں میں ہوگا جو (مجرم کے طور پر) حاضر کیے جائیں گے
دنیا حاصل کرنے والا فائدے میں رہا یا آخرت کا متلاشی فیصلہ خود کرلو : 61۔ ہمارے ہاں اصول یہ طے ہے کہ جو متلاشی ہوتا ہے وہ پالیتا ہے اور جو تلاش نہیں کرتا اس کو کبھی بھی نہیں دیا جاتا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ جس کی اس کو تلاش ہوتی ہے وہی اس کو ملتا ہے ایسا کبھی نہی ہوسکتا کہ کوئی شخص دنیا کی طلب رکھے اور اس کے ہاتھ میں آخرت تھما دی جائے اور ایک آخرت کی طلب رکھتا ہو اور اس کو دنیا دے کر ٹرخا دیا جائے ، ہاں ! یہ دوسری بات ہے کہ مسلمان کی طلب کیا ہے ؟ فرمایا ملتا تو وہی ہے جو جس کی طلب ہوتی ہے اور اگر طلب صادق ہے تو جب تک اس کو وہ دیا نہ جائے گا وہ آخر مطمئن ہی کیوں ہوگا لہذا صرف دنیا طلب کرنے والے کو دنیا دی جاتی ہے اور بلاشبہ بعض اوقات اتنی وافر دی جاتی ہے کہ اس کی طلب سے بھی بہت زیادہ کیونکہ یہ دینے والے کی مرضی ہے لیکن ہاں ! جو کچھ اس کو دیا جائے گا بلاشبہ وہ دنیا کی زندگی ہی کے لئے ہوگا آخرت میں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگا جو اس کو کچھ فائدہ دے ۔ غور کرو کہ یہ فرعون ‘ شداد ‘ ہامان اور قارون کے ناموں سے تمہار بچہ بچہ واقف ہے کیا دولت کی ان کے پاس کوئی کمی تھی اور دنیا کی کونسی وہ چیز ہے جو ان کو نہیں دی گئی تھی لیکن ان کی آخرت کا کیا بنا ؟ خود نبی اعظم وآخر ﷺ کے رؤسا مکہ کے پاس کس چیز کی کمی تھی ہاں ! یہ ابوجہل ہے ‘ ابولہب ہے ‘ عتبہ ہے ‘ شیبہ ہے ‘ کیا ان کے پاس دنیا کے مال کی کوئی کمی تھی ؟ ان کا انجام کیا ہوا اور ان کے مقابلہ میں یہ بلال ؓ ہے ‘ عمار ؓ ہے ‘ یاسر ؓ ہے ‘ صہیب ؓ رومی ہے ‘ ابوذر ؓ غفاری ہے جو سارے کے سارے دنیوی اعتبار سے غریب ونادار ہیں جن کے نام سے بھی رؤسائے مکہ اس طرح بھاگتے تھے کہ کہیں ان کا نام لینے سے ان کو کوئی نحوست ہی آکر نہ پکڑ لے اور وہ ان ہی کی طرح کہیں افلاس کے شکنجہ میں نہ کس دیئے جائیں ۔ حالانکہ ان کا یہ تصور سراسر فریب نفس تھا کیونکہ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو ختم ہوتے آخر کتنی دیر لگی اور جن کے پاس کچھ نہیں تھا ان کا نام تو آج تک زندہ وجاوید ہے اور ان شاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک زندہ وجاوید رہے گا اور آخرت میں ان کے لئے جو انعامات رکھے گئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں پھر غور کرو کہ فائدے میں کون رہا اور خسارہ کس نے اٹھایا ؟
Top