Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اس نے اسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا ؟ پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے
آیت 61 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا میں زہد کی ترغیب دی ہے نیز انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کے دھوکے میں نہ آئیں اور یہ کہ وہ آخرت میں رغبت رکھیں، نیز اس نے آخرت کو بندے کا مطلوب و مقصود قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سب کچھ جو مخلوق کو عطا کیا گیا ہے، مثلاً سونا چاندی، حیوانات، مال و متاع، عورتیں، بیٹے، ماکولات، مشروبات اور لذات صرف دنیا کی متاع اور اس کی زینت ہیں۔ بندہ جن سے بہت تھوڑے وقت کے لئے متمتع ہوتا ہے وہ بہت ہی تھوڑی سی متاع ہے جو تکدر سے گھری ہوئی اور غم واندوہ سے لبریز ہے۔ بندہ نہایت قلیل مدت کے لئے فخر وریا کے طور پر اس دنیا سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے پھر جلد ہی یہ دنیا زائل اور تمام کی تمام ختم ہوجاتی ہے اور اس دنیا سے محبت کرنے والا حسرت، ندامت، ناکامی اور حرماں نصیبی کے سوا اس دنیا سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ (وماعنداللہ) ” اور جو اللہ کے پاس ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور ہر قسم کے تکدر سے محفوظ زندگی (خیر و ابقی) اپنے اوصاف اور کمیت کے اعتبار سے بہتر ہے وہ زندگی دائمی، سرمدی اور ابدی ہے۔ (افلا تعقلون) کیا تم لوگوں میں عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم دونوں امور کے مابین موازنہ کرسکو کہ کون سی زندگی ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے اور کون سی زندگی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے بھاگ دوڑ کی جائے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اگر کوئی آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے تو اس کا باعث اس کی کم عقلی ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقلوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ دنیا کو ترجیح دینے والوں کے انجام اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کے انجام کے مابین موازنہ کریں، چناچہ فرمایا : (افمن و عدنہ و عداً حسنا فھو لاقیہ) ” بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو “ کیا وہ مومن جو آخرت کے لئے کوشاں ہے، اپنے رب کے وعدۂ ثواب یعنی جنت کے لئے ثواب یعنی جنت کے لئے عمل پیرا ہے جس میں بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوں گی اور بلاشبہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ یہ ایک کریم ہستی کی طرف سے کیا گیا وعدہ ہے جس کا وعدہ سچا ہوتا ہے، وہ اپنے اس بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی جو اس کی رضا پر چلتا ہے اور اس کو ناراض کرنے والے امور سے اجتناب کرتا ہے۔ (کمن متعنہ متاع الحیوظ الدنیا) ” اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیاوی زندگی کے سروسامان سے نوازا ہو “ جو اس دنیا کو حاصل کرتا ہے وہ کھاتا پیتا اور اس سے یوں متمتع ہوتا ہے جیسے جانورمتمتع ہوتے ہیں ؟ یہ شخص اپنی آخرت سے غافل ہو کر اپنی دنیا میں مشغول ہے اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروا کی نہ انبیاء ومرسلین کی اطاعت کی۔ یہ اپنے اسی رویے پر جما ہوا ہے۔ اس دنیا سے اس نے جو کچھ زاد راہ سمیٹا ہے وہ ہلاکت اور خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ (ثم ھم یوم القیمۃ من المحضرین) ” پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں ہوگا جو حاضر کئے جائیں گے “۔ یعنی پھر حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے دامن میں کوئی بھلائی نہیں، اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے لئے نقصان دہ ہے۔۔۔ کیا تم جانتے ہو اس کا کیا انجام ہوگا ؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔۔۔ عقل مند شخص کو وہی چیز اختیار کرنی چاہیے جو اختیار کئے جانے کی مستحق ہے اور اسی چیز کو ترجیح دینا چاہیے جو ترجیح دیئے جانے کے قابل ہے۔
Top