Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرفِ حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟84
سورة القصص 84 یہ ان کے عذر کا چوتھا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہیں۔ اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے، اصل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے، آگے آنی ہے، موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سروسامان جمع کرلے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کرلے، بہرحال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کا سب سروسامان آدمی کو یونہی چھوڑ کر اٹھ جانا ہے۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائما خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے، تو کوئی صاحب عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کرسکتا، اس کے مقابلے میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے، مگر یہاں سے وہ بھلائٰیاں کما کرلے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے ہمیشگی کے عیش کی موجب بنیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی مار دے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر، اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخسرو کرے، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے، لیکن جہاں معابلہ مقابلے کا آپڑے، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے کی ضد ہوجائیں، وہاں دین حق کا مطالبہ انسان سے یہ ہے، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ بھی ہے کہ آدمی دنیا کو آخر پر قربان کردے اور اس دنیا کی عارضی متاع وزینت کی خاطر وہ راہ ہرگز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو۔ ان دو باتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ اوپر کے فقروں میں کفار مکہ سے کیا فرماتا ہے۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو ، اپنے کاروبار ختم کردو، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہوجاؤ، بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیات دنیا میں اٹھا سکتے ہو، اس کے برعکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف (Quality اور Quantity) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو گے اگر اس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے، تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے انعام سے سرفراز ہو، یا وہ شخص جو گرفتار ہو کر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے ؟
Top