Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
تم پر حرام کیا گیا مردار ‘ خون ‘ سور کا گوشت ‘ وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ‘ وہ جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر ‘ یا بلندی سے گر کر ‘ یا ٹکر کھا کر مرا ہو ‘ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ؛۔۔۔ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ۔ نیز یہ بھی تمہارے لئے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب افعال فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔ (لہذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے ‘ بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
ان دونوں اقوال میں کس قدر فرق ہے زمین و آسمان کا فرق : اب یہاں مویشیوں میں سے حلال جانوروں کے کھانے کے اجازت عامہ سے بعض ایسی شکلوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو حلال نہیں ہیں ۔ (آیت) ” حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَکَّیْْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ ذَلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(3) تم پر حرام کیا گیا مردار ‘ خون ‘ سور کا گوشت ‘ وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ‘ وہ جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر ‘ یا بلندی سے گر کر ‘ یا ٹکر کھا کر مرا ہو ‘ یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ؛۔۔۔ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ۔ نیز یہ بھی تمہارے لئے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب افعال فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔ (لہذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کی گئی ہیں ان کی پابندی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے ‘ بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ) مردار ‘ خون اور خنزیر کے گوشت کا حکم اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے ۔ (دیکھئے بقرہ آیت 172) نیز انسانی علم جس قدر حکمت تشریع اسلامی کا ادراک کرسکتا ہے ‘ اس کا بیان بھی وہاں ہوا ۔ انسانی علم چاہے قانون الہی کی حکمت کا ادراک کرسکے یا نہ کرسکے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بہرحال کردیا ہے کہ یہ چیزیں خوراک کے لئے پاکیزہ نہیں ہیں ۔ ہمارے لئے تو صرف حکم الہی ہی کافی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ صرف انہیں چیزوں کو حرام قرار دیتے ہی جو ناپاک ہوتی ہیں ‘ اور ان میں انسانی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کے اعتبار سے ضرر بھی ہوتا ہے چاہے لوگوں کو اس مضرت کا علم نہ ہو ۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا لوگوں نے ان تمام چیزوں کو معلوم کرلیا ہے جو انکے لئے مضر ہیں یا مفید ہیں ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ۔ (آیت) ” وما اھل لغیر اللہ بہ “۔ (5 : 3) یعنی جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے ہوں اس لئے حرام ہیں کہ وہ بنیادی طور پر ایمانی تصور کے خلاف ہیں ۔ ان کی بنیاد ہی اس عقیدے کے خلاف ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ‘ وہی حاکم اور الہ ہے اور وہی نفع ونقصان کا مالک ہے ۔ اس عقیدہ توحید کے پھر کچھ تقاضے ہیں ۔ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر ارادے ‘ ہر نیت اور ہر عمل کا رخ صرف اللہ کی طرف کر دے ۔ وہ ہر چیز پر صرف اللہ کا نام لے ۔ ہر عمل اور ہر حرکت کو صرف اللہ کے نام سے شروع کرے اس لئے ہر وہ حرکت وعمل جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لگ جائے ‘ اسی طرح ہر وہ ذبیحہ جس پر کسی کا نام ہی نہ لیا جائے ‘ نہ غیر اللہ کا اور نہ اللہ کا تو وہ بھی حرام ہے اس لئے کہ یہ عمل ایمان کی بنیادوں کے ساتھ متصاد ہے ۔ اگر کسی کے دل میں صحیح ایمان ہو تو اس سے یہ فعل صادر ہی نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے کہ یہ ناپاک عمل ہے اور چونکہ یہ فعل عقیدۃ ناپاک ہے اس لئے اس کو بھی ان ناپاک چیزوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے جو جسمانی طور پر ناپاک ہیں مثلا خون اور خنزیر کا گوشت ۔ (آیت) ” والمنخنقۃ “ (وہ جسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہو یا خود مر گیا ہو) (والموقوذۃ) (جو کسی اونچی جگہ سے گر جائے ‘ کسی پہاڑ سے یا کنوئیں میں گرکر مر جائے) (والنطیحۃ) (وہ جسے دوسرا جانور مار کر ہلاک کر دے) (آیت) ” وما اکل السبع “ (جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو) یہ سب مردار کی اقسام ہیں اور حرام ہیں ۔ ہاں اگر وہ زندہ ہوں اور انہیں ذبح کرلیا جائے تو کھانا جائز ہے ۔ یہاں ذبح کو اس لئے مستثنی کیا گیا ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ کہیں گرنے ‘ گلا گھٹنے ‘ جانور کے پھاڑے وغیرہ کی وجہ سے یہ حرمت ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے اقوال میں اختلاف ہیں کہ کب کوئی جانور مذبوحہ تصور ہوگا اور اس کا کھانا حلال ہوجائے گا ۔ بعض اقوال کے مطابق ان تمام ذرائع سے مارا ہوا جانور حرام ہوتا ہے جو بہت جلدی اس کی روح نکال دیں یا مکمل طور پر اسے مردہ کردیں ۔ انکے نزدیک اگر ایسے جانور کو ذبح بھی کردیا جائے تو بھی حرام ہوگا جبکہ بعض اقوال کے مطابق یہ حلال ہوتا ہے بشرطیکہ اس کے اندر زندگی ہو اور اسے ذبح کردیا جائے چاہے جس طرح بھی ذبح کیا جائے ۔ تفصیلات کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ (وما ذبح علی النصب) (وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کئے جائیں) مشرکین بتوں پر جانور ذبح کرتے تھے اور جاہلیت میں ان کا خون بتوں پر ملتے تھے ۔ عربوں کے علاوہ دوسری اقوام میں بھی ایسی رسومات ہوتی ہیں ۔ یہ حرام ہیں اس لئے کہ ایسے جانوروں کو بتوں پر ذبح کیا گیا اگرچہ ان پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو اس لئے کہ بت پر ذبح کرنے سے بہرحال شرک لازم آتا ہے ۔ یہ بھی حرام ہے کہ پانسوں کے ذریعہ تقسیم کرو ۔ ازلام وہ تیر ہیں جن کے ذریعہ عرب فال گیری کرتے تھے کہ یہ کام کریں یا نہ کریں ، بعض اقوال کے مطابق یہ تیر تین تھے اور بعض کے مطابق سات تھے ۔ اسی طرح جوئے میں بھی یہ تیر استعمال ہوتے تھے ۔ ان کے ذریعے لوگ ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت بھی تقسیم کرتے تھے ۔ ہر شخص کا ایک تیر ہوتا اور جانور کا جو حصہ جس تیر کے لئے مخصوص ہوتا ہے اگر وہ نکل آتا تو وہ گوشت اس کا ہوجاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے گوشت کی تقسیم کو حرام قرار دے دیا کیونکہ یہ بھی جوئے کی ایک شکل تھی جسے حرام قرار دیا جا چکا تھا ۔ چناچہ اس طرح تقسیم کئے ہوئے گوشت کو بھی حرام قرار دے دیا گیا ۔ ّ (آیت) ” فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانف لاثم فان اللہ غفور رحیم (5 : 3) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے ‘ بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ) وہ شخص جو بھوک کی وجہ سے اضطرار کی حالت میں ہو (یعنی مخمصہ میں) اور اس کی زندگی خطرے میں ہو ‘ اس کے لئے ان محرمات میں سے کھانا جائز ہے ‘ بشرطیکہ وہ عمدا گناہ کا ارتکاب نہ کر رہا ہو ۔ اس بارے میں فقہاء کی آرا مختلف ہیں کہ وہ کس قدر کھائے ۔ آیا اس قدر کھائے کہ زندگی بچ جائے یا بقدر ضرورت سیر ہو کر کھائے یا اگر آئندہ بھی قلت غذا کا خطرہ ہو تو ذخیرہ بھی کرے ۔ ہم ان تفصیلات میں نہیں جاتے ‘ یہاں صرف یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دین اسلام میں یسر اور سہولت رکھی گئی ہے ۔ ضرورت کے وقت اسلامی احکام میں سختی نہیں کی جاتی نہ لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ معاملات کو لوگوں کی حالات پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اور خدا خوفی اور خدا ترسی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب مضطر ہو کر کرتا ہے اور اس کی نیت احکام شکنی کی نہیں ہے اور نہ ہی وہ بالارادہ ایسا کرتا ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا ۔ (آیت) ” فان اللہ غفور ارحیم (5 : 3) (اللہ غفور ورحیم ہے) ۔ اب یہاں آکر ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں ۔ محرمات کے ذکر کے بعد قبل اس کے کہ حلال چیزوں کی فہرست شروع ہو اچانک یہ آیت بیچ میں آجاتی ہے ۔ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ، (5 : 3) ” اور آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ، یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ منصوبہ رسالت اپنے آخری مراحل کو پہنچ گیا اور اس طرح لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم مکمل ہوگیا ۔ اس آیت کے نزول سے حضرت عمر ﷺ کی تیز بصیرت اور ان کی خدا دادہ فہم نے معلوم کرلیا اب حضور ﷺ کے دن دنیا میں کم رہ گئے ہیں ‘ کیونکہ آپ نے امانت لوگوں کے سپرد کردی ‘ اللہ کا پیغام پہنچا دیا ۔ اب صرف اللہ کے ساتھ ملاقات باقی ہے ۔ چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ رونے لگے اور سمجھ گئے کہ حضور ﷺ کی جدائی کا وقت اب بہت ہی قریب آگیا ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس آیت کو حلال و حرام کے احکام کے عین وسط میں لایا گیا ہے اور اسے اس سورة میں رکھا گیا ہے جس کے مقاصد اور موضوعات پر ہم بحث کر آئے ہیں ۔ اس کا مقصد کیا ہے ؟ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی شریعت ایک مکمل نظام ہے جو ایک کل ہے اس کے اجزاء نہیں کئے جاسکتے ۔ اس کے اجزاء باہم اس طرح پیوستہ ہیں کہ ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ اجزاء اعتقادی اور نظریاتی ہوں یا وہ مراسم عبودیت ہوں یا وہ سوسائٹی کے لئے اجتماعی احکام ہوں یا بین الاقوامی امور سے متعلق ہوں ۔ یہ تمام امور (الدین) میں شامل ہوں جس کی تکمیل کی بابت اس آیت میں اعلان کیا گیا ہے اور اس پر مزید یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اس دین کی تکمیل کرکے اللہ تعالیٰ نے تم پر اتمام نعمت بھی کردیا ہے ۔ اس دین میں اعتقادی امور ‘ مراسم عبودیت کے احکام اور طریقوں ‘ حلال و حرام کے احکام اور اجتماعی اور بین الاقوامی قوانین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ یہ سب کے سب ایک مجموعے کے اجزاع ہیں جن کے متعلق اللہ نے اپنی رضا مندی صادر فرمائی ہے اور اس نے ہمارے لئے اسے پسند فرمایا ہے اور اہل ایمان اگر اس دین کے کسی جزء سے خارج ہوں اور اس کا انکار کریں گے تو وہ تمام دین کے انکار کے مترادف ہوگا ۔ یہ دین سے بغاوت ہوگی اور نتیجۃ ایک شخص مومن نہ رہے گا ۔ اگر کوئی کسی ایک جزء کا انکار کرے گا تو اس کا حکم وہی ہوگا جس کا بیان ہم نے اس سے پہلے کیا ہے کہ اس دین کے کسی ایک حصے کو ترک کرنا اور اس کی جگہ کسی انسان کے بنائے ہوئے ضابطے کو رکھنا گویا اللہ کی حاکمیت کا انکار ہے اس طرح ایک انسان کسی ایک ضابطے میں اللہ کی اس خصوصیت کی نسبت کسی انسان کی طرف کرتا ہے جو شرک ہے اور اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے حق حکمرانی پر دست درازی ہے اور خود اپنے لئے حاکمیت اور حکمرانی کا دعوی ہے جسے اللہ ہر گز ہرگز جائز نہیں رکھتے ۔ اس طرح گویا ایک شخص صراحتا دین سے بغاوت کرتا ہے اور دین سے بغاوت کے نتیجے میں انسان دین سے خارج ہوجاتا ہے ۔ (آیت) ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم “۔ (5 : 3) (آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے) وہ اس بات سے مایوس ہوگئے ہیں کہ اس دین کو باطل کردیں ‘ اس کو ناقص کردیں یا اس کے اندر کسی قسم کی تحریف کردیں ۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ وہ کامل اور مکمل رہے گا ۔ اللہ نے اس بات کو ریکارڈ کردیا ہے کہ یہ دین ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اہل کفر کسی موقعہ پر مسلمانوں پر غالب آسکتے ہیں ‘ وہ کچھ عرصہ تک غالب رہ سکتے ہیں لیکن وہ دین اسلام پر غالب نہیں رہ سکتے ۔ یہ سارے ادیان میں سے واحد دین ہے جو محفوظ ہے اور کبھی مٹ نہ سکے گا ۔ نہ اس کے اندر تحریف کی جاسکے گی اس کے باوجود کہ اس دین کے دشمن ہمیشہ اس میں تحریف کرنے کے لئے اپنی مساعی جاری رکھیں گے ۔ وہ اس دین کے خلاف سخت سے سخت سازشیں کرتے رہیں گے مگر کامیاب نہ ہونگے ۔ یہ بھی ہوگا کہ بعض ادوار میں اہل اسلام اپنے دین سے بےحد غافل بھی رہیں گے اور انہیں اپنے دین کے بارے میں بہت ہی کم علم ہوگا ۔ ہاں اس کی حفاظت اللہ یوں کرتا ہے کہ وہ اس دین کا حامل گروہ ہمیشہ اس دنیا میں رکھتا ہے ‘ جو اس دین کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ ہر وقت اس کا دفاع کرتا رہتا ہے اور یہ دین اس گروہ میں کمال درجے پر موجود رہتا ہے اور ان کی زندگیوں میں محفوظ رہتا ہے اور وہ اس امانت کو آگے منتقل کرتا رہتا ہے ۔ یوں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہوتا رہتا ہے کہ اہل کفر ہر دور میں اس دین کی بابت مایوس رہتے ہیں ۔ (آیت) ” فلا تخشوھم واخشون “ (5 : 3) (لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو) اس لئے کہ اہل کفر کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اس دین کا کچھ بگاڑ سکیں ۔ اور وہ اہل اسلام کا بھی صرف اتنا بگاڑ سکتے ہیں وہ انہیں اس دین سے قدرے منحرف کردیں اس قدر کہ وہ اس دین کی زندہ تصویر نظر آئیں اور اس کے فرائض اور تقاضے پورے نہ کرتے ہوں اور اس دین کے مقاصد اور فرائض کو اپنی زندگیوں میں عملا نافذ نہ کرتے ہوں ۔ اہل اسلام کو مدینہ طیبہ میں یہ جو ہدایت دی گئی تھی کیا یہ صرف اہل مدینہ کے لئے تھی ؟ ہر گز نہیں کیا یہ اس نسل کے لئے تھی ؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ ایک عام خطاب ہے جو ہر زمان ومکان کے مومنین کے لئے ہے ۔ ہم اہل ایمان کے خدمت میں یہ عرض کرتے ہیں کہ اہل ایمان حقیقتا وہی لوگ ہیں جو اس دین پر راضی ہوجائیں جسے اللہ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور وہ پورے کا پورا دین اپنی زندگیوں میں نافذ کریں اور اسے اپنے لئے نظام زندگی قرار دیں ۔ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ، (5 : 3) ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ، یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر نازل ہوئی ، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے دین کو مکمل کردیا ہے اور اب اس میں کسی بات کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اور اہل ایمان پر رب کی نعمت مکمل ہوگئی اور وہ ان کے لئے دین اسلام کو بطور دین قبول کرنے پر راضی ہوگیا ہے اور آج سے جو شخص اس کے سوا کسی اور دین کو پسند کرے گا تو گویا وہ اللہ کی پسند کو ترک کرتا ہے ۔ یہ ایک نہایت اہم آیت ہے ایک مومن کو قدرے توقف کرکے اس کے ان ہولناک الفاظ پر غور کرنا چاہتے ۔ اگر اس پر اچھی طرح غور کیا جائے تو وہ معارف وحقائق کبھی ختم نہ ہوں گے جو اس کے اندر پنہاں ہیں ۔ اس کے اندر گہری ہدایات اور اس دور کے فرائض اور تقاضے ذہن میں آئیں گے ۔ سب سے پہلی حقیقت جو اس غور وفکر سے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے دین کو مکمل کردیا ہے اور پھر ایک مومن تاریخ انسانیت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی رسالت سے لے کر حضرت محمد ﷺ کی آخری رسالت تک تمام رسالتوں کا جائزہ لیتا ہے اور تمام ادوار میں قوافل ایمان کا جائزہ لیتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ یہ ایک طویل اور غیر منقطع سلسلہ رسل ہے ۔ یہ ہدایت اور روشنی کا قافلہ ہے جو اس طویل سفر میں مشعل لئے ہوئے ہے ۔ اس طویل سفر میں اس کے نشانات راہ صاف صاف نظر آتے ہیں لیکن اس جائزے میں ہمیں صاف صاف نظر آتا ہے کہ ہر رسول کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانے کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ اس آخری رسالت سے قبل کی تمام رسالتیں کسی خاص دور یا خاص مرحلے کے لئے بھیجی گئی تھیں ۔ ایک خاص پیغام ‘ ایک خاص مرحلے اور ایک خاص معاشرے کے لئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان رسالتوں پر مخصوص زمانے اور مخصوص معاشرے کا رنگ غالب تھا ۔ وہ ان ظروف وحوال سے متاثر تھیں جن میں ان کو بھیجا گیا ۔ یہ سب رسالتیں صرف ایک خدا کی طرف دعوت دے رہی تھیں ۔ وہ سب صرف ایک الہ کی بندگی اور حاکمیت کی طرف دعوت دے رہی تھیں کیونکہ یہی دین اسلام ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کو اپنا حاکم اور معبود سمجھیں اور اسی کی اطاعت کریں ۔ لیکن ان نبیوں کو جو شریعت اور جو قانون اور جو نظام دیا گیا تھا وہ ان کی قوم ‘ انکے دور اور ان کی سوسائٹی کے لئے مناسب تھا اور انکے ظروف واحوال کے مطابق تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ سلسلہ رسل کو ختم کر دے اور انسانوں تک خاص خاص رسالتیں بھیجنے کا سلسلہ بند کر دے تو اللہ نے ایک آخری رسالت پوری انسانیت کے لئے بھیجی اور ایک رسول خاتم النبین تمام انسانوں کے لئے ارسال فرمایا جس کی رسالت کسی خاص معاشرے کسی خاص قوم یا کسی خاص زمانے تک محدود نہ تھی اور نہ کسی دور کے ظروف وحوال سے خصوصیت رکھتی تھی ۔ یہ رسالت کسی زمانے ومکان کی قید میں مقید نہ تھی اور نہ وہ کسی معاشرے کے ظروف واحوال تک محدود تھی ۔ اس رسالت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی حقیقی فطرت کی اساس پر اٹھایا جس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا نہ فطرت انسانی اپنی ڈگر سے ہٹتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ! (آیت) ” فاقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون “۔ (30 : 30) ” پس تم یکسو ہو کر اپنا چہرہ دین کی طرف متوجہ کرلے وہ فطرت جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ‘ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدل نہیں سکتی ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے) پھر اس آخری رسالت کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مفصل شریعت عطا کی جس میں زندگی کے ہر پہلو کے مسائل کا حل موجود ہے ‘ زندگی کی ہر سرگرمی کا ضابطہ اس کے اندر درج ہے ۔ اس شریعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے کلی ضوابط اور اصول درج کئے جن کی روشنی میں وہ ہر دور کے مسائل حل کرتی چلی جاتی ہے ۔ ہر زمان ومکان میں وہ ان قواعد کی روشنی میں یوں نظر آتی ہے جیسے ابھی نازل ہوئی ہے ۔ اس شریعت میں ایسے ضوابط و احکام صراحت سے مذکور ہیں جو کبھی بدلتے نہیں ہیں۔ اس طرح یہ شریعت اپنے اصول و مبادی کے ساتھ اور اپنے تفصیلی اور دائمی احکام کے ساتھ ان تمام اصولوں اور تقاضوں پر حاوی ہے جن کی ضرورت کبھی بھی کسی انسان کو لاحق ہوسکتی ہے ۔ یہ آخری رسالت آغاز آفرینش سے لے کر قیامت تک کے لئے ہے ۔ اس کے ضوابط اس کی ہدایات ‘ اس کی قانون سازی اور اس کے نظم ونسق کے ادارے قیامت تک کے لئے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہے ‘ ترقی کرے ‘ اس کی تجدید اور نشوونما ان اصولوں کی روشنی میں ہو لیکن اس محور کے ارد گرد اور اس دائرے کے اندر جو اس کے لئے اول روز سے وضع کیا گیا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں : (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ، (5 : 3) ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ، ” اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا کہ تمہارا نظریہ حیات مکمل ہوگیا ہے ۔ تمہاری شریعت مکمل ہوگئی ہے اور ہے دین ۔ اس لئے اب اہل ایمان کے لئے ایسا کوئی موقعہ ہی نہیں رہا ہے کہ اس دین میں کوئی نقص رہ گیا ہے اور وہ اسے دور کریں گے ۔ نہ اس میں کوئی کمی ہے جسے وہ پورا کریں گے ۔ نہ اس میں کی زمان ومکان کا رنگ ہے کہ وہ اس میں جدید زمان ومکان کا رنگ بھریں گے ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو نہ تو وہ مومن ہوں گے اور نہ ان کا بنایا ہوا دین ‘ دین اسلام ہوگا اور نہ وہ اللہ کو قبول ہوگا اور نہ ہی صحیح اہل ایمان اسے قبول کریں گے ۔ جس دور میں قرآن کریم نازل ہوا ‘ اس دور کی شریعت ہر دور کے لئے ہے اس لئے کہ یہ اس دین کی شریعت ہے جو تمام ادوار کے لئے اس جہان میں آیا ہے اور یہ ابدی دین ہے ۔ یہ انسانوں کی کسی خاص جماعت کے لئے نہیں آیا نہ یہ کسی خاص دور کے لوگوں کے لئے آیا ہے اور نہ کسی خاص علاقے کے لئے آیا ہے جس طرح اسلام سے پہلے کی رسالتوں کا حال تھا کہ وہ محدود زمان ومکان کے لئے تھیں۔ اسلام کے تفصیلی احکام ایسے ہیں کہ یہ دائمی احکام ہیں اور اسلام کے جامع اصول ایسے ہیں کہ ان کے دائرے کے اندر ہر دور میں زندگی کے لئے ایک مفصل نظام وجود میں آسکتا ہے اور تاقیامت ان کی روشنی میں انسانی زندگی نشوونما پا سکتی ہے ‘ بغیر کسی مشکل کے ۔ الا یہ کہ زندگی ان اصولوں کے دائرے کے تابع ہوجائے اور پھر ایمان کے دائرے سے خارج ہوجائے ۔ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا پیدا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے یہ دین پسند کیا ہے جو اس کی دائمی شریعت پر قائم ہے ۔ اس لئے جو شخص یہ کہتا ہے کہ کل کا قانونی نظام آج کے لئے قانون اور شریعت کیسے ہو سکتا ہے ‘ وہ دراصل یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ انسان کی ضروریات کی بابت اللہ تعالیٰ سے زیادہ جانتا ہے اور وہ انسان کے طور طریقوں کا علم اللہ سے زیادہ رکھتا ہے ۔ غور وفکر کے اس وقفے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنی نعمت تمام کردی ہے اور یہ نعمت یوں تمام ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دین کو مکمل کردیا ہے ۔ بیشک یہ ایک مکمل ‘ ایک عظیم اور بھاری نعمت ہے ۔ اس نعمت کے ذریعے انسان کو ایک جدید جنم ملا ہے ۔ اور اس کے ذریعے اس کی نشوونما اور اس کے کمالات کے لئے راہیں کھل گئیں ہیں ۔ اس لئے کہ انسان جب تک اللہ کی معرفت اس طرح حاصل نہیں کرلیتا جس طرح یہ دین اللہ کی معرفت کے دروازے کھولتا ہے تو انسان اس وقت تک انسان ہوتا ہی نہیں ہے ۔ جب تک وہ اس کائنات کی حقیقت اس طرح معلوم نہ کرلے جس طرح اسے یہ دین سکھاتا ہے اور جب تک وہ اپنے نفس کی معرفت اس طرح حاصل نہ کرلے جس طرح اسے یہ دین سکھاتا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک ایک مکرم مخلوق ہے ۔ انسان صحیح معنوں میں موجود ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ کی غلامی کے سوا تمام غلامیوں کا انکار نہ کر دے اور ان سے نکل نہ آئے اور جب تک وہ اس حقیقی مساوات کو حاصل نہیں کرلیتا جو اللہ کی بنائی ہوئی شریعت کے تحت انسان کو حاصل ہوتی ہے ‘ جسے نہ کسی انسان نے دیا ہوتا ہے اور نہ اس میں کسی انسان کا دخل ہوتا ہے ۔ انسان کی جانب سے ان عظیم حقائق کا ادراک کرلینا ہی دراصل اس کے لئے ایک نیا جنم ہے بشرطیکہ وہ ان حقائق کا ادراک اسی انداز پر کرے جس پر اسے اس دین نے ادراک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس معرفت کے سوا انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایک حیوان ہو یا وہ زیر تعمیر اور زیر تشکیل انسان کا کوئی منصوبہ ہو لیکن اسے ایک مکمل انسان نہیں کہا جاسکتا ۔ وہ مکمل انسان تب ہی ہوگا جب وہ اس معیار کے مطابق جس کی تصویر قرآن نے کھینچی ہے ‘ ان حقائق کا ادراک نہ کرلے ۔ انسان کے اس قرآنی تصور اور ان تمام تصورات کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جو تصورات خود انسانوں نے از خود گھڑے ہیں ۔ (دیکھئے جز اول اور کتاب خصائص التصور الاسلامی) انسانی زندگی کے اندر اس تصویر کے نقوش بٹھا دینا ہی دراصل اس بات کا ضامن ہے کہ انسان کو مکمل انسانیت حاصل ہوگئی ہے اور یہ تصویر اس وقت مکمل ہوگئی جب ایک انسان اللہ پر پورا عقیدہ رکھے ‘ اللہ کے فرشتوں ‘ کتابوں رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے تو اس وقت انسانی حیوانی دائرہ محسوسات سے نکل کر انسانی عالم الغیب والشہادۃ میں داخل ہوگا ۔ وہ محسوسات سے بھی واقف ہوگا اور محسوسات سے بالا دنیا سے بھی واقف ہوگا ۔ وہ مادہ کا بھی عالم ہوگا اور فوق المادہ کا بھی عالم ہوگا اور اس طرح وہ حیوان کے محدود حسی دائرے سے باہر نکل آئے گا ۔ یہ کمال وہ عقیدہ توحید کے ذریعے حاصل کرے گا ۔ اس طرح وہ خود دوسرے انسانوں کی بندگی کے دائرے سے بھی نکل آئے گا اور صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرے گا ۔ یوں اسے حقیقی مساوات ‘ حقیقی آزادی اور ماسوا اللہ کے مقابلے میں حقیقی سربلندی نصیب ہوگی ۔ اب وہ صرف اللہ کی عبادت کرے گا ‘ صرف اللہ ہی سے شریعت اور نظام زندگی اخذ کرے گا ۔ وہ صرف اللہ ہی پر توکل کرے گا اور صرف اللہ سے ڈرے گا ۔ یہ مقام اسے اس وقت حاصل ہوگا جب انسان اسلامی نظام زندگی کے مطابق اپنی ترجیحات کی سطح کو بلند کرلے گا ۔ اپنے میلانات کو مہذب اپنی قوتوں کو تعمیر ‘ ترقی کے لئے وقف کر دے اور حیوانی خواہشات کے مقابلے کے لے اپنی قوتوں کو صرف کرے اور حیوانی اور بہائم کی طرف محض حصول لذتیت کے پیچھے نہ بھاگے۔ (دیکھئے کتاب ہذالدین) جس شخص نے جاہلیت کی زندگی میں وقت نہ گزارا ہو اور جس نے جاہلیت کی تباہ کاریاں نہ دیکھی ہوں ‘ وہ شخص نہ دین اسلام کی نعمت کا ادراک کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس نعمت کی صحیح قدر کرسکتا ہے ۔ جاہلیت ہر دور اور ہر مکان میں وہ نظام رہا ہے جو اللہ نے نہ بھیجا ہو ‘ لہذا جس شخص نے جاہلیت کو دیکھا ہے اور اس کا مزہ چکھا ہے ‘ تصورات اور نظریات میں اور عملی زندگی کے حالات میں وہ شخص صحیح معنوں میں جاہلیت کا احساس کرسکتا ہے اور اس کے بارے میں شعور رکھ سکتا ہے وہ اسکو اچھی طرح جان سکتا ہے اور صحیح معنوں میں وہی اس دین کی عظیم نعمت کا ادراک کرسکتا ہے ۔ جو شخص اندھے پن اور گمراہی کے مصائب میں مبتلا رہا ہو ‘ جو شخص ٹوٹ پھوٹ اور حیرانی و پریشانی کا شکار رہا ہو ‘ جو شخص تباہی اور ذہنی خلا کی مصیبت میں گرفتار ہوا ہو اور جس شخص کو کسی بھی دور میں اور کسی بھی جگہ جاہلی تصورات نے دکھ پہنچائے ہوں صرف وہی شخص ذوق ایمان کی قدر کرسکتا ہے ۔ (دیکھئے خصائص التصور الاسلامی کی فصل تیہ ورکام) جو شخص خودسری اور ظلم کی چکی میں پس چکا ہو ‘ جو ضبط اور اضطراب کا شکار رہا ہو ‘ جس کی زندگی افراط وتفریط میں گزری ہو اور جس نے جاہلیت کے طور طریقوں میں زندگی بسر کی ہو صرف وہی شخص اسلامی اور ایمانی نظام حیات کی قدر کرسکتا ہے ۔ (الاسلام ومشکلات الحضارہ کی فصل ضبط اور اضطراب) قرآن کریم نے عربوں کو سب سے پہلے خطاب کیا ۔ وہ اس کے الفاظ وکلمات کو اچھی طرح جانتے تھے ‘ اس کے الفاظ کے مفاہیم اور مدلولات ان کی زندگیوں میں عملا قائم رہے تھے ۔ یہ تمام چیزیں اس نسل میں تھیں جس کو قرآن نے خطاب کیا تھا ۔ وہ خود جاہلیت کے کل پرزے تھے ۔ انہوں نے جاہلی تصورات کو اپنے ذہنوں میں عرصے تک بسائے رکھا تھا ۔ انہوں نے جاہلیت کے اجتماعی روابط کو برتا تھا ‘ انہوں نے جاہلیت کے اجتماعی اور انفرادی اخلاق کے مظاہرے بار بار کئے تھے اور انہوں نے اس دین کے ذریعے جو کچھ پایا تھا اور اس کے ذریعے ان پر جو فضل وکرم ہوا تھا اسے بھی اپنی زندگی میں آزمایا تھا ۔ انہوں نے جاہلیت کی گراٹوں کو بھی دیکھا تھا اور اسلام کی رفعتوں کو بھی آزمایا تھا ۔ اسلام انہیں عرصے تک ساتھ لے کر چلا تھا اور انہوں اس دین نے شارٹ کٹ میں بلندیوں تک پہنچا دیا تھا ۔ (دیکھئے مقدمہ سورة نسائ) اور وہ نہایت ہی بلندیوں سے نہایت ہی مسرت سے اقوام عالم پر نگاہ ڈال چکے تھے اور ایک نظر پیچھے مڑ کر وہ ماضی کو بھی دیکھ رہے تھے ۔ اسلام نے انہیں کن کن پہلوؤں سے بلند کیا ۔ اعتقادات و تصورات میں جبکہ وہ پتھر کے بتوں کو رب سمجھتے رہے تھے ملائکہ ‘ جنوں ‘ ستاروں ‘ اور اپنے اسلام کو رب سمجھتے رہے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ احمقانہ اور غلط تصورات کو سینے سے لگائے ہوئے تھے ‘ ان تصورات سے اسلام نے انہیں نکال کر عقیدہ توحید میں داخل کیا ‘ ایک الہ واحد پر یقین ان کو عطا کیا جو رحیم وودود ‘ قادر وقاہر ‘ سمیع وبصیر ‘ علیم وخبیر ‘ عادل وکامل ‘ قریب اور مجیب اور بلاواسطہ الہ و معبود تھا ۔ سب اس کے بندے بن گئے ، وہ کاہنوں کی حکومت سے باہر آگئے وہ انسانوں کی ریاست سے نکل آئے اور وہم و خرافات کی حکمرانی سے باہر آگئے جس طرح اندھیرے سے روشنی میں آگئے ہوں۔ پھر اسلام نے اجتماعی طور پر طریقوں کے اندر بھی انہیں جاہلیت سے نکالا ، طبقاتی امتیازات ختم کردیئے ‘ قابل نفرت عادات چھڑا دیں ‘ وہ ظلم وستم سے باز آگئے کیونکہ جاہلیت میں وہ ہر برا کام کرلیتے جو بس میں ہوتا (یہ بات غلط مشہور ہے کہ عربی زندگی اسلام سے قبل ایک جمہوری زندگی تھی) میں یہاں استاد العقاد کی کتاب سے کچھ اقتباسات دیتا ہوں ۔ ” جزیرۃ العرب کے شمال سے لے کر جنوب تک تمام امراء اور سردار ان کے ہاں ظلم پر قدرت رکھنا عزت اور مرتبے کی نشانی تصور کی جاتی تھی ۔ مشہور شاعر نجاشی اپنے مخالف کی ہجو کرتے ہوئے ان کی ہجو میں یوں طنزیہ انداز میں مبالغہ کرتا ہے کہ وہ کمزور ہیں : قبیلہ لا یغدرون بذمۃ ولا یظلمون الناس حبہ حردل : (اس کا قبیلہ کسی ذمہ داری میں کبھی غداری نہیں کرتا اور اس کے قبیلے کے لوگ کسی پر رائی برابر بھی ظلم نہیں کرتے) حجر ابن الحارث عربی بادشاہ نے جب یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسد کو غلام بنا لے تو بنی اسد کے شاعر ان کی سفارش کے لئے آئے ۔ انہوں نے کہا : انت الملک فیھم وھم العبیدالی القیامۃ : ذلوالسوطک مثلما ذل الاشیقرذو الخزمۃ : (آپ نے ان کے بادشاہ ہیں اور وہ قیامت تک تمہارے غلام ہیں ‘ وہ آپ کے کوڑے کے سامنے اس قدر بےبس ہیں جس طرح گہرے زرد اور سرخ رنگ کا اونٹ اس شخص کے سامنے بےبس ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں اس کی نکیل ہوتی ہے) اور عمر ابن ہند بھی بادشاہ تھا جس نے لوگوں کو اس بات کا عادی بنا دیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ پس از پردہ خطاب کرے ۔ اور تمام عرب روساء کی مائیں اس کے گھر میں اس کی خدمت کرتیں۔ نعمان ابن مندر بھی عربی بادشاہ تھا ۔ وہ اس قدر ظالم اور احمق تھا کہ اس نے اپنے لئے دو دن مقرر کر رکھے تھے ۔ ایک خوشی کا دن جس میں جو بھی آتا اسے مویشی عطا کرتا اور ایک غم کا دن مقرر کیا ہوا تھا ‘ جس میں جو کوئی اس کے پاس آتا ‘ اسے وہ قتل کردیتا اور صبح سے شام تک یہی معمول رہتا ۔ کلیب ابن وائل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے کلیب اس لئے کہا جاتا تھا کہ جہاں اسے شکار پسند آتا وہ وہاں کتوں کا جھنڈ چھوڑ دیتا تھا ۔ اب کوئی شخص جو ان کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا وہ اس علاقے کے قریب جانے کی جرات نہ کرسکتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وادی عوف کے اندر کوئی شخص آزاد نہیں ہے ۔ اس لئے کہ وہ وادی عوف میں کسی آزاد شخص کو رہنے نہ دیتا تھا تاکہ اس کے پاس اس کی طرح اور کوئی آزاد شخص نہ رہے وہ تھے تو آزاد لیکن تھے غلاموں کی طرح ۔ (حقائق الاسلام ‘ العقاد ص ، 15 ‘ 151) ان عربوں کو اسلام نے اپنی عادات ‘ رسوم ‘ اخلاق اور اجتماعی تعلقات کے میدان میں جاہلیت سے اٹھایا انہیں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے ‘ عورتوں پر ظلم کرنے ‘ شراب نوشی اور جوا کھیلنے ‘ جنسی انارکی ‘ فحاشی وعریانی ‘ عورت کو حقیر سمجھنے اور اس کی توہین کرنے ‘ انتقام لینے ‘ ڈاکے ڈالنے ‘ تاخت و تاراج کرنے اور ہر حملہ آور کے مقابلے میں بزدلی دکھانے وغیرہ کی جاہلی کمزوریوں سے پاک کیا ۔ جہاں تک بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بزدلی اور بےاتفاقی کا معاملہ ہے تو اسلام سے قبل حبشیوں کا حملہ اس پر شاید عادل ہے ۔ تمام عرب قبائل جو ایک دوسرے کے مقابلے میں سخت ترین موقف رکھتے تھے وہ اس لشکر کا مقابلہ نہ کرسکے ۔ (دیکھئے تفسیر سورة فیل) پھر ان گندگیوں سے پاک کرکے اسلام نے عربوں کو ایک امت بنایا اس قدر سربلند امت کہ وہ نہایت ہی بلند مقام سے پوری انسانیت پر نظر ڈالتی تھی اور یہ انسانیت اس وقت گراٹوں کے اسفل السافلین میں تھی ، زندگی کے ہر شعبے میں اس وقت کی بشریت گری ہوئی تھی ۔ اس وقت یا اسلام کی سربلندی تھی اور یا جاہلیت کی گراوٹ تھی ۔ یہ نسل جانتی تھی کہ جاہلیت کیا ہے اور اسلام کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ خدا کے اس فرمان کا مفہوم اچھی طرح جانتے تھے ۔ (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ، (5 : 3) ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ، اور ایک بار پھر ہم ایک لمحہ فکریہ کے طور پر ذرا غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دین پسند فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت پر کیا کیا عنایات اور مہربانیاں ہیں ۔ خود ان کے لئے دین تجویز کرتا ہے اور پھر اسے قبول بھی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا انداز تعبیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اس امت کے ساتھ بےحد محبت کرتا ہے اور اس امت سے بہت راضی ہے کہ وہ اس امت کے لئے ایک نظام زندگی تجویز کرتا ہے ۔ یہ عظیم فرقان اس امت کے کاندھوں پر بہت ہی بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے جو اس ذمہ داری کے برابر ہے ۔ نعوذ باللہ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی اہل عظیم رعایت اور مہربانی کے مقابلے میں اس امت کے پاس ہے ہی کیا کہ وہ اللہ کے سامنے پیش کرے بلکہ اس امت کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کے پاس بھی اس نعمت کی برابری کے لئے کچھ نہیں ہے کہ وہ پیش کرسکے ، ہاں امت پر اس شکر نعمت کے بدلے میں اپنی حد تک جدوجہدفرض ہے ۔ اللہ کے انعامات کی پہچان اس پر فرض ہے یعنی اپنے فرض کا ادراک واجب ہے ۔ اس کے بعد اس کے لئے بقدر وسعت جدوجہد لازمی ہے اور اس کے اندر اپنی تقصیرات اور کوتاہیوں پر طلب مغفرت کرنا لازم ہے ۔ اللہ کی جانب سے اس امت کے لئے اسلام کو بحیثیت دین قبول کرنا ‘ اس امت سے سب سے پہلے مطالبہ یہ کرتا ہے ۔ کہ وہ اللہ کی اس پسند کی قدروقیمت کو سمجھے ، اس کے بعد وہ اس دین پر اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق جم جائے اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ بہت ہی کوتاہ بین ‘ بہت ہی احمق ہے کہ اس نے اللہ کی پسند اور اس کے انتخاب کو رد کردیا اور اپنے لئے خود کوئی دین اور نظام اختیار کرلیا ۔ یہ نہایت ہی خطرناک جرم ہوگا اس امت کی طرف سے اور اس پر اسے ضرور سزا دی جائے گی ۔ کبھی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسا شخص نجات پاجائے جبکہ اس نے اللہ کے انتخاب کو ٹھکرا دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض اوقات ان لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں جنہوں نے اسلام کو بطور دین قبول نہیں کیا کہ وہ جو چاہیں کریں اور ایک وقت تک نہیں مہلت دیتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اس دین کو اچھی طرح پہچان اور جان لیا اور پھر اسے ترک کردیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے لیے اس نظام کے سوا کوئی اور نظام ازخود منتخب کرلیا تو ایسے لوگوں کو اللہ ہر گز نہ چھوڑے گا اور نہ انہیں مہلت دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی بداعمالیوں کے وبال کو چکھ لیں جس کے وہ مستحق ہیں ۔ بس اس سے زیادہ تکمیل دین کے بارے اور ان عظیم کلمات کے بارے میں ‘ یہاں کہنا مناسب نہیں ہے ‘ بات بہت لمبی ہوگئی ہے ۔ اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ یہ تو قرآن کے پرتو ہیں ‘ اب ہم اس سورة کے سیاق کلام سے الگا ٹکڑا لیتے ہیں ۔
Top